ووٹ کو صحت دو

ہم ن لیگ والوں سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ میاں صاحب کی علالت بڑا سنگین معاملہ ہے۔

ہم ن لیگ والوں سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ میاں صاحب کی علالت بڑا سنگین معاملہ ہے۔ فوٹو: فائل

اکبرالہ آبادی نے اپنے دور کے سیاست دانوں کے بارے میں کہا تھا،
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ

وہ اُس دور کے راہ نما تھے، آج کے راہ نما کھاتے ہی نہیں کھلاتے بھی ہیں، اور اُن کے قوم کے غم میں مبتلا ہونے کا تو یہ حال ہے کہ اس غم میں کھو کر اپنا ہر غم بھول جاتے ہیں، یہاں تک کہ بیمار ہونا بھی یاد نہیں رہتا، لیکن جیسے ہی انھیں ان کی چہیتی لاڈلی قوم سے جُدا کرکے جیل میں ڈالا جائے فرُقت کا صدمہ اُنھیں علیل کردیتا ہے اور ان علیل راہ نماؤں کا دل چاہتا ہے کہ کوئی انھیں غلیل میں رکھ کر جیل کی دیواروں کے پار پھینک دے تاکہ وہ عوام کے پاس پہنچیں اور اپنے پیارے عوام کو گود میں اُٹھا کر ''ایک پپی اِدھر، ایک پپی اُدھر'' کریں، مگر ان کی یہ خواہش ڈیل، ڈھیل اور بیماری سے نڈھال ہوئے بغیر پوری نہیں ہوتی۔

سابق وزیراعظم نوازشریف کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے۔ کبھی وہ کہتے تھے ''کیوں نکالا'' اور اب کہتے ہیں ''نکال کیوں نہیں رہے۔'' اگرچہ قوم کی خاطر وہ قید رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے، مگر مچھروں کا کاٹنا اور دل میں عوام سے جُدائی کا کانٹا چین سے نہیں رہنے دیتا، اور اب تو شدید بیمار بھی ہیں جس میں ہمیں کوئی شک نہیں، اس لیے عدالت میں درخواست دی ہے کہ انھیں علاج کے لیے برطانیہ جانے کی اجازت دی جائے۔


جب وہ پچھلی مرتبہ قید ہوئے تھے تو پرویزمشرف سے معاملہ کرکے سعودی عرب کی راہ لی تھی، پھر سب نے دیکھا کہ ''بادشاہ، بادشاہ سے بادشاہ جیسا سلوک کرتا ہے'' کے اصول پر عمل ہوا اور نوازشریف کے دورِحکومت میں مقدمات میں کمرکمر تک دھنسے مشرف اسی کمر کے درد کو جواز بنا کر برطانیہ سُدھار گئے۔ عجیب بات ہے کہ ہمیں برطانیہ سے آزاد ہوئے ایک مُدت گزر گئی لیکن ہمارے سیاست داں انگریزوں کے دیس میں آباد ہونے کی روایت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جانے اس ملک کی فضاؤں میں کیا ہے کہ وہاں ان کی صحت بھی بنتی ہے جائیداد بھی۔

ہم نوازشریف صاحب کی تن درستی کے متمنی ہیں، اور چاہتے ہیں کہ وہ علاج کے لیے ملک سے باہر جائیں۔ بھئی ظاہر ہے وہ ہماری آپ کی طرح عام پاکستانی تو ہیں نہیں کہ بیمار ہوئے تو ایک ڈاکٹر سے دوسرے ڈاکٹر کے پاس دوڑے جارہے ہیں، فائدہ نہیں ہوا تو ہومیوپیتھ سے علاج کروارہے ہیں، وہاں بھی بات نہ بنی تو کسی حکیم کے مطب میں پائے جارہے ہیں، اور وہاں بھی ''کچھ نہ دوا نے کام کیا'' تو کسی پیر کے آستانے میں بیٹھے پانی پر پھنکوارہے ہیں۔ بڑے لوگ وضع دار بھی ہوتے ہیں، جس سے علاج کرانا ہے اُسی سے کرائیں گے، جیسے میرتقی میر جو بیمار ہوئے جس کے سبب اُسی عطار کے ''برخوردار'' سے دوا لیتے تھے۔ اسی طرح نوازشریف صاحب کا بھی اپنے برطانوی معالج کے بارے میں کہنا ہے ''وہی علاج کرے گا تو زندگی ہوگی۔''

پھر یہ بھی تو ہے ناں کہ ہمارے حکم رانوں نے ملک میں علاج کی معیاری سہولتیں فراہم ہی کب کی ہیں جو کوئی یہاں علاج کرائے، اب ''شریف آدمی'' یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ میرے ملک کے اسپتال اور ڈاکٹر اس قابل ہی نہیں کہ ان سے علاج کرایا جائے، وہ شرافت کا ثبوت دیتے ہوئے بس اتنا ہی کہہ سکتا ہے کہ علاج کے لیے باہر جانے دو۔ ویسے منطق یہی کہتی ہے کہ جس طرح کوئی آلودہ فضا کے باعث کسی مرض میں مبتلا ہوا ہے وہ صاف فضا میں پہنچ کر صحت یاب ہوجائے گا، اسی طرح جو ''اندر'' جاکر بیمار ہوا ہے ''باہر'' جاکر ٹھیک ہوجائے گا۔

ہم ن لیگ والوں سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ میاں صاحب کی علالت بڑا سنگین معاملہ ہے، چناں چہ اب ''ووٹ کو عزت دو'' کا نعرہ ذرا سا تبدیل کرکے ''ووٹ کو صحت دو'' کا نعرہ اپنالیں۔
Load Next Story