کچھ نئی وزارتیں
ہر وزیر کے اعلانات سُن کر پاکستانی قوم کبھی نوکریوں کی برسات کی تلاش میں آسمان کو تکتی ہے۔
متحدہ عرب امارات کے وزیراعظم شیخ محمد رشید المختوم نے ''وزارتِ امکانات'' کے قیام کا اعلان کیا ہے، جس کا کوئی وزیر نہیں ہوگا۔ یقیناً متحدہ عرب امارات کے وزیراعظم نے یہ وزارت پاکستان کی نقل کرتے ہوئے بنائی ہے، جہاں ہر وزارت وزارتِ امکانات ہے۔
ہر وزیر کے اعلانات سُن کر پاکستانی قوم کبھی نوکریوں کی برسات کی تلاش میں آسمان کو تکتی ہے، تو کبھی لاکھوں مکانات کی کھوج میں زمین پر نظر دوڑاتی ہے، اور پھر یہ سوچ کر خود کو مطمئن کرلیتی ہے کہ ''وابستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ''، وابستہ رہنے اور امیدبہار رکھنے کے لیے اشجار کی کوئی کمی نہیں، بہ قول وزیراعظم عمران خان ملک میں پانچ ارب درخت لگائے جاچکے ہیں۔
وزیراعظم یہ خوش خبری ملک میں رہتے ہوئے بھی سُنا سکتے تھے لیکن انھوں نے یہ اطلاع چین جاکر دی، وہ جانتے ہیں کہ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں، اس لیے ڈھول ہمیشہ دور جاکر بجانا چاہیے تاکہ سُہانا لگے۔ بہ ہر حال، قوم کو چاہیے کہ یہ پانچ ارب پیڑ ڈھونڈے، ان سے وابستہ رہ کر صبر کا پھل توڑ توڑ کر کھاتی رہے اور ان کی شاخوں پر جھولے ڈال کر حکومت کے گُن گاتی رہے۔
ہماری تجویز ہے کہ جس طرح متحدہ عرب امارات کی حکومت نے ہماری نقل کرتے ہوئے ''وزارت امکانات'' قائم کی ہے ہم بھی جواباً یا انتقاماً یو اے ای کی تقلید کرتے ہوئے اپنی ہر وزارت کو کوئی ایسا نام دے دیں جس میں کوئی ممکنہ پہلو نکلتا ہو، مثال کے طور پر بھارت کے حملے کا ڈراوا دینے والے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی وزارت کو ''وزارت خدشات'' کا نام دیا جائے، مالی امور کی ذمے داری ''وزارت صدمات'' کا نام پائے، اسے پیار سے ''وزارتِ قرضیات'' بھی کہا جاسکتا ہے۔
ماحولیات سے متعلق معاملات کے لیے ''وزارت سبزباغات'' ہو، صحت کا شعبہ ''وزارت برائے گرانیٔ ادویات'' کے تحت ہو۔ فیصل واوڈا کی وزارت آبی وسائل متعلقہ وزیر کے پانی کے بلبلوں جیسے دعووں کے باعث ''وزارت بُلبُلات'' کہلائے، اسے ''وزارت سرابیات'' کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ وزارت اطلاعات کے حالیہ دور میں فرائض کے پیش نظر اسے ''وزارت دفاع و وضاحتِ زبانی پھسلنیات'' قرار دینا مناسب ہوگا۔ ریلوے کی وزارت وزیرموصوف کی مناسبت سے ''وزارتِ شیخی بھگاریات'' کا نام پاسکتی ہے۔
اگرچہ ہم پاکستانیوں کو ''گھبرانا نہیں ہے'' لیکن جو صورت حال ہے اس میں گھبراہٹ، جھلاہٹ، بوکھلاہٹ اور بولاہٹ سے وہی بچ سکتا ہے جو انتہائی درجے کا ہٹ دھرم ہو، اس لیے قوم کو گھبراہٹ سے محفوظ رکھنے کی خاطر کئی وزارتوں کے قیام کی ضرورت ہے، جیسے ''وازرتِ توقعات''، ''وزارت انسدادِ وسوسہ جات''، ''وزارت تَسَلّیات''، ''وزارتِ خوابیات''،''وزارتِ گَپّیات۔'' ان وزارتوں کا کام بس قوم کو امید دلانے رہنا اور خواب دکھاتے رہنا ہوگا، ہمیں یقین ہے کہ جب اتنی وزارتیں مل کر ایک ہی کام کر رہی ہوں گی تو قوم توقعات میں یوں گِھرجائے گی کہ ذرا بھی نہ گھبرائے گی۔
ہر وزیر کے اعلانات سُن کر پاکستانی قوم کبھی نوکریوں کی برسات کی تلاش میں آسمان کو تکتی ہے، تو کبھی لاکھوں مکانات کی کھوج میں زمین پر نظر دوڑاتی ہے، اور پھر یہ سوچ کر خود کو مطمئن کرلیتی ہے کہ ''وابستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ''، وابستہ رہنے اور امیدبہار رکھنے کے لیے اشجار کی کوئی کمی نہیں، بہ قول وزیراعظم عمران خان ملک میں پانچ ارب درخت لگائے جاچکے ہیں۔
وزیراعظم یہ خوش خبری ملک میں رہتے ہوئے بھی سُنا سکتے تھے لیکن انھوں نے یہ اطلاع چین جاکر دی، وہ جانتے ہیں کہ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں، اس لیے ڈھول ہمیشہ دور جاکر بجانا چاہیے تاکہ سُہانا لگے۔ بہ ہر حال، قوم کو چاہیے کہ یہ پانچ ارب پیڑ ڈھونڈے، ان سے وابستہ رہ کر صبر کا پھل توڑ توڑ کر کھاتی رہے اور ان کی شاخوں پر جھولے ڈال کر حکومت کے گُن گاتی رہے۔
ہماری تجویز ہے کہ جس طرح متحدہ عرب امارات کی حکومت نے ہماری نقل کرتے ہوئے ''وزارت امکانات'' قائم کی ہے ہم بھی جواباً یا انتقاماً یو اے ای کی تقلید کرتے ہوئے اپنی ہر وزارت کو کوئی ایسا نام دے دیں جس میں کوئی ممکنہ پہلو نکلتا ہو، مثال کے طور پر بھارت کے حملے کا ڈراوا دینے والے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی وزارت کو ''وزارت خدشات'' کا نام دیا جائے، مالی امور کی ذمے داری ''وزارت صدمات'' کا نام پائے، اسے پیار سے ''وزارتِ قرضیات'' بھی کہا جاسکتا ہے۔
ماحولیات سے متعلق معاملات کے لیے ''وزارت سبزباغات'' ہو، صحت کا شعبہ ''وزارت برائے گرانیٔ ادویات'' کے تحت ہو۔ فیصل واوڈا کی وزارت آبی وسائل متعلقہ وزیر کے پانی کے بلبلوں جیسے دعووں کے باعث ''وزارت بُلبُلات'' کہلائے، اسے ''وزارت سرابیات'' کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ وزارت اطلاعات کے حالیہ دور میں فرائض کے پیش نظر اسے ''وزارت دفاع و وضاحتِ زبانی پھسلنیات'' قرار دینا مناسب ہوگا۔ ریلوے کی وزارت وزیرموصوف کی مناسبت سے ''وزارتِ شیخی بھگاریات'' کا نام پاسکتی ہے۔
اگرچہ ہم پاکستانیوں کو ''گھبرانا نہیں ہے'' لیکن جو صورت حال ہے اس میں گھبراہٹ، جھلاہٹ، بوکھلاہٹ اور بولاہٹ سے وہی بچ سکتا ہے جو انتہائی درجے کا ہٹ دھرم ہو، اس لیے قوم کو گھبراہٹ سے محفوظ رکھنے کی خاطر کئی وزارتوں کے قیام کی ضرورت ہے، جیسے ''وازرتِ توقعات''، ''وزارت انسدادِ وسوسہ جات''، ''وزارت تَسَلّیات''، ''وزارتِ خوابیات''،''وزارتِ گَپّیات۔'' ان وزارتوں کا کام بس قوم کو امید دلانے رہنا اور خواب دکھاتے رہنا ہوگا، ہمیں یقین ہے کہ جب اتنی وزارتیں مل کر ایک ہی کام کر رہی ہوں گی تو قوم توقعات میں یوں گِھرجائے گی کہ ذرا بھی نہ گھبرائے گی۔