سیاست میںخیرات نہیں ملا کرتی

سیاست میںخیرات نہیں ملا کرتی

zangar100@gmail.com

سعادت پارٹی ترکی کی مشہور سیاسی جماعت ہے۔ اسے نامور ترک سیاستدان، دینی اسکالر اور دو مرتبہ وزیراعظم بننے والے نجم الدین اربکان نے قائم کیا تھا۔ اربکان صاحب کے بغیر ترکی کی سیاسی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ ان کی رفاہ پارٹی نے الیکشن میں اچھی کارکردگی دکھائی، مگر اس پر پابندی لگ گئی۔ اربکان نے اس کے بعد فضیلت اور پھر سعادت پارٹی بنائی۔ رفاہ پر بندش کے بعد ہی نجم الدین اربکان کے سیاسی شاگردوں طیب اردگان اور عبداللہ گل نے سوچا کہ مین اسٹریم پالیٹکس کرنے کے لیے نئی حکمت عملی بنانی چاہیے۔ انھوں نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (ترکی زبان میں اے کے پی)بنائی جس نے الیکشن جیت لیا ، یوں طیب اردگان وزیراعظم بن گئے۔

طیب اردگان کی کامیابی نے دائیں بازو کی سیاست کو غیرمعمولی تقویت پہنچائی۔ اگرچہ انھوں نے قومی ایجنڈے پر سب کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی اور خود کو روایتی معنوں میں رائٹسٹ کہلانے سے گریز کیا۔ تاہم اسلامسٹوں کے بیشتر مطالبات انھی کے دور میں پورے ہوئے۔ مغربی میڈیا میں بہت سے مبصرین جسٹس پارٹی کو اسلامسٹ پارٹی ہی قرار دیتے ہیں۔ پچھلے تینوں قومی انتخابات میں جسٹس پارٹی نے علیحدہ الیکشن لڑا، ہر بار ان کے سیکولر مخالفین پورے جوش وخروش سے اکٹھے ہوئے اور کوشش کی کہ اسلامسٹوں کو شکست دی جائے ، یہ اور بات کہ انھیں منہ کی کھانی پڑی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں انتخابات میں نجم الدین اربکان کی سعادت پارٹی نے جسٹس پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے کے بجائے علیحدہ الیکشن لڑا۔

ہر بار انھیں بری طرح ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ سعادت پارٹی کو 2002ء میں ڈھائی فیصد، 2007ء میں سوا دو فیصد اور پچھلے سال ہونے والے الیکشن میں سوا فیصد ووٹ پڑے۔آج کل سعادت پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مصطفیٰ کمالک ہیں۔ دو سال پہلے سعادت پارٹی کے بطن سے ایک اور چھوٹی پارٹی نے جنم لیا، ترکی میں اس کا نام Has پارٹی ہے، اس کے سربراہ ڈاکٹر نعمان کرتلموش ہیں۔ اس پارٹی نے بھی پچھلے انتخابات میں علیحدہ حصہ لیا اور ایک فیصد کے قریب ووٹ لیے۔

یاد رہے کہ ترکی میں متناسب نمایندگی کا نظام رائج ہے ،جس کی رو سے ہرپارٹی کو حاصل کردہ ووٹوں کی بنیاد پر نشستیں حاصل ہوجاتی ہیں، تاہم دس فیصد سے کم ووٹ لینے والی جماعت کو کسی نشست کا حقدار نہیں سمجھا جاتا۔ ترکی میں پچھلے سال ہونے والے عام انتخابات اس لحاظ سے اہم ہیں کہ ان میں ایک خاص تناسب سے نشستیں حاصل کرنا جسٹس پارٹی کے لیے ضروری تھا کہ وہ آئین میں بڑے پیمانے پر ترامیم لانا چاہتی تھی ۔ الیکشن سے پہلے ترک میڈیا میں یہ رائے بھی آئی کہ جسٹس پارٹی کے ساتھ دونوں دوسری اسلامسٹ جماعتوں سعادت اور حاس پارٹی کو مل جانا چاہیے ،یوں ان کے ووٹ اکٹھے ہوکر زیادہ موثر کردار ادا کر سکیں گے۔ تاہم یہ کوششں ناکام رہیں۔ جسٹس پارٹی کے ایک اہم لیڈر سے اس حوالے سے پوچھا گیا تو اس نے صاف گوئی سے جواب دیا کہ ہمارے اور سعادت پارٹی کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔

ہم مرحوم اربکان کی عزت کرتے ہیں، ان کی پارٹی میں ہمارے کئی پرانے دوست بھی موجود ہیں، مگر ہمارا اختلاف پالیسیوں اور حکمت عملی پر ہے۔ اس لیے اگر ایسا کوئی اتحاد ہوبھی گیا تو وہ مصنوعی ہوگا۔ ہماری ترجیح ووٹوں کی خیرات مانگنے سے زیادہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو اس پارٹی کے ووٹروں کے لیے زیادہ پرکشش بنائیں۔


دراصل یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ پارلیمانی نظام انتخاب میں ہر جماعت اپنے منشور، اپنی پالیسیوں اور اپنی حکمت عملی کے مطابق انتخاب لڑتی ہے۔ کم ووٹ لینے والی جماعت کے پاس اس صورت میں موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کرے اور سوچے کہ زیادہ سے زیادہ ووٹروں کے کلسٹرز کے لیے اپنے آپ کو قابل قبول کس طرح بنایا جائے ۔ ہمارے ہاں پچھلے چالیس برسوں سے ایک عجیب وغریب فوبیا پھیلایا گیا۔ یہ پرو بھٹو فیکٹرہے۔ 1977ء کے انتخابات میں ملک کی تقریباً تمام بڑی جماعتیں اکٹھی ہوئیں اور ایک بڑا اینٹی بھٹو انتخابی اتحاد بنایا۔جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے بعد ایک بارآئی جے آئی کی شکل میں وہی تجربہ دہرانے کی کوشش کی گئی۔ نوے کے عشرے میںپرو بھٹو اور اینٹی بھٹو کی سیاست جاری رہی۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں البتہ یہ تاثر بڑی حد تک مٹ گیا۔ اٹھارہ فروری 2008ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ق نے ایک بھرپور اشتہاری مہم چلائی جس میں دوبارہ سے اینٹی بھٹو جذبات بھڑکانے کی کوشش کی۔ یہ کوشش بری طرح ناکام رہی۔ ووٹروں نے یہ بتا دیا کہ اب سیاست بہت آگے نکل چکی ہے۔ آجکل انتخابات کی تیاریاں پھر سے شروع ہو رہی ہیں تو ایک لابی دوبارہ سے اس اینٹی بھٹو خوف اور فوبیا کو جگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بعض بزرگ لکھاریوں نے پرانی پوتھیاں جھاڑ پونچھ کر کھول لی ہیں اور اعدادوشمار سے قوم کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ اگر اس بار اینٹی بھٹو اتحاد نہ بنا تو پھر پیپلزپارٹی اقتدار میں آ جائے گی۔ایک ''پر مغز'' مقالہ بھی برآمد کیا گیا ہے ،جس میں '' سائنٹیفک '' تجزیوں سے یہ راز کھولا گیا کہ اگر پیپلز پارٹی سے ملک بچانا ہے تو مسلم لیگ اور دیگر اینٹی پیپلز پارٹی اکٹھاکر کے انتخاب میں جانا چاہیے۔

تمام تر زور تحریک انصاف کو زیر دام لانے کا ہے۔تحریک انصاف اور جماعت اسلامی پر اخلاقی دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ یہ کوئی نہیں پوچھ رہا کہ آخر ووٹروں کا کیا قصور ہے ؟ وہ اینٹی پیپلز پارٹی ووٹر جو مسلم لیگ نواز کی کارکردگی سے مطمئن نہیں، جوپنجاب میں ان کی چار سالہ گورننس ملاحظہ کر چکے ہوں، بلکہ متاثرین گڈ گورننس ہیں،کیا انھیں اپنی ناپسندیدگی ظاہر کر نے کا کوئی حق حاصل نہیں؟ اگر مسلم لیگ نواز اپنی غلطیوں اور نااہلی کے باعث پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کو متاثر نہیں کر سکی تو کیا کسی دوسری نئی جماعت کو اپنی قسمت نہیں آزمانی چاہیے؟

کیا تحریک انصاف کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے تبدیلی کے نعرے پر مسلم لیگی، پیپلز پارٹی اور دیگر پارٹیوں کے روایتی ووٹرز کو اپنی طرف کھینچے۔ تحریک انصاف یہ تو ثابت کر چکی ہے کہ اس نے بڑی تعداد میں ووٹر لسٹ میں داخل ہونے والے نئے یوتھ ووٹ میں جگہ بنائی ہے اور خاص کر ان پڑھے لکھے ووٹروں کو دوبارہ سے متحرک کیا،جو برسوں سے سیاست سے متنفر ہوچکے تھے، الیکشن کا دن سو کر گزارنا جن کا شعار بن گیا تھا۔
اصل میں ایک بنیادی نقطہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ۔ پرو پیپلز پارٹی ووٹ میں زیادہ ڈینٹ نہ پڑنے کی ایک وجہ پیپلز پارٹی کے ووٹرز کو ٹارگٹ نہ بنانا بھی ہے۔ '' سائنٹفک '' تجزیے میں یہ تو بتایا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی ستر سے لے کر آج تک تیس سے چالیس فیصد ووٹ لیتی آئی ہے، یہ کوئی نہیں بتاتا کہ اس ووٹ بینک کے اجزا کیا ہیں؟ دراصل اس میں بڑا حصہ اندرون سندھ کے ووٹوں کا ہے جسے آج تک کوئی جماعت اس طرح اٹریکٹ کر ہی نہیں پائی۔ ستانوے کے انتخابات میں پہلی بار مسلم لیگ نواز نے سندھ میں کچھ جگہ بنائی ،مگر پھر وہ سندھ کے موڈ کو نہیں سمجھ پائے، نالائق قیادت اس پر مسلط کر دی اور ایٹمی دھماکہ کرنے کے بعد کالا باغ ڈیم بنانے کا اعلان کر کے سندھ میں اپنی گڈ ِول ضایع کر دی۔

پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کا دوسرا بڑا حصہ سرائیکی بیلٹ میں ہے۔ مظفر گڑھ،وہاڑی، لیہ، لودھراں، ملتان اور رحیم یار خان جیسے اضلاع میں پیپلز پارٹی ہمیشہ بڑی تعداد میں نشستیں لیتی آئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ مسلم لیگ نواز کی جانب سے سرائیکی موڈ کو نہ سمجھنا اور مقامی سرائیکی لیڈروں کے ساتھ بیزاری پر مبنی سلوک ہے۔ مسلم لیگ ن نے منڈی یزمان، بہاولنگر اور رحیم یار خان شہرکے سیٹلرزووٹ میں تو اپنا اثر بنایا ، مگر سرائیکیوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا۔ بھٹو صاحب ہوں یا محترمہ بے نظیر بھٹو، ان دونوں نے ہمیشہ سرائیکیوں کی نبض پر انگلی رکھی۔ عملی طور پر وہ بھی سرائیکیوں کو کچھ نہیں دے سکے ،مگر ان کی عزت نفس کا کچھ نہ کچھ ضرور خیال رکھا۔یہی حال خیبر پختون خواہ میں پیپلز پارٹی کی مخصوص پاور پاکٹس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے۔

اگر مسلم لیگ ن الیکشن میں پیپلز پارٹی کو شکست دینا چاہتی ہ... وہ اگر یہ چاہتی ہے کہ دوسری جماعتیں اس کا ووٹ بینک متاثر نہ کر پائیں تو دائیں بائیں سے ووٹوں کی خیرات طلب کرنے کے بجائے اسے پرو پیپلز پارٹی ووٹ میں ڈینٹ ڈالنا چاہیے۔ اسے اپنے آپ کو پرو پیپلز پارٹی بلاکس کے لیے قابل قبول بنانا ہوگا۔ سیاست میں دوسری جماعتوں کو اموشنل بلیک میل کر کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ووٹ صدقے، خیرات میں نہیں ملتے۔ اس کے لیے ٹھوس حکمت عملی بنانی پڑتی ہے۔ یہ معرکے اخباری کالموں میں سر نہیں ہوسکتے۔
Load Next Story