ہمارا صحیح اور ہماراغلط

جن سے ہم محبت کرتے ہیں اُن کی لوٹ مار نقب زنی اور چوری چکاری اُن کی بے گناہی کا ثبوت ہوتی ہے۔

moosaafendi@gmail.com

ہر آدمی چیزوں اور باتوں کویاصحیح سمجھتا ہے یا پھر غلط۔ صحیح اورغلط کے القاب ہم صرف چیزوں باتوں ، خیالات ، نظریات ، جگہوں ملکوں اور علاقوں پرہی نہیںلگاتے بلکہ لوگوں ، رشتوں تعلقات رسم ورواج ، تہذیب واخلاق اور مذہبی اور شرعی احکامات پر بھی لگاتے ہیں۔ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟

ایسا لوگ اس لیے کرتے ہیں کہ ایسا کرنے کے علاوہ اُن کے پاس کوئی چارہ نہیں ۔ چونکہ کوئی بھی شخص اپنی پیدائش کاخود ذمے دار نہیں ہوتا اس لیے اس کا چیزوں اور باتوں کا صحیح اور غلط سمجھنا ہی اُسے اپنے وجود کا جواز فراہم کرتا ہے ۔اگر وہ بظاہر اپنی مرضی اور منشا کے مطابق باتوں یا چیزوں کوصحیح یا غلط نہ سمجھے تو وہ اپنے وجود کا انکاری گردانا جائے گا۔ آدمی سب کچھ کرسکتاہے لیکن خود اپنے وجود کا انکار نہیں کرسکتا۔

آدمی کی یہی الجھن شروع دن سے اُسے آگے بڑھا رہی ہے۔اِسی الجھن کے نتیجہ کے طور پر آدمی ہزاروں سال کے سفر کے بعد آج ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے دور میںداخل ہوگیاہے ۔کائنات کی تسخیر اللہ نے آدمیت کے نصیب میں لکھ دی ہے اسی لیے بار بار غور وفکر کی ہدایات جاری ہوتی رہی ہیں۔ آدمیت کی بدبختی اس بات سے آشکار ہوتی ہے کہ تسخیر کائنات کے مدارج طے کرتے کرتے ڈیجیٹل دور میں لانے والے لوگ خالق کائنات کو ماننے والے نہیں رہے جب کہ بظاہر خالق کائنات کو ماننے والے لوگ تسخیر کائنات کی الف بے سے بھی واقف نہیں ۔

خالق کائنات کے احکامات پر عمل پیرا ہونا چھوڑ اُس کے احکامات کی سمجھ تک نہیں رکھتے ۔ اللہ کو واحدہ لاشریک ماننے والے ایک دوسرے کی جان کے دشمن اور چورا چورا ہونے کے باعث اِس بات کا برملا اعلان کررہے ہیں کہ غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط سمجھنے کے گناہ عظیم کے مرتکب ہورہے ہیں ؟ اس لیے وہ ایک خدا ایک رسول ایک قرآن اور ایک قبلہ ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے میں زندگیاں گذار کر اپنے کو صحیح ثابت کرنے پربضد رہتے ہیں ۔اس طرزفکر کے اثرات کیاہیں؟


اس طرز فکر کے اثرات ہمارے باہمی تعلقات کی ہر نہج اور اونچ نیچ میںظاہر ہوتے ہیں۔ اِس طرز فکر کے باعث ہم کسی چیز یا بات کو سچائی کے آفاقی پیمانوں پرنہیں بلکہ اپنی ذاتی پسند و ناپسند پر ماپتے ہیں۔ حضرت علی فرماتے ہیں '' یہ دیکھو بات کیا کی جارہی ہے یہ نہ دیکھو کہ بات کون کررہاہے'' کیوں؟ اِسلیے کہ بات خود بولتی ہے کہ وہ صحیح ہے کہ غلط بولنے والاکوئی بھی ہو صحیح بات بھی کرسکتاہے اور غلط بات بھی لیکن ہم ایسا نہیں سوچتے، ہمیں جو اچھا لگتاہے اس کی ہربات اچھی لگتی ہے چاہے وہ بات غلط ہی کیوں نہ ہو۔

جھوٹ اور دھوکہ ہی کیوں نہ ہو۔ ظالم کے حق میں اور مظلوم کے خلاف ہی کیوںنہ ہو ہمیں اچھی لگتی ہے کیونکہ بات کرنے والا ہمیں اچھا لگتاہے۔ ہم جس سے محبت کرتے ہیں اُس کی ہر چیز سے محبت کرتے ہیں ۔ اُس کی بدصورتی بھی ہمارے لیے حُسن جہاں بن جاتی ہے اُس کا جھوٹ بھی سچ اُس کی دھوکہ دہی بھی وفا شعاری اُس کی وعدہ خلافی بھی قابل ستائش و ہ رات کو دن کہے تودن اور دن کورات کہے تو رات بن جاتاہے۔ اُس کی ایک نگاہ التفات اس کے پیروکاروں کو ایسے ویسوں سے کیسے کیسے اور کیسے کیسوں کو ایسے ویسے بنادیتی ہے ۔

جن سے ہم محبت کرتے ہیں اُن کی لوٹ مار نقب زنی اور چوری چکاری اُن کی بے گناہی کا ثبوت ہوتی ہے کیونکہ محبت آدمی کو ماں کی طرح اندھا کردیتی ہے جو اپنے لچے لفنگے بدمعاش چور قاتل اور گلی کے غنڈے لاڈلے کو بھی لاکھوں میں ایک سمجھتی ہے۔ اُس کی طرف میلی نظر سے دیکھنے والے کی آنکھیں نکالنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ اُس کے لیے سچ اور جھوٹ آفاقی نہیں ذاتی ہیں ۔ ہم دنیا بھر میںآج اسی لیے مضحکہ خیز بن چکے ہیں کیونکہ ہمارا سچ آفاقی نہیںذاتی بن چکا ہے ہمارا جھوٹ معروضی نہیں موضوعی بن چکاہے اس لیے ہم ہر برائی اچھائی سمجھ کر کرتے ہیں۔

اس ذہنی کیفیت کے ساتھ تو ایک فرد بھی قابل برداشت نہیںہوسکتا چہ جائیکہ اس ذہنی کیفیت کا شکار ایک معاشرہ ہوجائے۔ ایک قبیلہ یا قوم ہوجائے جن لوگو ں کے نزدیک سچ اور جھوٹ، غلط اور صحیح کی معروضی اور آفاقی بنیادیں ڈھے جائیں اور ان کاضابطہ حیات ذاتی پسند و ناپسند پر استوار ہوجائے وہ لوگ اور ان لوگوں پر مشتمل معاشرہ ، قوم اور ملک ایک بدبودار جمود کا شکار ہوجاتے ہیں جو ایک لاش کی مانند نوچ نوچ کر کھائے جانے کے لیے اردگرد منڈلاتے گدِھوں کے رحم وکرم پر رہ جاتی ہے۔
Load Next Story