مسلم لیگ ن کی نئی سیاسی انگڑائی
مسلم لیگ ن میں ’’ بیانیہ کی جنگ یا مجھے کیوں نکالا کے تناظر میں پارلیمنٹ اورجمہوریت کی بالادستی ‘‘ کی جنگ تھی۔
مسلم لیگ ن سیاسی تنہائی کا شکار ہے ۔ یہ تنہائی اس کی داخلی سیاست کے تضادات سے جڑی ہوئی ہے ۔ مسلم لیگ ن شریف خاندان کے گرد گھومتی ہے ۔ اس کے ماضی اور حال پر شریف خاندان کی بالادستی ہے اور مستقبل کی تصویر میں مریم نواز اورحمزہ شہباز کو ہی فوقیت حاصل ہوگی ۔ اگرچہ مریم نواز اور حمزہ شہباز کے درمیان بھی سیاسی ٹکراو ہے , لیکن اس ٹکراو کے باوجود شریف خاندان ذہنی طور پر تیار نہیں کہ پارٹی پر گرفت ان کے خاندان کے علاوہ کسی اور کی ہونی چاہیے ۔
پچھلے ایک ڈیڑھ برس میں مسلم لیگ ن میں '' بیانیہ کی جنگ یا مجھے کیوں نکالا کے تناظر میں پارلیمنٹ اورجمہوریت کی بالادستی '' کی جنگ تھی۔ نواز شریف اورمریم نواز نے اقتدار سے بے دخلی کے بعد جو مزاحمتی بیانیہ پیش کیا اسے ہمارے بہت سے جمہوری طبقوں میں بڑی پذیرائی ملی ۔یہ نکتہ پیش کیا گیا کہ نواز شریف واقعی جمہوریت کی بالادستی کی جنگ لڑنا چاہتے ہیں اوراس جنگ میں جمہوری قوتوں کو ان کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے ۔لیکن المیہ یہ تھا کہ اس مزاحمتی جنگ میں خود ان کی جماعت تقسیم تھی ۔ اس تقسیم میں خود ان کے بھائی شہباز شریف مفاہمتی بیانیہ تھا ۔
اس مفاہمتی تقسیم کا شکار خود نواز شریف اورمریم نواز بھی ہوئے اوران کی اپنے ہی بیانیہ پر مکمل خاموشی نے انکو بھی تنہا کیا ۔ یہ تصور سیاسی طورپر مضبوط ہوا کہ نواز شریف اور مریم نواز کی خاموشی کے پیچھے ایک کہانی ہے ۔شہباز شریف کی مفاہمت کی سیاست نے نواز شریف اور مریم کو وہ کچھ نہیں دیا جو وہ چاہتے تھے اورنہ ہی ان کی سیاسی اور قانونی مشکلات کم ہوئیں ۔شہباز شریف نے ایک خاص حکمت عملی کے تحت نواز شریف کے سیاسی جنگجو افراد کو پارٹی میں دیوار سے لگا کر سارے معاملات پر اپنا کنٹرو ل بھی قائم کرلیا اوروہ نجی مجالس میں برملا کہتے تھے کہ پارٹی اورخاندان پر جو مشکلات آئیں ہیں وہ نواز شریف کے نادان مشیروں کی وجہ سے ہوا ہے ۔
نواز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سیاسی اور قانونی دونوں محاذ پر مشکلات کا شکار ہیں ۔ اس سے نکلنے کی جو بھی کوشش انھوں نے کی وہ ابھی تک عملا نتائج نہیں دے پائی ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف اورمریم نواز میں پرجوشیت کے مقابلے میں مایوسی کا عنصر غالب ہے اوران کی اس وقت سیاسی بے بسی کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں ۔ شہباز شریف جو قائد حزب اختلاف ہیں خود مشکل صورتحال میں پارٹی کو چھوڑ کر لندن علاج کے بہانے جا بیٹھے ہیں ۔جب کہ نواز شریف خود, ان کی جماعت اور ان کے ذاتی ڈاکٹر بضد ہیں کہ نواز شریف کو ہر صورت علاج کے لیے باہر بھیجا جائے , لیکن عدالت نے ان کی اس درخواست کو مسترد کرکے ان کو اور زیادہ مشکل میں ڈال دیاہے ۔نواز شریف اوراس کی قانونی ٹیم کو اندازہ ہے کہ عدالتوں سے قانونی ریلیف ممکن نہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی پوری کوشش ہے کہ ان قانونی عمل کو سیاسی رنگ دے کر متنازعہ بنادیا جائے تاکہ سیاسی فائدہ یا سیاسی شہید بننا ممکن ہوسکے ۔
اب مسلم لیگ ن نے جس انداز سے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پی اے سی کے چیرمین شہباز شریف کے مقابلے میں نواز شریف کے قریبی ساتھی خواجہ آصف کو پارلیمانی لیڈر اورپبلک اکاونٹس کمیٹی کے سربراہ کے طور پر رانا تنویر حسین کو مقرر کیا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ اب سیاسی ریموٹ کنٹرول شہباز شریف کے مقابلے میں براہ راست نواز شریف یا مریم نواز اپنی مرضی سے چلانا چاہتے ہیں ۔یہ تبدیلی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوئی یقینا کچھ تو ہے جس پر پردہ ڈالا جارہا ہے اور شہباز شریف کا واپس نہ آنا بھی خود ایک بڑا مسئلہ ہوگا اور جو پہلے سے موجود تقسیم کو اور نمایاں کرے گا ۔
اسی طرح بڑے پیمانے پر جماعت کی تنظیم میں بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں جن میں شاہد خاقان عباسی سنیئر نائب صدر، چوہدری احسن اقبال سیکریٹری جنرل، مریم نواز نائب صدر، جب کہ 16نائب صدور میں حمزہ شہباز، عابد شیر علی، سردار ایاز صادق، برجیس طاہر، خواجہ سعد رفیق، خرم دستگیر، جاوید لطیف، محمد زبیراور پرویز رشید، مشاہد اللہ سمیت دیگر لوگ شامل ہیں ۔ جب کہ عالمی امور کے معاملات کی سربراہی اسحاق ڈار، طلال چوہدری کو جائنٹ سیکریٹری،مریم اورنگزیب کو سیکریٹری اطلاعات، طارق فاطمی پالیسی اورریسرچ کے سربراہ ہونگے ۔جب کہ پنجاب میں رانا ثنااللہ کو صدر اور اویس لغاری کو پارٹی کا جنرل سیکریٹری مقرر کیا گیا ہے ۔
حالیہ نئی تقرری کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں زیادہ تروہ لوگ شامل ہیں جو شہباز شریف کے مقابلے میں نواز شریف یا مریم نواز کے زیادہ عملی طور پر قریب سمجھے جاتے ہیں ۔یہ تقرریاں ظاہر کررہی ہیں کہ شہباز شریف کی حیثیت کمزور اور مریم نواز اپنا سیاسی قد کاتھ بڑھانے کی کوشش کررہی ہیں ۔ بہت سے سیاسی پنڈت یہ پیش گوئی بھی کررہے ہیںکہ نواز شریف اور مریم نواز کو اندازہ ہوگیا ہے کہ ان کا اپنا سیاسی بیانیہ جس پر انھوں نے خاموشی اختیار کرلی تھی وہ ہی سیاسی ہتھیار بھی ہے اورکارگر بھی ہوگا ۔ یہ تاثر بھی موجود ہے کہ جو پس پردہ ڈیل کی باتیں چل رہی تھیں اس میں بھی ناکامی نے شریف خاندان بالخصوص نواز شریف اورمریم کو مجبور کیا کہ وہ اپنے سیاسی کنٹرول کو مضبوط بنائیں ۔اس لیے حالیہ لڑائی شریف خاندان کی داخلی طاقت کی ہے اور یہ خاندان خود اپنی ہی جماعت کو کمزور کرنے کا سبب بن رہے ہیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی مسلم لیگ ن اور نواز شریف یا مریم نواز اپنے ہی بیانیہ کی جنگ میں دوبارہ شدت پیدا کرسکتے ہیں ۔ ہم سے بہت سے لوگ مسلم لیگ ن کی سیاست کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے ۔ مسلم لیگ بطورجماعت اوراس میں شامل افراد کی مجموعی تعداد اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراو کی سیاست کا مزاج ہی نہیں رکھتے ۔ یہ ہی وجہ تھی کہ پارٹی میں نواز شریف کے بیانیہ کو کسی حد تک میڈیا میں پزیرائی تھی مگر خود پارٹی کے لوگ حیران تھے کہ ہم کیوں اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراو کی سیاست کریں۔
اب جب کہ نواز شریف کا کردار بھی محدود ہورہا ہے ایسے میں کوئی بھی تحریک یا اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست کے امکانات بطور مسلم لیگ ممکن نہیں جو نئے لوگ سامنے آئے ہیں وہ بھی اگر کوئی سمجھ رہا ہے کہ ڈھول بجا کر یا سیاسی لنگوٹ کس کر اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست کا حصہ بننے جارہے ہیں یہ خوش فہمی پر مبنی سیاست ہوگی۔ اس کی ایک وجہ نواز شریف قانونی محاذ پر کمزور وکٹ پر کھڑے ہیں اور ان کی آنے والے دنوں میں قانونی پیچیدگیاں کم نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھنے والی ہیں ۔یہ بھی ممکن ہے کہ اس بیانیہ کی جنگ کو بنیاد بنا کر اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دیا گیا ہو کہ ہم سے ہر صورت مفاہمت یا ڈیل کی کوئی صورت نکالی جائے وگرنہ ہم سیاسی انتشار پیدا کرسکتے ہیں۔
اسی طرح حالیہ دنوں میں پنجاب میں مقامی حکومتوں کے نئے قانون کی منظوری کے بعد سابقہ مقامی حکومتوں کو ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے اور یہ خود مسلم لیگ ن کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکہ ہے ۔کیونکہ پنجاب میں مجموعی طور پر صرف مسلم لیگ ن کو ہی اس نظام پر برتری تھی اور اب ان اداروں کی تحلیل کے بعد مقامی سطح پر مسلم لیگ کی اقتدار پر مبنی طاقت بھی ختم ہوگئی ہے ۔
اس لیے نئی تقرریوں کومحض ایک بڑی سیاسی تحریک یا سیاسی بیانیہ کی جنگ میں شدت پیدا کرنے یا اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراو کی سیاست کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے صرف پارٹی کی داخلی سیاست پر پہلے سے جاری چپقلیش نواز شریف اورشہباز شریف کے حامیوں کے درمیان نئی صف بندی سے ہے ۔نواز شریف اور مریم نواز نے حالیہ تبدیلی سے یہ خاموش پیغام دیا ہے کہ اب جماعت میں شہباز شریف کی سیاست نہیں بلکہ و ہ خود پارٹی کو عملا لیڈ کریں گی۔ لیکن یہ حالیہ تبدیلی کا عمل بھی مسلم لیگ ن کی داخلی سیاست کے تضادات کو کم نہیں بلکہ اورزیادہ نمایاں کرے گا جو نئی تقسیم کا سبب بھی بن سکتا ہے اور یہ ہی شریف خاندان کی سیاست کا المیہ بھی ہے ۔