قومی سلامتی کونسل سویلین فوجی حکام میں پل کا کردار ادا کریگی

ماضی میں یہ فورم متنازع رہا، اب فریقین نے ایک دوسرے کی ضرورت کو تسلیم کرلیا


Tanveer Qaisar Shahid August 23, 2013
ماضی میں یہ فورم متنازع رہا، اب فریقین نے ایک دوسرے کی ضرورت کو تسلیم کرلیا. فوٹو: فائل

یہ خبر ملک بھر کے اہلِ دانش اور سنجیدہ حلقوں میں اطمینان اور مسرت کے جذبات سے سُنی گئی ہے کہ وزیرِ اعظم نواز شریف نے کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نیشنل سیکیورٹی کونسل کی تشکیلِ نو کااعلان کر دیا ہے۔

گزشتہ روز کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس غیر معمولی طور پر اہم گردانا گیا ہے جس میں جنرل اشفاق پرویز کیانی، ائر چیف طاہر رفیق بٹ، امیر البحر آصف سندھیلہ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل وائیں، وزیرِ اعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیز، طارق فاطمی، وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار، وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان، وزیرِ اطلاعات سینیٹر پرویز رشید اور سیکرٹری خارجہ جیل عباس جیلانی و دیگر نے شرکت کی۔ رواں لمحوں میں ایل او سی پر بھارت نے جو سنگین صورتحال پیدا کر رکھی ہے (جس کی وجہ سے دو روز قبل پاک فوج کے ایک کپتان حافظ سرفراز میر شہید کر دیے گئے) اِس پس منظر میں اِس اجلاس اور مذکورہ فیصلے کو غیر معمولی قرار دیا جا رہا ہے۔

پاکستان میں نیشنل سیکورٹی کونسل بنانے کا بنیادی تصور جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں سامنے آیا۔ خیال تھا کہ یہ ادارہ رکن مشیروں کی ایک کونسل کے ساتھ صدرِ مملکت اور وزیرِ اعظم کو قومی سلامتی کے حساس معاملات اور خارجہ امور پر صلاح مشورے بھی دے گا اور اپنی سفارشات بھی وقتاً فوقتاً پیش کرتا رہے گا لیکن اِس تصور کو باقاعدہ ایک ادارے کی شکل میں ڈھالنے کا کام متنازعہ ہی رہا۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف وزیرِ اعظم نواز شریف کا تختہ اُلٹنے کے بعد برسرِ اقتدار آئے تو اُنہوں نے اپریل 2004ء میں نیشنل سیکورٹی کونسل ایکٹ کے تحت نیشنل سیکورٹی کونسل کو دوبارہ تخلیق کیا۔ اِس کے پہلے طاقتور ایڈوائزر طارق عزیز کو تعینات کیا گیا جو پیشے کے اعتبار سے تو انکم ٹیکس کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے لیکن اِس اہم ترین عہدے پر فائز ہونے کے لئے اُن کا سب سے بڑا ''اعزاز'' یہ تھا کہ وہ جنرل مشرف کے ایف سی کالج (لاہور) میں ہم جماعت بھی تھے اور بعد ازاں بہت سے رازوں کے امیں بھی۔



جنرل مشرف نے نیشنل سیکورٹی کونسل کے اپنے ایڈوائزر طارق عزیز کے ساتھ میجر جنرل احتشام ضمیر کو بھی لگا دیا جو آئی ایس آئی کے پولیٹیکل وِنگ کے سربراہ تھے۔ میجر جنرل (ر) احتشام ضمیر نے بعد ازاں ایک انگریزی اخبار کو 24 فروری 2008ء کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اُنہوں نے جنرل مشرف کے حکم کے تحت 2002ء کے انتخابات میں دھاندلی کروائی تھی اور یہ کہ انہوں نے جنرل مشرف کے من پسند سیاستدانوں کو اپنی طاقت سے جتوایا تھا۔ اٹھارہ اگست 2008ء کو جب جنرل پرویز مشرف نے استعفیٰ دیا تو طارق عزیز بھی نیشنل سیکورٹی کونسل سے از خود علیحدہ ہو گئے۔ اُن کے جانے کے بعد میجر جنرل (ر) محمود درانی اِس عہدے پر براجمان ہوئے۔

پاکستان پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار میں آئی تو اُس نے پارلیمنٹ کی اشیر واد سے نیشنل سیکورٹی کونسل کو منجمد کر کے بے اثر کر دیا تھا اور اس کی جگہ ڈی سی سی (ڈیفنس کیبنٹ کمیٹی) نے لے لی۔ اب ایک بار پھر نیشنل سیکورٹی کونسل کا غلغلہ اُٹھا ہے۔ گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت میں وزیرِ اعظم نواز شریف کے زیرِ صدارت کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں نیشنل سیکورٹی کونسل کی تشکیل نو کر دی گئی۔ وزیرِ اعظم اِس کے سربراہ اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ہوں گے جبکہ چاروں وزرائے اعلیٰ، وزیرِ دفاع، وزیرِ داخلہ، وزیرِ اعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ اِس کے رکن ہوں گے۔ نئی نیشنل سیکورٹی کونسل دراصل سویلین اور فوجی حکام کے درمیان بہترین اور مضبوط پُل کا کردار ادا کرے گی۔ ملک کے بہترین مفاد میں دونوں نے ایک دوسرے کی ضرورت کو تسلیم کر لیا ہے۔

یہ باہمی کوارڈی نیشن رواں حالات میں، جبکہ ملک بھر میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال دگر گوں ہے، ملک اور عوام کے بہترین مفاد میں ثابت ہو گی۔ نیشنل سیکورٹی کونسل کی تشکیلِ نو اِس لئے بھی ملک کے لئے مفید ثابت ہو گی کہ اگلے برس افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا عمل میں آ رہا ہے، ملک میں شدت پسند قوتوں کے ساتھ وزیرِ اعظم کی طرف سے مذاکرات کا عندیہ دیا جا چکا ہے اور ایل او سی پر بھارت کے مذموم عزائم نے تشویشناک صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ ایسے میں وزیرِ اعظم نواز شریف کی زیرِ نگرانی نیشنل سیکورٹی کونسل کی تشکیلِ نو بھارت کے لئے بھی ایک واضح پیغام ثابت ہو سکتا ہے۔ ملک کے استحکام، دہشت گردی کے خاتمے اور پاکستان کے شاندار سٹریٹجک اثاثوں کے تحفظ کے پیش منظر میں یہ فیصلہ مستحسن کہا گیا ہے۔ خصوصاً اِس حوالے سے بھی کہ چند روز قبل ہی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان نے بھی اعلان کیا تھا کہ نیشنل سیکورٹی پالیسی کا پہلا ڈرافٹ تیار کر لیا گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں