سیمنٹ چاک اور فائبر سے نمائشی مجسموں کی تیاری
کسی بھی ماڈل کی شکل وشبہات بناتے وقت خاصی محنت درکاراورذہانت درکار ہوتی ہے
ملک بھر میں ہاؤسنگ سوسائیٹز ، پارکس اور گھروں کی سجاوٹ کے لیے جانوروں اور پرندوں سمیت معروف شخصیات کے خوبصورت اوردیدہ زیب ماڈلز استعمال کیے جاتے ہیں، لاہور میں چند کاریگر ایسے ہیں جن کے ہنرمند ہاتھ یہ خوبصورت اوردیدہ زیب ماڈل تیارکرتے ہیں، یہ ماڈلز پاکستان کے مختلف شہروں سمیت بیرون ملک بھی بھیجے جاتے ہیں۔
ملتان روڈ سندر اڈہ کے قریب دی آرٹ ویلی کے نام سے ایک ورکشاپ قائم ہے ، جہاں سیکڑوں اقسام کے جانوروں ،پرندوں ، معروف شخصیات سمیت ڈیکوریشن ماڈلزتیارکرکے رکھے گئے ہیں۔ اس آرٹ ویلی میں داخل ہوں توایک لمحے کوایسے لگتاہے جیسےکسی پتھرکی وادی میں آگئی ہے جہاں کسی جادوسے ہرچیزپتھرہوچکی ہے۔ان میں سے کچھ ماڈل اس قدرمہارت اورہنرمندی سے تیارکئے گئے ہیں کہ ان پراصلی ہونے کا گمان ہوتا ہے ہے لیکن یہ سب انسانی ہاتھوں کی مہارت کا کمال ہے۔
دی آرٹ ویلی کے منتظم محمدیونس کہتے ہیں یہ کام ان کے والد نے شروع کیاتھا، وہ خود نویں کلاس میں تھے جب یہ کام سیکھنا شروع کیا اوراب ایک طرف وہ گریجوایشن کرچکے ہیں تودوسری طرف یہ آرٹ ورک بھی سیکھ لیاہے۔محمدیونس کے مطابق بڑی بڑی ہاوسنگ سکیموں ، پارکوں ،گھروں کے لان اورسڑکوں کی اطراف میں ان کے بنائے ہوئے ماڈلزاستعمال کئے جارہے ہیں۔
ریت،سیمنٹ ، سفیدچاک اورفائبرسے جانوروں ،پرندوں کے ماڈل تیارکیے جاتے ہیں ، اسی طرح بیٹھنے لئے خوبصورت بینچ، فوارے ،گملے اورستون تیارہوتے ہیں۔ اس کام کے لئے انہوں نےدوکاریگربھی رکھے ہیں ، ان کا یہاں زیادہ کام آرڈر پر ہوتا ہے۔
محمد یونس نے ایک بڑے سائز کے زراف کے ماڈل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس طرح کا ماڈل تیارکرنے میں تین افراد کو ایک ہفتے سے زیادہ دن لگ جاتے ہیں کیونکہ ماڈل کو مختلف حصوں اور مراحل میں تیار کرنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی چھوٹے سائز کا ماڈل ہو جیسے کچھوا، خرگوش یا کوئی پرندہ وغیرہ تو اس طرح کے ماڈلز ایک دن میں بھی تیارہوجاتے ہیں۔
اس کام سے جڑے کاریگروں کا کہنا ہے یہ کوئی خاصامہارت اورہنرمندی کا کام ہے ، کسی بھی ماڈل کی شکل وشبہات بناتے وقت خاصی محنت درکاراورذہانت درکارہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کسی بھی چیزکا ماڈل تیارکرنازیادہ مشکل ہوتا ہے جب ایک ماڈل تیارہوجائے توپھروہ اس کا سانچہ بنالیتے ہیں ،بعد میں اس سانچے کی مدد سے اسی طرح کے مزید ماڈلز تیار کرنا آسان ہوجاتا ہے، بالخصوص فائبر کے ماڈل جلدی تیار ہوجاتے ہیں۔
ان ماڈلز کی قیمت کتنی کیا ہوتی ہے ؟ اس سوال پر محمد یونس بولے، ہنر اور آرٹ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی، ان ماڈلز کی قیمت ہنر اور فن کی قدر کرنے والا ہی دے سکتا ہے تاہم پھر بھی وہ کسی ماڈل کی قیمت اس پر کی گئی محنت اور اس پر آنے والے خرچ کے حساب سے مقرر کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک ہرن کے ماڈل کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ یہ ماڈل ہم 30 ہزار روپے تک میں فروخت کرتے ہیں۔
ایک شہری محمد حسیب نے بتایا کہ انہوں نے ملتان میں ایک ہاؤسنگ اسکیم لانچ کی ہے اور اس کے لئے وہ مختلف ماڈلز خریدنے آئے ہیں، انہوں نے بتایا کہ انہیں گھوڑوں کے ماڈل پسند آئے ہیں اسی طرح زرافہ اور ڈائنوسورس بھی خوبصورت لگ رہے ہیں، وہ یہ ماڈلز خریدیں گے اسی طرح دیواروں کے ساتھ لگائے جانے والے مختلف گملوں کے ماڈلز ہیں ، پتھر کے بینچ ہیں وہ یہ سامان خریدیں گے۔
ایک خاتون یخشی انجم نے کہا کہ انہوں نے اپنے گھر کے لان کے لئے چھوٹے ہرنوں اور پرندوں کے کچھ ماڈلز لئے ہیں ، امید ہے ان کی وجہ سے ان کے لان کی خوبصورتی میں اضافہ ہوگا، انہوں نے کہا یہ ماڈلز کافی مہنگے ہیں تاہم شوق کے سامنے قیمت کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔
ملتان روڈ سندر اڈہ کے قریب دی آرٹ ویلی کے نام سے ایک ورکشاپ قائم ہے ، جہاں سیکڑوں اقسام کے جانوروں ،پرندوں ، معروف شخصیات سمیت ڈیکوریشن ماڈلزتیارکرکے رکھے گئے ہیں۔ اس آرٹ ویلی میں داخل ہوں توایک لمحے کوایسے لگتاہے جیسےکسی پتھرکی وادی میں آگئی ہے جہاں کسی جادوسے ہرچیزپتھرہوچکی ہے۔ان میں سے کچھ ماڈل اس قدرمہارت اورہنرمندی سے تیارکئے گئے ہیں کہ ان پراصلی ہونے کا گمان ہوتا ہے ہے لیکن یہ سب انسانی ہاتھوں کی مہارت کا کمال ہے۔
دی آرٹ ویلی کے منتظم محمدیونس کہتے ہیں یہ کام ان کے والد نے شروع کیاتھا، وہ خود نویں کلاس میں تھے جب یہ کام سیکھنا شروع کیا اوراب ایک طرف وہ گریجوایشن کرچکے ہیں تودوسری طرف یہ آرٹ ورک بھی سیکھ لیاہے۔محمدیونس کے مطابق بڑی بڑی ہاوسنگ سکیموں ، پارکوں ،گھروں کے لان اورسڑکوں کی اطراف میں ان کے بنائے ہوئے ماڈلزاستعمال کئے جارہے ہیں۔
ریت،سیمنٹ ، سفیدچاک اورفائبرسے جانوروں ،پرندوں کے ماڈل تیارکیے جاتے ہیں ، اسی طرح بیٹھنے لئے خوبصورت بینچ، فوارے ،گملے اورستون تیارہوتے ہیں۔ اس کام کے لئے انہوں نےدوکاریگربھی رکھے ہیں ، ان کا یہاں زیادہ کام آرڈر پر ہوتا ہے۔
محمد یونس نے ایک بڑے سائز کے زراف کے ماڈل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس طرح کا ماڈل تیارکرنے میں تین افراد کو ایک ہفتے سے زیادہ دن لگ جاتے ہیں کیونکہ ماڈل کو مختلف حصوں اور مراحل میں تیار کرنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی چھوٹے سائز کا ماڈل ہو جیسے کچھوا، خرگوش یا کوئی پرندہ وغیرہ تو اس طرح کے ماڈلز ایک دن میں بھی تیارہوجاتے ہیں۔
اس کام سے جڑے کاریگروں کا کہنا ہے یہ کوئی خاصامہارت اورہنرمندی کا کام ہے ، کسی بھی ماڈل کی شکل وشبہات بناتے وقت خاصی محنت درکاراورذہانت درکارہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کسی بھی چیزکا ماڈل تیارکرنازیادہ مشکل ہوتا ہے جب ایک ماڈل تیارہوجائے توپھروہ اس کا سانچہ بنالیتے ہیں ،بعد میں اس سانچے کی مدد سے اسی طرح کے مزید ماڈلز تیار کرنا آسان ہوجاتا ہے، بالخصوص فائبر کے ماڈل جلدی تیار ہوجاتے ہیں۔
ان ماڈلز کی قیمت کتنی کیا ہوتی ہے ؟ اس سوال پر محمد یونس بولے، ہنر اور آرٹ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی، ان ماڈلز کی قیمت ہنر اور فن کی قدر کرنے والا ہی دے سکتا ہے تاہم پھر بھی وہ کسی ماڈل کی قیمت اس پر کی گئی محنت اور اس پر آنے والے خرچ کے حساب سے مقرر کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک ہرن کے ماڈل کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ یہ ماڈل ہم 30 ہزار روپے تک میں فروخت کرتے ہیں۔
ایک شہری محمد حسیب نے بتایا کہ انہوں نے ملتان میں ایک ہاؤسنگ اسکیم لانچ کی ہے اور اس کے لئے وہ مختلف ماڈلز خریدنے آئے ہیں، انہوں نے بتایا کہ انہیں گھوڑوں کے ماڈل پسند آئے ہیں اسی طرح زرافہ اور ڈائنوسورس بھی خوبصورت لگ رہے ہیں، وہ یہ ماڈلز خریدیں گے اسی طرح دیواروں کے ساتھ لگائے جانے والے مختلف گملوں کے ماڈلز ہیں ، پتھر کے بینچ ہیں وہ یہ سامان خریدیں گے۔
ایک خاتون یخشی انجم نے کہا کہ انہوں نے اپنے گھر کے لان کے لئے چھوٹے ہرنوں اور پرندوں کے کچھ ماڈلز لئے ہیں ، امید ہے ان کی وجہ سے ان کے لان کی خوبصورتی میں اضافہ ہوگا، انہوں نے کہا یہ ماڈلز کافی مہنگے ہیں تاہم شوق کے سامنے قیمت کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔