درجنوں دکانوں کے لٹنے پر پولیس تاجروں پر ہی برس پڑی

تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے، تاجروں نے ذمہ داری پوری نہیں کی، ڈی آئی جی

تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے، تاجروں نے ذمہ داری پوری نہیں کی، ڈی آئی جی۔ فوٹو: فائل

امن، محبت اور بھائی چارے میں بندھی مختلف اقوام کے گلدستہ کے طور پر پہچان رکھنے والے کوئٹہ شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں غیر معمولی اضافے سے شہری عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہیں۔

ایک ماہ میں شہریوں سے جہاں 60 سے زائد موٹر سائیکل اور گاڑیاں چھین لی گئیں وہاں ایک غیرمعمولی واقعہ میں مسلح افراد 3 سے 4 گھنٹے میں درجنوں دکانوں کا سامان ٹرکوں میں لوڈ کر کے لئے گئے۔ پولیس کو اس گروہ کے 7میں سے پانچ ملزمان کو گرفتار کرنے میں 19 دن لگ گئے، تاہم تاحال سرغنہ گرفتار نہیں ہوسکا۔ ملزمان کے قبضے سے نقدی ،مسروقہ ساما ن برآمد کرلیا گیا ہے۔

یکم اپریل کی درمیانی شب کوئٹہ کے علاقے پشتون آباد، بند مٹھا چوک اور محمود آباد میں پیش آنے والے واقعہ میں ڈاکو رات کی تاریکی میں وہاں موجود چوکیدار کو رسیوں سے باندھ کر درجنوں دکانوں کا صفایا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ متاثرہ دکانداروں نے دکانوں کی تعداد 83 بتائی، تاہم ڈی آئی جی پولیس نے ابتدائی طور پر دکانوں کی تعداد 22 بتائی ہے۔ مذکورہ دکانیں دو تھانوں کی حدود میں دو کلومیٹر پر مشتمل علاقے میں واقع ہیں ۔

جن دکانوں کو توڑا گیا، ان میں موبائل فون اور میڈیکل اسٹور سمیت مختلف دکانیں شامل ہیں ۔ تین سے چار گھنٹوں پر مشتمل واردات سے پولیس لاعلم رہی، اگلی صبح جب دکانداروں کو واقعہ کا علم ہوا تو انہوں نے پولیس کو اطلاع دی اورموقف اختیار کیا کہ علاقہ میں رات کے اوقات میں پولیس گشت نہ ہونے کے برابرہے، پولیس اہلکار عام شہریوں کو تو تنگ کرتے ہیں مگر اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ اتنی بڑی وار دات ہونے پر پولیس کیسے لاعلم رہی؟ ایک ہی رات میں 83 دکانوں کو لوٹنا ایک منظم کارروائی ہے، اس سے انتظامیہ اور پولیس کی ناکامی ثابت ہوتی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس اور انتظامیہ کی ملی بھگت کے بغیر ڈاکو اتنے آرام سے اتنی بری کارروائی نہیں کرسکتے تھے۔

ڈاکو تین سے چار گھنٹوں تک لوٹ مار کے بعد سامان ٹرکوں میں لاد کر چلے گئے یہ کوئی اتفاقی واردات نہیں بلکہ ایک منظم منصوبے کے تحت کی گئی ہے ۔ علاقے میں 4سے 5 بجے تک معمول کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے مگر واردات والی رات بجلی 3 سے صبح 6 بجے تک بند رہی، جس کی وجہ سے مذکورہ دکانوں میںلگائے گئے کیمرے بھی بند ہو گئے تھے۔

انجمن تاجران نے واقعہ کے خلاف بند مٹھا چوک ، عبدالقدوس روڈ پر ٹائر جلا کر شدید احتجاج کیا اور صوبائی حکومت سے واقعہ کی تحقیقات کیلئے آئی جی اور ڈی آئی جی پولیس پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی قائم کرکے متاثرہ دکانداروں کے نقصانات کا ازالہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ یقیناً جس علاقے میں واردات کی گئی وہ تین تھانوں کے سنگم پر واقع ہے، جہاں پر پولیس کا گشت نہ ہونا سوالیہ نشان ہے۔


ابتداء میں ڈی آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ نے بتایا کہ دکانوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کی جارہی ہے، پولیس کے پاس صرف 22دکانداروں نے شکایت درج کرائی ہے۔ ان کے مطابق یہ ڈکیتی کی واردات نہیں ہے اور ہر دکان توڑنے میں تین سکینڈ ہی لگتے ہیں۔ نقصانات کے حوالے سے انہوںنے بتایا کہ ہر دکان سے چار،پانچ ہزار روپے کی نقدی اور کچھ قیمتی سامان چوری ہوا ہے۔

دکانداروں نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی ،ان کی جانب سے دکانوں میں کیمرے نہیں لگائے گئے، صرف ایک چوکیدار موجود تھا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے ڈکیتی کی واردات کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے شہر میں عمومی جرائم میں اضافے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پولیس کوعوام کے جان ومال کے تحفظ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ جس علاقے میں جرم ہوگا، اس علاقے کا پولیس افسر اس کا جوابدہ ہوگا۔

صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء لانگو نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ عوام کی جان ومال کا تحفظ پولیس کی ذمہ داری ہے، اس ضمن میں کوئی غفلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس کوئٹہ نے غفلت برتنے پر ایس ایچ او تھانہ خالق شہید بھوسہ منڈی سب انسپکٹر احمد علی اور قائم مقام ایس ایچ او تھانہ پشتون آباد سب انسپکٹر فتح شیر کو فوری طورپر معطل کردیا۔

مذکورہ واقعہ کو 19 روز گزرنے کے بعد ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ نے ایک پریس کانفرنس میں واردات میں ملوث ملزمان کی گرفتار کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ڈکیتی کے بعد سی آئی اے اور ڈسٹرکٹ پولیس پر مشتمل دو الگ الگ ٹیمیں بنا ئی گئیں، جنہوں نے واردات میں ملوث سات لوگوں کی نشاندہی کی، جن میں پانچ ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ گروہ کا سرغنہ اور اس کا ایک ساتھی تاحال مفرور ہے۔

بلاشبہ پولیس، ایف سی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کوئٹہ شہر کا چہرہ مسخ کرنے والوں کے عزائم خاک میں ملاکر عوام کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے بے شمار قربانیاں دی ہیں اور ان قربانیوں کے نتیجہ میں ایک دہائی تک بدامنی کے واقعات کے طور پر جانے جانیوالے شہر میں ایک مرتبہ پھر روایتی امن وآشتی قائم ہوئی ہے، جسے برقرار رکھنا ان اداروں کی ذمہ داری ہے۔

مذکورہ واقعات سے شہریوں کے ذہنوں میں ایک سوال ضرور گردش کررہا ہے کہ آیا شہر میں ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کے باجود 83 دکانوں کا سامان، موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں چھیننے والے عناصر باآسانی کیسے روپوش ہوجاتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ سکیورٹی ادارے تھانوں کی سطح پر پولیس کے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مضبوط بنائیں۔

 
Load Next Story