وزیرستان مستقبل قریب میں آپریشن کا کوئی امکان نہیں بی بی سی
فوج یہاں اربوں کے ترقیاتی کام کر رہی ہے ایسی حالت میں وہ اپنا نقصان کیوں کریگی،مقامی صحافی
KABUL:
پچھلے دو تین ہفتوں سے امریکی اور پاکستانی ذرائع ابلاغ میں شمالی وزیرستان سے متعلق خبریں گرم ہیں اور بظاہر میڈیا کے ذریعے سے ایک ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جیسے وہاں فوجی آپریشن کیلیے راہ ہموار کی جارہی ہے لیکن زمینی حقائق اس سے بالکل مختلف نظر آتے ہیں۔
تقریباً دو ہفتے قبل امریکی وزیر دفاع لیون پینٹا نے ایک بیان میں کہا کہ امریکا اور پاکستان شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف آپریشن کرنے کیلیے مختلف آپشنز پر غور کر رہے ہیں لیکن اس کے دو تین دن بعد آئی ایس پی آر کی طرف سے جنرل کیانی کا ایک بیان جاری کیا گیا کہ پاکستان نہ تو وزیرستان میں آپریشن کی کوئی تیاری کر رہا ہے اور نہ کسی کے کہنے پر وہاں کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ بی بی سی کے مطابق ان بیانات کے آنے کے بعد سے امریکی اور پاکستانی ذرائع ابلاغ میں وزیرستان سے متعلق مسلسل خبریں آ رہی ہیں۔
موجودہ حالات میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کے حوالے سے زمینی حقائق بھی بالکل مختلف نظر آرہے ہیں۔ شمالی وزیرستان کے مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ 'پتہ نہیں کہ مغربی میڈیا اس بات سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے کہ جو بار بار آپریشن کی بات کر رہا ہے حالانکہ علاقے میں ایسے کوئی آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے'۔ سینیئر صحافی احسان دواڑ کا کہنا ہے کہ 'پاک فوج وزیرستان میں بیس ارب روپے سے زائد کے پراجیکٹس پر کام کر رہی ہے۔ افغان سرحد تک سڑکوں کے جال بچھائے جا رہے ہیں ، ایسی حالت میں وہ اپنا اتنا بڑا نقصان کیوں کریگی۔
پچھلے دو تین ہفتوں سے امریکی اور پاکستانی ذرائع ابلاغ میں شمالی وزیرستان سے متعلق خبریں گرم ہیں اور بظاہر میڈیا کے ذریعے سے ایک ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جیسے وہاں فوجی آپریشن کیلیے راہ ہموار کی جارہی ہے لیکن زمینی حقائق اس سے بالکل مختلف نظر آتے ہیں۔
تقریباً دو ہفتے قبل امریکی وزیر دفاع لیون پینٹا نے ایک بیان میں کہا کہ امریکا اور پاکستان شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف آپریشن کرنے کیلیے مختلف آپشنز پر غور کر رہے ہیں لیکن اس کے دو تین دن بعد آئی ایس پی آر کی طرف سے جنرل کیانی کا ایک بیان جاری کیا گیا کہ پاکستان نہ تو وزیرستان میں آپریشن کی کوئی تیاری کر رہا ہے اور نہ کسی کے کہنے پر وہاں کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ بی بی سی کے مطابق ان بیانات کے آنے کے بعد سے امریکی اور پاکستانی ذرائع ابلاغ میں وزیرستان سے متعلق مسلسل خبریں آ رہی ہیں۔
موجودہ حالات میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کے حوالے سے زمینی حقائق بھی بالکل مختلف نظر آرہے ہیں۔ شمالی وزیرستان کے مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ 'پتہ نہیں کہ مغربی میڈیا اس بات سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے کہ جو بار بار آپریشن کی بات کر رہا ہے حالانکہ علاقے میں ایسے کوئی آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے'۔ سینیئر صحافی احسان دواڑ کا کہنا ہے کہ 'پاک فوج وزیرستان میں بیس ارب روپے سے زائد کے پراجیکٹس پر کام کر رہی ہے۔ افغان سرحد تک سڑکوں کے جال بچھائے جا رہے ہیں ، ایسی حالت میں وہ اپنا اتنا بڑا نقصان کیوں کریگی۔