مسئلہ فکر کا ہے فقہ کا نہیں
مسئلہ فکر کا ہے فقہ کا نہیں
کبھی کسی نے سوچا ہے کہ گزشتہ پانچ سو سال سے اُمت مُسلمہ جو آہستہ آہستہ زوال کی جانب سفر کرتے ہوئے ذلت و رسوائی کی گہری کھائی میں جاگری ہے، اس کی وجہ کیا ہے۔ ہم نے یوں لگتا ہے پہاڑ کی ڈھلوان پر پھسلنا شروع کیا اور پھر ہاتھ پائوں چھوڑ دیئے اور خود کو ڈھلوان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا کہ جہاں چاہے لے جائے۔ یہ سوال بہت سے لوگ ایک دوسرے سے بھی کرتے ہیں اور علم کی جستجو میں غرق افراد اپنے آپ سے بھی کرتے ہیں۔ آخر ایسا بھی کیا زوال کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق اس کا جواب تلاش کرتا ہے۔
بہت سے ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ دنیا کی دیگر اقوام وقت کی ترقی کے ساتھ قدم ملانے لگیں، جو نئے علوم آئے تھے انھیں حاصل کیا، اپنی زندگیوں پر وہ تمام اصول لاگو کیے جو ان علوم نے بتائے تھے اور آج دیکھ لو ان کے شہر آباد، گھر پُر رونق اور زندگی پُر تعیش ہے۔ کچھ کہتے ہیں ایسا نہیں ہے بلکہ ہمارا مسئلہ، ہماری عبادات میں جھول، ہمارا اﷲ سے عدم تعلق، ہمارا دین کو اپنی زندگیوں سے دور کرنا، روزمرہ کے معمولات میں اسلامی اصولوں سے بیگانگی، یہ سب ہماری بیماری کی جڑ ہے۔ کتنے ایسے ہیں جو یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ہمیں اپنے دین کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہیے تھا۔ ان کے نزدیک اجتہاد قرآن و سنت سے بھی بالاتر چیز ہے۔ کسی کے ہاں ترک دنیا اہم ہے تو کسی کے ہاں تبلیغ، کوئی تصوف کے اصولوں سے معاشرے میں امن قائم کرنا چاہتا ہے تو کوئی بزور طاقت حکومت حاصل کر کے اﷲکے قوانین کا نفاذ چاہتا ہے۔
کسی کو ووٹ، اسمبلی اور منتخب ارکان کے ذریعے اﷲ کو منوانا اچھا لگتا ہے تو کوئی صاحبانِ وقت بزرگوں کی دعائوں کے اثر سے حالات بدلنا چاہتا ہے۔ یہ سب کے سب اس بیمار قوم کے ڈاکٹر، حکیم اور طبیب ہیں۔ ان سب کے نسخوں کی آوازوں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اپنے تو اپنے غیروں نے بھی ہمارے زوال کے اسباب پر ہزاروں کتابیں لکھیں اور لاکھوں نسخے تجویز کیے۔ ہم نے ان کے نسخے آزمائے بھی لیکن پھر بھی ہماری ذلت دور نہ ہو سکی۔ ہم میں سے کتنے ایسے تھے جو مغرب میں لکھی جانے والی زوال کی ان کہانیوں اور اسباب پر آج بھی یقین رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارا حل اس معاشرے کے اصول و قواعد اپنانے اور ان کی طرح زندگی گزارنے میں چھپا ہوا ہے۔
ان سب لوگوں سے کوئی گلا نہیں اس لیے کہ انھوں نے جو علم حاصل کیا اور جس سانچے میں ان کی تربیت ہوئی، اس میں تبدیلی اور ترقی کا ایک ہی معیار ہے خوبصورت، عیش آرام سے پُر اور مادی سہولیات سے مزین زندگی چاہے اس کے بدلے میں ذاتی سکون، نفسیاتی ہم آہنگی، خاندانی زندگی اور اخلاقی حالت تباہ و برباد ہو جائے۔ لیکن کامیابی شہر کی رونقوں میں چھلکتی ہوئی نظر تو آتی ہے۔
معاملہ تو ان کا ہے جنہوں نے مدتوں چٹائیوں پر بیٹھ کر قرآن و سنت کا علم حاصل کیا۔ اپنی تمام زندگی اس کے لیے وقف کردی۔ یہ ان لوگوں کے وارث تھے کہ جب ان پر اردگرد کی تہذیبوں اور علوم نے حملہ کیا تو پہلے ان لوگوں نے حملہ آوروں کی تہذیب اور علم کا ادراک حاصل کیا اور پھر اس کا منہ توڑ جواب دیا۔ امام غزالی کی تہافتہ الفلاسفہ وہ کتاب ہے کہ جس نے یونانی فلسفہ میں الٰہیات کا ایک ایسا مضمون شامل کیا کہ آج کا مسلمان ان تمام فلسفیوں کی گتھیوں سے بچ نکلا، ورنہ انھیں میں الجھا رہتا۔ لیکن گزشتہ پانچ سو سال سے بقول اقبال ''فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی'' والا معاملہ ہمارے ساتھ ایسا پیش آیا کہ نہ ہمیں غیر کی سازشوں کا علم ہوتا ہے اور نہ تہذیبوں کے حملہ آور ہونے کا، ہم بس اپنے آپ کو بچانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ سوالات پوچھتے ہیں، جواب چاہتے ہیں، چھوٹے چھوٹے ذاتی سوال، ان سوالوں کا جواب فقہ کو جنم دیتا ہے اور فقیہہ ان کے جواب دیتے ہیں، یہ ایسے ہی ہے کہ ہم کمرے میں بیٹھے ہوں اور مچھر ہمیں لڑ جائے تو اس کا کیا کریں۔ لیکن مچھر جہاں سے پیدا ہو رہا ہے نہ ہمیں اس کا ادراک ہے اور نہ ہم اسے ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے سوالات عجیب ہوتے ہیں۔
میںبینک میں کرنٹ اکائونٹ پر سود نہ لوں تو کیا ٹھیک ہے۔ جی پی فنڈ پر اگر حکومت زبردستی سود دے رہی ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔ میں بیوہ ہوں، میرا گزارا ہی بینک میں پیسے جمع کروا کر ہوتا ہے، مجبوری میں تو حرام کھانا بھی جائز ہے، میں کیا کروں، بینک کی ملازمت چھوڑ دوں یا نہیں۔ ایسے کتنے سوال ہیں جو لوگ مفتیان کرام سے پوچھتے ہیں اور مفتی اپنی بساط اور اپنے علم کے مطابق ان کا جواب دیتا ہے۔ اکثر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی مرضی کا کوئی جواب کسی مفتی سے مل جائے۔ یہی معاملہ ہمارا نکاح، طلاق، عبادات اور دیگر ظاہری عوامل سے ہے۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ پوری کی پوری امت نے ان حالات پر سمجھوتہ سا کرلیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جیسے تیسے ہوا اپنا دین بچالو اور اس میں بھی کوئی راستہ ایسے نکلنے کی امید رکھو کہ دنیا کے تمام ناجائز کاروبار بھی ساتھ ساتھ چلتے رہیں۔ قرآن پڑھتے ہوئے جب میں اﷲ کی وعید اور ناراضی کا عالم دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ سود جیسے ایک چھوٹے سے معاملے کو اﷲ نے اپنے اور اپنے رسول کے خلاف جنگ کیوں قرار دیا ہے، یہ جواب مجھے فقہ کی موٹی موٹی کتابوں سے نہیں ملتا لیکن جب میں دنیا بھر میں پھیلے اس سودی نظام، اس کی خون چوسنے والی حقیقت، اس کے گرد گھومتا کارپوریٹ کلچر اور اس کارپوریٹ کلچر سے جنم لیتی ہوئی جمہوریت دیکھتا تو بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ میرے اﷲ نے صحیح فرمایا تھا کہ یہ ایک سودی بینکاری ایسی چیز ہے جس نے پوری دنیا کے چھ ارب انسانوں کو اپنا غلام بنا رکھا ہے جس کو چاہو تباہ کر دو، جس معیشت کو چاہو اجاڑ دو، جس ملک کو چاہو دیوالیہ کر دو، جس پارٹی کو چاہے دولت کے انبار دے کر پارلیمنٹ اور حکومت میں لا کر بٹھا دو۔
افریقہ کو بھوک اور قحط کے تحفے دو۔ ایشیا کو جنگ اور موت اور لاطینی امریکا کو بے یقینی اور غربت و افلاس۔ اﷲ فرماتے ہیں، حدیث قدسی ہے کہ ''پوری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے، اور جو نظام اﷲ کے کنبے کے لوگوں کو تباہ کر رہا ہو، اﷲ اس سے جنگ کا اعلان کیوں نہ کرے'' یہ معاملہ فقہ کا نہیں فکر کا ہے۔ گھر میں رہ کر ایمان بچانے کا نہیں گھر سے باہر نکل کر جنگ کرنے کا ہے۔
نوٹ: انشاء اﷲ اسلامی معاشی نظام اور درہم و دینار پر کانفرنس، کل 8 جولائی 2012ء ساڑھے چار بجے ایوان اقبال لاہور میں منعقد ہوگی۔ درہم و دینار، تحریک کے بانی عمر ابراہیم وڈیلو انشاء اﷲ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے پاکستا ن میں ہوں گے۔ ہم دونوں آپ کا ایوان اقبال میں انتظار کریں گے۔