رمضان المبارک۔۔۔۔۔رحمت بخشش اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کا مہینہ

ماہ رمضان میں جہنم کے دروازے بند اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں


روزہ ایثار ، قربانی، اخوت اور بھائی چارہ کا درس دیتا ہے، ماہ رمضان میںجہنم کے دروازے بند اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے:جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی کا ’’استقبال رمضان‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ’’خصوصی لیکچر‘‘ ۔ فوٹو : وسیم نیاز

مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی معروف دینی سکالر ہیں۔ آپ پاکستان کے ایک بڑے دینی ادارے جامعہ اشرفیہ لاہور سے عرصہ دراز سے وابستہ ہیں اور اس وقت بطور مہتمم اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ آپ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ہیں اورمتحدہ علماء بورڈ پنجاب کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی نے گزشتہ دنوں ''ایکسپریس فورم'' میں شرکت کی اور ''استقبال رمضان'' کے حوالے سے ''خصوصی لیکچر'' دیا جو نذر قارئین ہے۔

ماہ رمضان اور روزہ کے فضائل کے بارے میں بیان فرمائیں۔

رمضان المبارک توبہ و استغفار ، رحمت، بخشش و مغفرت، دعاؤں کی قبولیت اوراللہ کا خاص قرب حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔ یہ نیکیوں کا موسم بہار ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے امت محمدیہﷺ کو بخشنے کا بہانہ اور ذریعہ ہے لہٰذا ہمیں اس ماہ مبارک میں خوب عبادت و ریاضت ، توبہ و استغفار کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرکے اپنی بخشش و مغفرت کا سامان کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے سابق امتوں کی طرح امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی روزے فرض کیے تاکہ یہ اس کے ذریعہ تقویٰ و پرہیز گاری حاصل کرے۔

یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب کم از کم ستر گنا بڑھا دیتے ہیں۔ اس میں امت محمدیہؐ کیلئے جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ روزہ وہ مبارک عمل ہے کہ جس کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روزہ خالص میرے لیے ہے اور میں ہی اپنے بندہ کو اس کا اجر دونگا۔ روزہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب اور خوشنودی حاصل کی جاتی ہے۔ اس سے ذہنی و قلبی اطمینان نصیب ہوتا ہے، خواہشاتِ نفس دب جاتی ہیں، دل کا زنگ دور ہو جاتا ہے، انسان گناہوں، فواحشات اور بے ہودہ باتوں سے بچ جاتا ہے۔ روزہ کے ذریعے مساکین و غرباء سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔

ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ جب رمضان المبارک آتا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بدل جاتا تھا، نماز میں اضافہ ہو جاتا تھا ، دعا میں بہت عاجزی فرماتے تھے اور خوف غالب آ جاتا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ حق تعالیٰ جل شانہ' رمضان المبارک میں عرش اٹھانے والے فرشتوں کو حکم فرماتے ہیں کہ اپنی اپنی عبادت چھوڑ دو اور روزہ داروں کی دعا پر آمین کہا کرو۔ رمضان المبارک میں اللہ کو یاد کرنے والا شخص بخشا بخشایا ہے اور اللہ سے مانگنے والا نامراد نہیں ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رمضان المبارک کی ہر رات میں ایک منادی (فرشتہ) پکارتا ہے کہ اے خیر کی تلاش کرنے والے متوجہ ہو اور آگے بڑھ اور اے برائی کے طلب گار بس کر (بازرہ) اور آنکھیں کھول۔ منادی کہتا ہے کوئی مغفرت کا چاہنے والا ہے کہ اس کی مغفرت کی جائے، کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ اس کی توبہ قبول کی جائے، کوئی دعا کرنے والا ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے، کوئی مانگنے والا ہے کہ اس کا سوال پورا کیا جائے۔

ماہ رمضان کے حوالے سے آنحضرت محمد ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو کیا بیان فرمایا؟

رمضان المبارک ہی وہ مقدس مہینہ ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید کی صورت میں نازل فرمائی جو قیامت تک آنے والے لوگوں کیلئے رشد و ہدایت کا ذریعہ ہے۔ حضرت سلمانؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے شعبان کی آخری تاریخ میں ہم لوگوں کو وعظ فرمایا کہ تمہارے اوپر ایک مہینہ آ رہا ہے جو بہت بڑا اور مبارک مہینہ ہے۔

اس میں ایک رات (شبِ قدر) ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے روزہ کو فرض فرمایا اور اس کے رات کے قیام (یعنی تراویح) کو ثواب کی چیز بنایا ہے جو شخص اس مہینہ میں کسی نیکی کے ساتھ اللہ کے قرب کو حاصل کرے و ہ ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں فرض کو ادا کیا اور جو شخص اس مہینہ میں فرض کو ادا کرے وہ ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں ستر فرض ادا کرے، اور یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کابدلہ جنت ہے اور یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے اور اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے، جو شخض کسی روزہ دار کاروزہ افطار کرائے اس کیلئے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہو گا اور روزہ دار کے ثواب کے مانند اس کا ثواب ہو گا مگر اس روزہ دار کے ثواب میں کچھ کمی نہیں کی جائیگی۔

صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ہم میں سے ہر شخص تو اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے تو آپؐ نے فرمایا کہ (پیٹ بھر کر کھانے پر موقوف نہیں) یہ ثواب تو اللہ تعالیٰ، ایک کھجور سے افطار کرا دے یا ایک گھونٹ پانی پلا دے یا ایک گھونٹ لسی پلا دے اس پر بھی مرحمت فرما دیتے ہیں۔ یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ اللہ کی رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آگ (جہنم) سے آزادی ہے، جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام (و خادم) کے بوجھ کو ہلکا کر دے اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرماتے ہیں اور آگ سے آزادی فرماتے ہیں اور چار چیزوں کی اس میں کثرت رکھا کرو جن میں سے دو چیزیں اللہ کی رضا کے واسطے اور دو چیزیں ایسی نہیں جن سے تمہیں چارہ کار نہیں۔

پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور جہنم سے پناہ مانگو، جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلائے حق تعالیٰ (قیامت کے دن) میرے حوض سے اس کو ایسا پانی پلائیں گے کہ جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص بغیر کسی شرعی عذر کے ایک دن بھی رمضان کا روزہ چھوڑ دے تو رمضان کے علاوہ وہ پوری زندگی بھی روزے رکھے وہ اس کا بدل نہیں ہو سکتے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد ہے کہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ ان کو روزہ کے بدلہ میں سوائے بھوکا رہنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے (کی مشقت) کے سوا کچھ بھی نہ ملایعنی اس کے غیبت و چغلی کے ذریعہ اور حرام مال کے ساتھ اس کو افطار کر کے اس کے ثواب سے محروم ہو گیا۔ ایک اور حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک نقل کیا گیا ہے کہ میری امت کو رمضان المبارک کے بارے میں پانچ چیزیں مخصوص طور پر دی گئی ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں ملیں (1) یہ کہ ان کے منہ کی (روزہ کی وجہ سے) بدبو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے (2) یہ کہ ان کیلئے دریا کی مچھلیاں تک دعا کرتی ہیں اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں (3) جنت ہر روز ان کیلئے آراستہ کی جاتی ہے پھر حق تعالیٰ جل شانہ' فرماتے ہیں کہ قریب ہے کہ میرے نیک بندے (دنیا کی) مشقتیں پھینک کر تیری طرف آئیں (4) اس میں سرکش شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں کہ وہ رمضان المبارک میں ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیر رمضان میں پہنچ سکتے ہیں (5) رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کیلئے مغفرت کی جاتی ہے صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ کیا شبِ مغفرت، شب قدر ہے؟ فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس ماہ میں ایسی عبادت عطا فرمائی جس کا اجر اللہ تعالیٰ خود عطا فرمائیں گے۔

پھر ماحول بھی ایسا عطا فرما دیا کہ شیاطین کو پابند زنجیر کر دیا۔ رمضان کے تینوں عشروں کو بالترتیب رحمت، مغفرت اور جہنم سے آزادی کا زمانہ قرار دیا۔ اب ہمیں اس مبارک مہینہ میں کس طرح رہنا چاہیے تاکہ رمضان المبارک کے انوار و انعامات حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہو جائے۔ اسی سلسلہ میں میرے شیخ و مرشد حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمہ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ :اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ میر امہینہ ہے اور اس مہینہ میں اطاعات و عبادات کا صلہ میں دوں گا'' خدا معلوم ان کی مشیت میں کیا کیا صلہ ہے جو وہ اپنے بندوں کو عطا فرمائیں گے۔ دیکھئے اس طرح یہ کتنا مہتم بالشان مہینہ ہے اور جب کوئی محترم و مکرم مہمان آتا ہے تو ہم لوگ بہت کچھ تیاریاں کرتے ہیں اس لیے رمضان المبارک کے لیے ہم کو خوب تیاری پہلے سے کرنی چاہیے۔

ماہ رمضان میں کن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے؟

تہیہ کر لیجیے کہ اب پاکیزہ و محتاط زندگی گزاریں گے۔ آنکھوں کا غلط انداز نہ ہونے پائے، سماعت میں فضول باتیں نہ آنے پائیں۔ بیکار باتوں اور فضول کاموں میں مشغول نہ ہوں' ایسی تقریبات میں بھی شریک نہ ہوں جہاں شریعت کے خلاف کام ہوں تو انشاء اللہ پاک و صاف رہیں گے اور یاد رکھو کہ ناپاکیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے صحیح تعلق پیدا نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اپنے گنہگار غفلت زدہ بندوں کو پہلے ہی سے خبردار کر دیا کہ جیسے ہی رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہو تو اپنے عمر بھر کے تمام چھوٹے بڑے گناہ معاف کراؤ تاکہ تمہارا اپنے مربی حقیقی سے صحیح و قوی تعلق پیدا ہو جائے اور اگر تم نے ہماری مغفرت و رحمت کاملہ کی قدر نہ کی تو پھر تمہاری تباہی و بربادی میں کوئی کسر باقی نہ رہے گی۔

اب اس اعلان رحمت پر کون ایسا بدنصیب ہے جو محروم رہنا چاہے گا اس لیے ہم سب لوگ یقینا بڑے خوش نصیب ہیں کہ رمضان المبارک کا مہینہ اپنی زندگی میں پا رہے ہیں۔ اب تمام جذبات عبدیت کے ساتھ اور قوی ندامت کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوں اور اس ماہ مبارک کی تمام برکات و انوار و تجلیات الٰہیہ سے مالا مال ہوںلہٰذا اپنے تمام گناہ عمر بھر کے جتنے یاد اور تصور میں آسکیں چاہے وہ دل کا گناہ ہو' آنکھ کا، زبان کا یا کان کا سب کو ندامت قلب کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں پیش کر دیں اور یہ کہیں اب وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔

یا اللہ ہم کو معاف فرما دیجیے ہر وہ بات جو قابل مواخذہ ہو معاف فرما دیجیے۔ دنیا میں ،بزرخ میں، حشر میں، پل صراط پر، جہاں جہاں بھی مواخذہ ہو سکتا ہے معاف فرما دیجیے اور یا اللہ اب آپ جتنی زندگی بھی آئندہ عطا فرمائیں وہ حیات طیبہ ہو اعمال صالحہ کے ساتھ ہو۔انشاء اللہ حسب وعدہ الٰہی ہماری یہ دعا ضرور قبول ہو گی۔ مایوس و ناامید نہ ہونا چاہیے جب ان کا وعدہ ہے تو سب انشاء اللہ معاف ہو جائے گا۔البتہ چند گناہ ایسے ہیں جن کی معافی قابل توجہ ہے۔ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے کینہ نہ ہو۔ کینہ رکھنے والا شخص شب قدر کی تجلیات، مغفرت اور قبولیت دعاء سے محروم رہے گا۔ معاشرتی تعلقات میں اپنے اہل و عیال، عزیز و اقارب دوست و احباب سب پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ دیکھئے کہ ان میں سے کسی کے دل میں کسی قسم کا کھوٹ، کینہ اور غصہ تو نہیں ہے۔

اگر آپ اس معاملہ میں حق بجانب اور دوسرا باطل پر ہے تو اگر آپ اللہ سے مغفرت چاہتے ہیں تو اسے معاف کر دیں۔ اگر آپ کی زیادتی ہو تو اس سے جا کر معافی مانگ لیں اس میں شرم کی بات نہیں۔ اگر بالمشافہ ہمت نہ پڑے تو ایک تحریر لکھ کر اس کے پاس بھیج دیں کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے اس میں دلوں کو صاف رکھنا چاہیے ہم آپ کو معاف کرتے ہیں آپ بھی ہمیں معاف کر دیجیے۔اس کے بعد ان کے بارے میں برا نہ چاہیں۔ نہ دل میں انتقام لینے کا خیال رکھیں پھر اپنی بیوی بچوں پر بھی نظر ڈال لیں کہ ان میں سے آپ سے کوئی ناراض تو نہیں یعنی ان کے ساتھ کوئی بے جا تشدد یا زیادتی تو نہیں کی۔ ایسا ہے تو ان سے معافی مانگنے کی ضرور ت نہیں بلکہ خوش اسلوبی سے ایسا برتاؤ کریں جس سے وہ خوش ہو جائیں اس طرح بھائی،بہن، عزیز و اقارب، غرض کسی سے کسی قسم کی بھی رنجش ہو تو ان کو معاف کر دیں اس لیے کہ آپ بھی تو آخر اللہ تعالیٰ سے معافی چاہتے ہیں۔

اسی طرح فضول باتوں سے پرہیز کیجئے، لغو باتیں کرنے سے عبادت کا نور جاتا رہتا ہے' کلام پاک پڑھیے' سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھئے۔ رمضان المبارک کی دو عبادتیں سب سے بڑی ہیں۔ ایک تو کثرت سے نمازیں پڑھنا جس میں تراویح کی نماز بھی شامل ہے اس کے علاوہ تہجد، اشراق، چاشت اور اوابین کا خاص اہتمام ہونا چاہیے۔ دوسری عبادت تلاوت کلام پاک ہے۔اگر آپ کسی دفتر میں کام کرتے ہیں تو تہیہ کر لیں کہ آپ کے ہاتھ سے ، زبان سے قلم سے خدا کی مخلوق کو کوئی پریشانی نہ ہو ، کسی کو دھوکہ نہ دیں' کسی ناجائز غرض سے اس کا کام نہ روکیں' کوئی بات خلاف شریعت نہ ہو' اگر آپ تاجر ہیں تو صداقت و امانت سے کام کریں۔اکثر دیندار عورتیں اس بات کی شکایت کرتی ہیں کہ ان کو روزہ افطار کرنے سے قبل عصر اور مغرب کے درمیان تسبیحات پڑھنے یا دعائیں کرنے کا موقع نہیں ملتا کیونکہ یہ وقت ان کا باورچی خانہ میں صرف ہو جاتا ہے۔ کھانا تیار کرنے میں مشغول رہتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ وقت بھی عبادت ہی میں گزرتا ہے روزہ داروں کے افطار اور کھانے کا انتظام کرتی ہیں جس میں ثواب ہی ثواب ہے۔

رمضان کی راتیں عبادت میں گزارنے سے دن میں بھی سچائی اور دیانت سے کام کرنے کی عادت ہو جاتی ہے اس مبارک ماہ میں لیلۃ القدر ہے قرآن مجید میں ہے کہ یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ عظیم انعام ہے۔ شب قدر کے بارے میں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس کا وقت غروب آفتاب سے طلوع فجر تک رہتا ہے اس لیے اس کا اہتمام ضروری رکھنا چاہیے۔ جس قدر ممکن ہو نوافل، تسبیحات اور دعاؤں میں کچھ اضافہ ہی کر دینا چاہیے۔ ساری رات جاگنے کی ہمت نہ ہو تو جس قدر تحمل ہو بہت ہے۔ جی بھر کے استغفار کر لیا تو اب بھی استغفار کرتے رہیے زیادہ ماضی کے پیچھے نہ پڑیئے اب مستقبل کو سوچئے، مستقبل ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادات میں زیادہ سے زیادہ وقت گزاریئے۔

ماہ رمضان اخوت و بھائی چارے کا درس بھی دیتا ہے، اس حوالے سے آپﷺ کی تعلیمات کیا ہیں؟

شریعت اسلامی نے مسلمانوں کے لیے ہر زمانہ اور ہر دور میں آپس میں اخوت کے رشتہ کو قائم کرنے کی ہدایات دیں لیکن رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں اخوت اور بھائی چارے کی فضا کو خصوصی طور پر قائم کرنے کی ہدایات دیں۔ ''ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی روزہ کا ثواب عطا فرماتا ہے جو دودھ کے ایک گھونٹ یا ایک کھجور یا پانی کے ایک گھونٹ سے کسی روزہ دار کو افطار کرائے اور جو شخص روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے تو اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض سے ایسا سیراب کرے گا کہ پھر اسے کبھی پیاس نہ لگے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو گا۔'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور موقعہ پرارشاد فرمایا:'' یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ باہمی رواداری اور غم خواری کا مہینہ ہے۔''جب ان ارشادات کا مطالعہ کیا جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے مقدس ماہ کے بارے میں فرمائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس ماہ میں اخوت کی خصوصی تربیت دی۔ اخوت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ مسلمان اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے کرتا ہے جس کے نتیجہ میں ایک مسلمان دوسرے سے ہمدردی کا رویہ اختیار کرتا ہے اور اسے تکلیف یا دکھ دینے سے پرہیز کرتاہے۔

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس دن کسی کا روزہ ہو تو وہ نہ بری باتیں کرے نہ بے جا چلائے اور اگر کوئی اسے برا بھلا کہے یا اس سے لڑنے لگے تو اس سے کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔''آپس میں بھائی چارے کی تربیت میں یہ بھی شامل ہے کہ کینہ، بغض، حسد اور اس جیسے برے جذبات ختم ہو جائیں اور آپس میں ہمدردی اور شفقت پیدا ہو۔اخوت اسلامی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کی مشکلات میں کام آئے اور دنیاوی پریشانیوں اور دکھوں کو دور کرنے کی کوشش کرے خصوصاً رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں پوری کوشش رہے کہ کسی مسلمان کو اس میں تکلیف نہ پہنچے۔

روزہ ایثار اور قربانی کا سبق دیتا ہے اسے اپنے معاشرہ میں ہر فرد کے ساتھ استعمال کرنے کی کوشش کرے اگر تاجر ہے تو ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کرنے یا ناپ تول کی کمی کر کے مسلمان بھائیوں کی مشکلات میں اضافہ کا سبب نہ بنے۔ چنانچہ ایسی تمام باتوں سے پرہیز کی تعلیم دی گئی کہ جن سے اخوت کے رشتہ میں کمی آنے کا خطرہ ہو۔رمضان المبارک کے صرف اس ایک ماہ میں جب اہل معاشرہ آپس میں بھائی چارے اور مواخات کی فضا بنا لیں تو اس کے اثرات پورے سال بلکہ پوری زندگی میں اس طرح نظر آئیں گے کہ ہر مسلمان دوسرے کے لیے وہی پسند کرے گا جو اپنے لیے کرتا ہے، ہر مسلمان دوسرے کی عزت و آبرو کی حفاظت کرے گا، اپنی زبان اور عمل سے دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے گریز کرے گا۔ اس لیے کہ جب معاشرے میں اخوت قائم ہو جاتی ہے تو پھر اس معاشرے میں ایثار و قربانی، شفقت و محبت، ہمدردی اور غم خواری کے جذبات ہر شخص کو نظر آتے ہیں اللہ رب العزت ہمیں اس بابرکت مہینہ میں روزہ کے تمام آداب و احکام پر عمل کرتے ہوئے آپس میں بھائی چارے اور مواخاۃ کی وہ دولت عطاء فرمائے جس کے ثمرات سے دنیا کی زندگی بھی کامیاب ہو جائے اور آخرت میں بھی کامیابی نصیب ہو۔

دعا مانگنے کے آداب کیا ہیں؟ ماہ رمضان میں کونسی دعائیں مانگنی چاہئیں؟

رمضان المبارک دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے جس میں دن رات دعائیں قبول ہوتی ہیں۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ''اور جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں تو آپ فرما دیجیے کہ میں قریب ہی ہوں۔ دعا مانگنے والوں کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا مانگیں۔ پس انہیں میرا حکم ماننا چاہیے اور مجھ پر ایمان لانا چاہیے تاکہ وہ نیک راہ پر آجائیں۔''روزو ں اور رمضان المبارک کے ذکر کے ساتھ دعا مانگنے کا تذکرہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ رمضان کا مہینہ دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے۔

دعا عربی زبان کا لفظ ہے اس کا معنی ہے پکارنا، بلانا، عموماً یہ لفظ کسی ضرورت یا مدد کے لیے پکارنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو دعا مانگنے کا حکم دیا اور دعا کو بھی ایک عبادت اور بندگی کا ذریعہ قرار دیا ہے جو کہ اس امت کا خاص اعزاز ہے ورنہ حضرت کعب احبار کی روایت کے مطابق پہلے زمانہ میں یہ خصوصیت انبیاء کی تھی۔ انبیاء لوگوں کے لیے دعا کرتے، اللہ تعالیٰ قبول فرماتا اور امت محمدیہ کی خصوصیت کہ یہ حکم پوری امت کے لیے عام قرار دیا اور فرمایا: ''اور تمہارے رب نے کہا کہ تم مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔''ایک اور موقعہ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ ''دعاء مومن کا ہتھیار ہے''۔ ظاہر ہے کہ ہتھیار صحیح کام تب ہی دکھاتا ہے جب ہتھیار بھی تیز ہو اور چلانے والا بھی طاقتور ہو۔

اب دعا کیسے طاقتور بنے اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آداب سکھلائے۔ دعاؤں کے الفاظ سکھلائے جو مسنون دعائیں کہلاتی ہیں اور وہ اوقات بتائے جن میں دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں ان میں ایک موقعہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے' ہماری دعائیں کیسے طاقتور بنیں اس کے لیے بنیادی اصول اللہ تعالیٰ نے سورۂ اعراف کی آیت نمبر 55 میں فرمایا (ترجمہ)'' تم اپنے رب سے دعا کیا کرو عاجزی کے ساتھ اور پوشیدہ طریقے سے''۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ دعا کرنے والا خشوع و خضوع یعنی عاجزی اور اللہ کے دھیان کے ساتھ دعا مانگے اور دوسرا ادب یہ معلوم ہوا کہ آہستہ آواز سے دعا مانگے اگر عام مقتدی دعاؤں سے ناواقف ہوں تو پھر امام کے لیے اونچی آواز سے دعا مانگنے میں کوئی حرج نہیں۔

دعاء کی قبولیت کو مزید موثر بنانے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ وہ دعائیں مانگی جائیں جو قرآن مجید میں مختلف انبیاء کے حوالے سے مذکور ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی وہ دعائیں قبول فرمائی ہیں۔ یا احادیث میں جو دعائیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہیں وہ مانگی جائیںلیکن قرآن و حدیث کے عربی جملے جن میں دعائیں ہیں اگر ان کا ترجمہ اور مطلب معلوم ہو تو پھر وہی دعائیں مانگنا افضل اور بہتر ہے لیکن عام حالات میں اگر ان دعاؤں کا مطلب معلوم نہ ہو تو پھر مانگنے والے کو تو معلوم نہیں کہ ان دعائیہ جملوں سے ہم اللہ سے کیا مانگ رہے ہیں۔ لہٰذا ان دعاؤں کے پڑھنے کا ثواب تو ضرور ملے گا لیکن اسے دعا مانگنا نہیں کہیں گے بلکہ دعا پڑھنا کہیں گے اس لیے دعا مانگتے وقت پہلے مسنون دعائیں بھی پڑھ لی جائیں پھر جو دعاؤں کا مفہوم نہ جانتا ہو وہ اپنی زبان میں بھی دعائیں مانگ سکتا ہے۔

جب یہ کہا جاتا ہے کہ رمضان المبارک دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے تو دل میں ایک خیال آجاتا ہے جس کی وجہ سے انسان دعا مانگنے سے رک جاتا ہے اور وہ یہ خیال آتا ہے کہ ہم نے بہت سی دعائیں مانگی ہیں ہماری دعا قبول ہی نہیں ہوتی لہٰذا پھر وہ انسان دعا مانگنے کی طرف متوجہ نہیں رہتا۔اس بارے میں ایک بات تو یہ قابل ذکر ہے کہ ارشادات نبویہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حرام مال کھانے اور حرام لباس استعمال کرنے اور حرام کمائی کرنے والے کی دعاء قبول نہیں ہوتی لیکن اس کے علاوہ ہر شخص کی دعا قبول ہوتی ہے وہ بات پھر ذہن میں رہتی ہے کہ ہم نے بہت کچھ مانگا ہمیں تو نہیں ملا اس کا جواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھایا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مومن کی دعاء ضرور قبول ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے کہ اس بندہ کے لیے کیا چیز بہتر ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:''کہ بسا اوقات تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہوتی ہے۔ اور بسااوقات تم کسی چیز کو پسند کرتے ہو اور وہ تمہارے لیے بری ہوتی ہے۔''اس لیے انسان کا کام ہے اللہ سے دعائیں کرتے رہنا، مانگتے رہنا، یا تو اللہ تعالیٰ بندہ کو وہی چیز دیتا ہے یا اس کا نعم البدل عطاء فرما دیتا ہے یا دنیا میں اس دعا کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ اس کی دعاؤں کی بدولت اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے اور جب گناہ ختم ہو جائیں تو پھر ان دعاؤں کو اس بندہ کی نیکیاں شمار کر لیا جاتا ہے۔ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن بندہ نیکیوں کے ایک ڈھیر کو دیکھ کر کہے گا یہ نیکیاں تو میری نہیں ہیں۔اسے بتایا جائے گا کہ یہ تمہاری وہ دعائیں ہیں جو دنیا میں قبول نہیں ہوئی تھیں ان کے بدلہ میں نیکیاں ملی ہیں اس وقت بندہ کہے گا کہ کاش دنیا میں میری کوئی دعا قبول نہ ہوتی سب کا بدلہ یہاں آخرت میں ملتا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاؤں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بہت سے لوگ جلد بازی کی وجہ سے اپنی دعائیں ضائع کر دیتے ہیں۔

صحابہ کرامؒ نے عرض کیا جلد بازی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا دعا مانگنے کے بعد یہ کہنا کہ میری دعا قبول نہیں ہوتی ، دعا کو ضائع کرنا ہے لہٰذا رمضان کے اس بابرکت مہینہ میں خوب دعائیں مانگی جائیں اور اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہی ہماری دعائیں قبول کرنے والا ہے، دعا میں اپنے لیے، اپنے والدین کے لیے اور دوسرے مسلمان بھائیوں کے لیے دعا کرنا۔ پوری انسانیت کی ہدایت کے لیے دعا مانگنا، پختہ عزم سے دعا مانگنا، بار بار دعا کرنا، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''رمضان کا یہ مہینہ ایسا ہے کہ اس کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے اور درمیانہ عشرہ بخشش کا ہے اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے آزادی کا ہے۔''اس لیے دعا کرتے ہوئے رمضان المبارک میں خصوصاً اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سحری کے وقت یہ پڑھتے رہا کرو یا واسع المغفرۃ یعنی اے وسیع بخشش والے، اس کے پڑھنے والے کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ روزے میں دن بھر خوب دعائیں مانگی جائیں پھر جب افطار کا وقت آجائے تو یہ بھی بڑی قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:'' روزہ افطار کرنے کے وقت روزہ دار کی دعا قبول ہوتی ہے۔''

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم افطار کے وقت یہ دعا بھی مانگتے تھے ''یاواسع الفضل اغفرلی۔''

رمضان میں یہ دعائیںکثرت سے مانگیں: یااللہ اپنے اس متبرک ماہ میں جتنے وعدے فرمائے ہیں اور آپ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی بشارتیں دی ہیں یا اللہ ہم ان سب کے محتاج ہیں آپ یہ سب عطا فرما دیجئے۔ یا اللہ ہم لوگ جو توبہ و استغفار کریں وہ سب قبول کر لیجیے زیادہ سے زیادہ اعمال صالحہ کی توفیق دیجئے۔یا اللہ سب مسلمانوں پر رحم فرمائیے۔ بالخصوص روہنگیا ، شام ، عراق ، فلسطین و کشمیر، افغانستا ن سمیت پوری دنیا میں جہاں جہاں مسلمان مظلوم ہیں ان کی مدد و نصرت فرما امت مسلمہ کو متحد فرما،یا اللہ حرمین شریفین کی حفاظت فرما، یا اللہ خصوصاً پاکستان میں زندقہ اور الحاد کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو دور فرما دیجیے اور مساجد و مدارس اور دینی مراکز کی حفاظت فرما۔یا اللہ نسل نو کے ایمان کی حفاظت فرمائیے۔

ان کے دلوں میں دین کی عظمت اور آخرت کا خوف پیدا کیجیے یا اللہ ان میں انسانیت اور شرافت کے احساسات و جذبات پیدا فرما دیجیے۔یا اللہ ہر طرح کی برائیوں سے تباہ کاریوں سے بچا لیجیے۔یا اللہ امن و امان کی صورت پیدا فرما دیجیے بیرونی سازشوں، دشمنوں کی نقصان رسانی سے ہماری مملکت اسلامیہ کو بچا لیجیے۔ یا اللہ ہمارے دین کی حفاظت فرمائیے۔ ہمارے ظاہر و باطن کو پاک کر دیجیے۔ یا اللہ جو دشواریاں، بیماریاں، پریشانیاں، آنے والے خدشات و آفات ہیں ان سب سے ہمیں محفوظ فرما دیجیے۔ ہماری تمام حاجات پوری فرما دیجیے۔ ہمیں اسلام پر قائم رکھئے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرما دیجیے۔ آمین۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں