دنیا میں جہاں تک عبادت گاہوں کی تعمیر کا تعلق ہے تو اس کی ابتدا تو خانہ کعبہ سے ہی ہوئی اور اس کے فوری بعد مساجد کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا اور اس وقت کی تعمیر ہونے والی یہ مساجد نہ تو خوبصورت اینٹوں سے تعمیر کی جاتی تھیں، نہ ان میں سنگ مرمر کا استعمال ہوتا تھا۔ یہ مساجد کہیں تو گھاس پھونس سے بنی ہوتی تھیں، تو کہیں پہاڑوں کو تراش کر اور مٹی کے گاروں سے بنائی جاتی تھیں۔ کیونکہ اس وقت کی مساجد میں کوئی قیمتی سامان نہیں ہوا کرتا تھا، لہٰذا اسلامی تصور کے مطابق اس میں کبھی تالے بھی نہیں لگائے جاتے تھے اور وہ 24 گھنٹے اللہ کے بندوں کے لیے کھلی ہوتی تھیں۔
انبیا کرام، صحابہ کرام کے دور میں بھی ان مساجد میں ناصرف حکومتی امور نمٹائے جاتے تھے، بلکہ گلیوں اور محلوں کے مسائل پر بھی گفتگو کی جاتی تھی۔ اس زمانے میں ماسوائے جانوروں کے کوئی ٹرانسپورٹ نہیں ہوتی تھی، لہٰذا دور دراز سے آنے والے مسافر ان میں قیام بھی کرلیتے تھے۔ دنیا میں پہلی تعمیر ہونے والی مسجد 'قبا' کو مانا جاتا ہے اور اس کے بارے میں یہ ذکر موجود ہے کہ مدینہ منورہ کے جنوب اور مسجد نبوی سے 3 کلومیٹر کے فاصلے پر تعمیر ہوئی۔ اس کا سنگ بنیاد نبی کریم ﷺ نے اس وقت اپنے دست مبارک سے رکھا جب آپؐ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تھے۔ اس وقت آپؐ نے قبا نامی بستی میں قیام کیا تھا جس کی مناسبت سے اس مسجد کو مسجد قبا کہا گیا۔ اس وقت اس مسجد میں ایک کنواں، وسیع صحن، کھجور کے چند درختوں اور ایک گنبد کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔ روایت یہ بھی ہے کہ مسجد کے تقدس اور حرمت سے متعلق اس مسجد پر بھی ایک سورۃ کا نزول ہوا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ جب بھی مدینے سے مکہ تشریف لاتے تو اس مسجد میں 2 رکعت نفل ضرور ادا کیا کرتے تھے۔
جیسے جیسے اسلام کا پھیلاؤ عمل میں آیا، دنیا بھر میں صحابہ اکرام ؓ ،اولیاء اللہ، بزرگان دین کی جانب سے لاتعداد مساجد بنائی گئیں اور ان سے اللہ اکبر اور حی علی الفلاح کی صدائیں گونجنے لگیں۔ اگر برصغیر پاک و ہند کا مشاہدہ کیا جائے تو مغل بادشاہوں نے لاتعداد خوبصورت دیدہ زیب مساجد تعمیر کیں، جن میں لاہور کی بادشاہی مسجد، شاہجہانی مسجد و دیگر مساجد آج بھی اپنی آن، بان، شان کے ساتھ موجود ہیں اور نمازیوں کو دعوت عبادت دے رہی ہیں۔
کراچی؛ جہاں ماضی میں ہندو، عیسائی، یہودی، سکھ، پارسی اور مسلمانوں کی ملی جلی آبادی تھی اور تمام مذاہب کے لوگوں نے اپنی اپنی جھگی نما یا پھر مٹی کے گاروں کی مدد سے عبادت گاہیں قائم کر رکھی تھیں، اسی طرح مسلمانوں کی بھی ناپختہ عبادت گاہیں موجود تھیں۔ لیکن جب انگریزوں نے فروری 1839 میں کراچی پر قبضہ کیا تو تمام مذاہب کے لوگوں نے اپنی عبادت گاہیں چرچ، گردوارے، یہودی عبادت گاہیں، مندر، آتش کدے تعمیر کرلیے، جو آج بھی پوری شان کے ساتھ کراچی کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔ لیکن جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو کیونکہ اس وقت کراچی کی کل آبادی 13 ہزار 8 سو 50 لوگوں پر مشتمل تھی اور مسلمان صرف 4 ہزار 8 سو 50 ہونے پر اقلیت میں تھے، انہوں نے بھی اپنی مساجد کی تعمیر کا کام شروع کردیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے گاڑی کھاتہ بندر روڈ پر 1857 میں باقاعدہ طور پر 'میمن مسجد' کے نام سے ایک مسجد تعمیر کی اور اس کے فوری بعد جونا مارکیٹ، کھجور بازار جبکہ دوسری کیماڑی میں پیر غائب شاہ کے مزار کے ساتھ تیسری مسجد بنائی گئی۔ اسی دوران 1874 میں کھڈا مارکیٹ میں 'چھوٹانی مسجد' کے نام سے پختہ مسجد کی تعمیر ہوئی۔ 1893 میں راجہ غضنفر روڈ صدر میں ایک اور میمن مسجد تعمیر کی گئی۔ اور اس کے بعد گویا مساجد کی تعمیر کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔
جہاں تک صدر کے علاقے کا تعلق ہے تو کیونکہ یہاں عیسائی، پارسیوں اور ہندوؤں کی اکثریت آباد تھی، لہٰذا انہوں نے سینٹ پیٹرک چرچ سمیت کئی چرچ تعمیر کر رکھے تھے، جبکہ پارسیوں کے لیے آتش کدے کے علاوہ گھروں میں ہندوؤں کے مندر موجود تھے۔ جہاں سے بجنے والے گھنٹوں، بھجن اور گیتوں کی آواز تو آتی تھی مگر کہیں سے حی علی صلاح کی صدا بلند نہیں ہوتی تھی۔ جسے دیکھتے ہوئے یہاں اقلیت میں موجود مسلمانوں، جن کی اکثریت کا تعلق قریش برادری سے تھا، جو ایمپریس مارکیٹ کٹرک روڈ پر حلال گوشت فروخت کرنے کا کام کیا کرتے تھے، انھوں نے ابتدائی طور پر چٹائی کی چھتوں سے مسجد قصابان کی بنیاد رکھی اور یہاں بنائے گئے ایک مینار سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہونی شروع ہوئی۔ دور دراز سے مسلمان جوکہ اقلیت میں تھے، یہاں نماز کی ادائیگی کے لیے آنے لگے اور پھر 1313 ہجری بمطابق 1879 میں پتھروں سے ایک پختہ مسجد کی تعمیر کا کام ترکی کی مساجد کے طرز پر کیا گیا۔ اس مسجد کو پہاڑی پتھروں سے بنایا گیا اور پتھروں کو تراش کر مینار بنائے گئے۔ اس مسجد کے پہلے باقاعدہ خطیب و پیش امام حضرت مولانا حافظ علم دین کو بنایا گیا، جو کہ نہ صرف مسجد کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے بلکہ 5 وقت کی نمازوں کے ساتھ ساتھ مسلمان بچوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم بھی دیا کرتے تھے۔
انگریزوں کے شہر میں قبضے کے بعد کیونکہ صدر میں انگریز فوجیوں اور بڑے افسران کی رہائش تھی، نیز تجارت پیشہ ہندو اور پارسی بھی آباد تھے، لہٰذا مذہبی آزادی ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ شراب خانے، ڈانسنگ کلب، نائٹ کلب موجود تھے۔ جہاں شام ہوتے ہی نوجوان نسل کے لڑکے اور لڑکیاں شراب کے نشے میں دھت ہوکر جگہ جگہ ہلہ گلہ کرتے اور ناچتے تھرکتے نظر آتے۔ جسے دیکھ کر اس وقت کراچی کی معروف سماجی شخصیت مولوی محمد مولدینا نے مسجد قصابان کی بالائی منزل تعمیر کروائی اور ایک مکمل دینی مدرسہ قائم کیا، جہاں مسلمان بچے، بچیوں اور نوجوانوں کو دینی تعلیم دی جاتی۔ اسی مسجد سے ملحق ایک مسافر خانہ بھی تعمیر کیا گیا، جہاں دور دراز سے آنے والے طلبا کو ہاسٹل کی سہولت میسر تھی، تو دوسری جانب مسافروں کے طعام و قیام کی سہولت بھی مہیا کی گئی۔ اب یہ مسافر خانہ موجود نہیں، اسے مسجد ہی میں شامل کرلیا گیا ہے۔
مسجد قصابان جو کہ قدامت کے اعتبار سے لگ بھگ 175 سال پرانی ہے۔ دوسری صدی میں داخل ہوجانے کے باوجود آج تک اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے اسے قدیم ورثہ اقرار دیئے جانے کے باوجود اس کے پرانے در و دیوار اور پتھروں سے تراشیدہ مینار، گنبد، جن پر اب رنگ و روغن کیا جا چکا ہے، مگر اس کے باوجود وہ اپنی قدامت کی داستان بیان کررہی ہے۔
مسجد اندر سے بھی انتہائی شاندار نظر آتی ہے۔ اس کی کچھ دیواریں، چھجے اور دیواروں پر ٹنگے صدیوں پرانے گھڑیال اس کی قدامت کے گواہ ہیں۔ آج کل اس مسجد کے پیش امام مولانا مختار احمد سعیدی ہیں، جو کہ گزشتہ 26 سال سے لوگوں کو نماز پڑھانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ہم نے جب مسجد کی قدامت کے حوالے سے گفتگو کی تو مولانا مختار احمد کا کہنا تھا کہ یہ مسجد لگ بھگ 175 سال قدیم ہے اور اس مسجد میں ایسے جید عالم دین پیش امام کے فرائض انجام دے چکے ہیں جنہیں دین اسلام پر مکمل عبور حاصل ہوا کرتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ یہ مسجد کنٹونمنٹ کے علاقے جہاں انگریز، پارسی، یہودیوں کی بڑی تعداد موجود تھی، لوگ دور دراز سے خطبہ سننے اور نمازوں کی ادائیگی کے لیے نا صرف آتے تھے، بلکہ اللہ کے اس گھر میں نماز کی ادائیگی کو اپنے لیے ایک فخر خیال کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس مسجد کی بنیاد بھارت کے احمد آباد و دیگر علاوقوں سے آنے والی قریش برادری کے لوگوں نے رکھی تھی۔ یہ مسجد اب محکمہ اوقاف کے زیر نگرانی ہے، اس کے باوجود لوگ اس مسجد کی دیکھ بھال میں، اور اسے خوبصورت اور دیدہ زیب بنانے میں اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں، جس کے سبب اس مسجد کی شہرت آج بھی وہی ہے جو ماضی میں ہوا کرتی تھی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔