طلاق ایک المیہ معاشرتی بے حسی اور میڈیا کا کردار حصہ اوّل
اختلافات اگر شدت اختیار کرجائیں تو صرف دنیاوی دکھلاوے کے لیے رشتے کو برقرار رکھنا کہاں کی سمجھداری ہے؟
دو سال قبل کا ذکر ہے کہ لاہور میں نوبیاہتا دلہن کو محض تین دن بعد اس کے سنگدل شوہر نے ناحق قتل کردیا۔ تفتیش کرنے پر انکشاف ہوا کہ موصوف کی پسند کہیں اور تھی، جس کے برخلاف گھر والوں نے اپنی مرضی ٹھونس دی۔ عقل وفہم کا تقاضا تو یہ تھا کہ شادی سے یکسر انکار کردیتا- اگر بادل نخواستہ ہو بھی گئی تو نباہ کرتا، وگرنہ طلاق کا آپشن تو موجود تھا- مگر قتل جیسا قبیح جرم، جس میں ایک معصوم و بے قصور کی جان چلی گئی، کی کیا منطق ہے؟
لاہور کا یہ واقعہ اپنی نوعیت میں واحد نہیں، انگنت واقعات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو شب و روز ہمارے سماج میں وقوع پذیر ہورہے ہیں- بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے مرد کا یہی المیہ ہے کہ اس میں محبت تو ٹھاٹھیں مار رہی ہوتی ہے مگر شادی کی تاب نہیں ہوتی- پدرانہ سماج میں اگر مرد کا یہ عالم ہو تو وہاں عورت کا حال بیان کرنا بےسود ہے۔
زمانہ بدل گیا مگر بحیثیت مجموعی ہماری سوچ نہ بدلی- افسوس ناک پہلو اس المیہ کا یہ ہے کہ گھریلو ناچاقی اور خانگی بگاڑ میں عورت بھی برابر کی حصہ دار بنتی جارہی ہے۔ یعنی وہ کردار، جس کے لیے کبھی مرد کو ذمے دار ٹھہرایا جاتا تھا، سماجی بے راہ روی، میڈیائی چکاچوند اور خوب سے خوب تر کی خواہش میں عورت بھی اس کی لیپٹ میں آچکی ہے۔
گزشتہ سال نومبر کی بات ہے کہ حافظ آباد جیسے قصباتی شہر میں پانچ بچوں کی ماں پڑوسی کے عشق میں گرفتار ہوئی۔ محبت اندھی ہوتی ہے کے مصداق یہ معشوقہ بھی اسی مصنوعی عشق میں اس قدر اندھی ہوئی کہ کوئی چارہ نہ پا کر اپنے آشنا سے مل کرخاوند کو قتل کردیا- سانحے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ماں و آشنا کی مدد بیٹیوں نے بھی کی۔ خون سفید ہوجانا تو سنا تھا، اس واقعے نے تو عکاسی بھی کردی۔
زیادہ دور مت جائیے۔ اسی سال فروری کی بات ہے کہ لاہور میں ایک شادی شدہ خاتون پر عشق کا بھوت سوار ہوا۔ باوجود ایک بچی کی ماں ہونے کے، انتہائی گھناؤنے جرم میں ملوث ہوئی اور آشنا سے مل کر خاوند کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ تحقیقات ہوئیں تو معلوم ہوا کہ شادی میں رضامندی نہیں تھی۔ خاوند پولیو کا مریض، اور ایک ٹانگ سے معذور تھا۔ والدین فیصلے سے آگاہ تھے مگر وہی روایتی دباؤ، نتیجہ جس کا المناک نکلا۔ ازدواجی رشتے میں ہونے کے باوجود دو مرتبہ گھر سے آشنا کے ساتھ فرار ہوئی۔ دونوں بار ڈھونڈ کرواپس لایا گیا۔ اس قدر بدنامی سمیٹنے کے باوجود معاملہ کسی منطقی نتیجے کو نہ پہنچ سکا۔ خلع کی خواہش ظاہر کی تو واضح انکار کردیا گیا۔ والدین اور شوہر اپنی ضد پراڑے رہے اور یوں گھر جہنم زار کا منظر پیش کرتا رہا۔ بالآخر روز روز کی بحث، لڑائی جھگڑے اور گالم گلوچ سے تنگ آکر انہتائی قدم اٹھایا اور شوہر کو زندگی سے آزاد کردیا۔ اسی پراکتفا نہ کیا بلکہ لاش کو بھی جلادیا تاکہ قابل شناخت نہ رہے۔
اسی طرز کا کیس چند ماہ قبل سیالکوٹ میں وقوع پذیر ہوا، جہاں بیس سالہ رفاقت کا گلا گھونٹا گیا۔ بیوی نے ایک رات نشہ آور گولیاں پلا دیں۔ مدہوش ہونے پر گلہ گھونٹا اور عاشق سے مل کر لاش کو دور کھیتوں میں پھینک دیا۔ پولیس کی تفتیش میں انتہائی مضحکہ خیز صورتحال سامنے آئی۔ جس کے ساتھ چکر چل رہا تھا وہ شخص شوہر کا دوست اور چھ بیٹیوں کا باپ تھا۔ قاتل بیوی کا شوہر ایک عرصہ سے بیمار اور کام سے لاچار تھا۔ گھریلو اخراجات پر کچھ توتکار ہوئی تو گھاگ شخص نے اپنی باتوں میں لبھایا اور شادی کا جھانسا دیا۔ کج فہم عورت اس حد تک گرگئی کہ طلاق یا خلع کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے شوہر کو ہی ابدی نیند سلادیا۔
نامعلوم ایسے کتنے ہی دل دہلانے والے واقعات ہمارے معاشرے میں ہورہے ہیں، جہاں گھریلو ناچاقی کا انجام قتل کی صورت نکلا۔ سوال یہ ہے کہ کیا طلاق یا خلع ایک انسانی قتل سے زیادہ خطرناک ہے؟ یہ تو وہ راستے ہیں جن کی ریاستی قانون اور شریعت باقاعدہ اجازت دیتی ہے۔ ایک منطقی بات ہے کہ اگر قانونی عمل میں بندھے دو افراد مطمئن نہ ہوں تواپنا راستہ الگ کرلیں۔ لیکن اس طرح سے انسانی قتل کی اجازت تو قطعاً اسلام میں نہیں دی گئی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک جائزعمل اگرچہ ناپسندید (طلاق یا خلع) تو مشکل ترین بنا دیا گیا، جبکہ ایک ناجائز عمل (قتل) سہل دکھائی دینے لگا؟
ایک معروف این جی او کے مرتب کردہ اعداد وشمار کے مطابق 2018 میں کراچی میں 15,000 جبکہ لاہور میں 6,000 خلع کے کیسز درج ہوئے۔ خلع کی نوبت کب اور کیوں پیش آتی ہے؟ وجوہات میں دیکھا گیا ہے کہ جب شوہر طلاق دینے پر باہمی رضامند نہ ہو۔ شاید اس کی ایک وجہ رشتہ بچانے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھی جانی چاہیے۔ ایک صورت حق مہر کی استطاعت سے بڑھ کر طے شدہ رقم کا ہونا ہے، جس کی ادائیگی طلاق کی صورت میں شرعی طور پر ادا کرنا مرد کی ذمے داری ہوتی ہے۔
چونکہ شرعی اصول کے مطابق اسلام مرد کو طلاق کا حق دیتا ہے، جس کا منفی سوچ کے تحت استعمال بھی دیکھا گیا ہے۔ مثلاً خانگی مسائل سے تنگ ایک عورت علیحدگی چاہتی ہے تو شوہر طلاق دینے کے بجائے منفی ہتھکنڈے استعمال کرے گا، خلع لینے کے لیے کورٹ کچہری جانے پر مجبور کرے گا اور ایسی قانونی موشگافیوں میں ڈالے گا جس سے پیسوں اور وقت کا زیاں ہو۔
کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ معاملات میں سلجھاؤ نہ آنے پر طلاق کا راستہ اختیار کیا جائے اور زندگی میں آگے بڑھا جائے؟ اسلام نے مرد کو طلاق کا حق بوجوہ دیا کہ اس میں برداشت کا مادہ زیادہ ہے۔ جذباتیت پر قابو پانے کی صلاحیت قدرتی طور پر ودیعت کردہ ہے- لہٰذا یہ بھی فرض کیا گیا ہے کہ وہ طلاق جیسا سنجیدہ فیصلہ انہتائی فہم اور غوروفکر کے ساتھ کرے گا اور اس بات کو مدںظر رکھے گا کہ اگر معاملات کی ناؤ درست راہ پر نہیں، تو مردانگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طلاق کا باعزت راستہ اختیار کرے گا۔
لیکن افسوس ہم نے اپنے معاشرے میں آسانیاں بانٹنا سیکھا ہی نہیں ہے۔ شہر میں رہنے والی نسبتاً پڑھی لکھی عورت خلع کا راستہ تو اختیار کرسکتی ہے۔ دیہات کی پسماندہ عورت جو اپنے قانونی حقوق سے نابلد ہوتی ہے، اس کے درد کا اندازہ لگائیں کہ وہ تو اس کا سوچ بھی نہیں سکتی- عدم برداشت، ہٹ دھرمی اور ضدی رویوں نے ہمارے معاشرے کو اخلاقی پستی میں دھکیل دیا ہے۔ راقم طلاق کے بے جا استعمال کے حق کے میں بالکل بھی نہیں، لیکن شادی ایسا مقدس رشتہ ہے جس میں شب و روز ایک دوسرے کے ساتھ نباہنے کا عہد وپیماں ہوتا ہے- اگر کسی وجہ سے ناچاقی در آئے تو ان گزرے ہوئے لمحات کا لحاظ کرتے ہوئے باہمی رضامندی سے جدا ہونا چاہیے اور کسی کدورت کو پالنا نہیں چاہیے۔ ورنہ دوسری صورت میں طلاق یا خلع میں آسانی نہ ہونے کی وجہ سے قتل جیسے گھناؤنے اور قبیح واقعات ہمارے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر رہے ہیں۔
اختلافات اگر شدت اختیار کرجائیں اور ازدواجی رشتہ برائے نام رہ جائے تو صرف دنیاوی دکھلاوے کے لیے رشتے کو برقرار رکھنا کہاں کی سمجھداری ہے۔ کیوں گھٹن بھری زندگی پر اصرار کیا جائے؟ جبکہ یہ تسلیم شدہ ہے کہ شادی دو لوگوں کی باہمی رضامندی کا نام ہے، جس میں ایک فریق کی خوشی خاص معنی نہیں رکھتی۔ ایک غیرمطمئن ازدواجی تعلق ڈپریشن، مایوسی اور ناامیدی کا باعث بنتا ہے۔ اور یہ یقیناً ایک گھاٹے کا سودا ہے۔
اس ضمن میں میڈیا کا کردار آج کے معاشرے میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جدید میڈیا عوام کی رائے تشکیل دینے اور سماجی حرکیات پر اثرانداز ہوتا ہے۔ میڈیا عوامی مفادات کی حفاظت اور سماجی شعور بیدار کرنے میں انتہائی کارگر رہا ہے۔ آئیے! ہم دیکھتے ہیں کہ طلاق کا معاملہ لے کر میڈیا کا کیا کردار ہے؟
(جاری ہے)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
لاہور کا یہ واقعہ اپنی نوعیت میں واحد نہیں، انگنت واقعات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو شب و روز ہمارے سماج میں وقوع پذیر ہورہے ہیں- بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے مرد کا یہی المیہ ہے کہ اس میں محبت تو ٹھاٹھیں مار رہی ہوتی ہے مگر شادی کی تاب نہیں ہوتی- پدرانہ سماج میں اگر مرد کا یہ عالم ہو تو وہاں عورت کا حال بیان کرنا بےسود ہے۔
زمانہ بدل گیا مگر بحیثیت مجموعی ہماری سوچ نہ بدلی- افسوس ناک پہلو اس المیہ کا یہ ہے کہ گھریلو ناچاقی اور خانگی بگاڑ میں عورت بھی برابر کی حصہ دار بنتی جارہی ہے۔ یعنی وہ کردار، جس کے لیے کبھی مرد کو ذمے دار ٹھہرایا جاتا تھا، سماجی بے راہ روی، میڈیائی چکاچوند اور خوب سے خوب تر کی خواہش میں عورت بھی اس کی لیپٹ میں آچکی ہے۔
گزشتہ سال نومبر کی بات ہے کہ حافظ آباد جیسے قصباتی شہر میں پانچ بچوں کی ماں پڑوسی کے عشق میں گرفتار ہوئی۔ محبت اندھی ہوتی ہے کے مصداق یہ معشوقہ بھی اسی مصنوعی عشق میں اس قدر اندھی ہوئی کہ کوئی چارہ نہ پا کر اپنے آشنا سے مل کرخاوند کو قتل کردیا- سانحے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ماں و آشنا کی مدد بیٹیوں نے بھی کی۔ خون سفید ہوجانا تو سنا تھا، اس واقعے نے تو عکاسی بھی کردی۔
زیادہ دور مت جائیے۔ اسی سال فروری کی بات ہے کہ لاہور میں ایک شادی شدہ خاتون پر عشق کا بھوت سوار ہوا۔ باوجود ایک بچی کی ماں ہونے کے، انتہائی گھناؤنے جرم میں ملوث ہوئی اور آشنا سے مل کر خاوند کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ تحقیقات ہوئیں تو معلوم ہوا کہ شادی میں رضامندی نہیں تھی۔ خاوند پولیو کا مریض، اور ایک ٹانگ سے معذور تھا۔ والدین فیصلے سے آگاہ تھے مگر وہی روایتی دباؤ، نتیجہ جس کا المناک نکلا۔ ازدواجی رشتے میں ہونے کے باوجود دو مرتبہ گھر سے آشنا کے ساتھ فرار ہوئی۔ دونوں بار ڈھونڈ کرواپس لایا گیا۔ اس قدر بدنامی سمیٹنے کے باوجود معاملہ کسی منطقی نتیجے کو نہ پہنچ سکا۔ خلع کی خواہش ظاہر کی تو واضح انکار کردیا گیا۔ والدین اور شوہر اپنی ضد پراڑے رہے اور یوں گھر جہنم زار کا منظر پیش کرتا رہا۔ بالآخر روز روز کی بحث، لڑائی جھگڑے اور گالم گلوچ سے تنگ آکر انہتائی قدم اٹھایا اور شوہر کو زندگی سے آزاد کردیا۔ اسی پراکتفا نہ کیا بلکہ لاش کو بھی جلادیا تاکہ قابل شناخت نہ رہے۔
اسی طرز کا کیس چند ماہ قبل سیالکوٹ میں وقوع پذیر ہوا، جہاں بیس سالہ رفاقت کا گلا گھونٹا گیا۔ بیوی نے ایک رات نشہ آور گولیاں پلا دیں۔ مدہوش ہونے پر گلہ گھونٹا اور عاشق سے مل کر لاش کو دور کھیتوں میں پھینک دیا۔ پولیس کی تفتیش میں انتہائی مضحکہ خیز صورتحال سامنے آئی۔ جس کے ساتھ چکر چل رہا تھا وہ شخص شوہر کا دوست اور چھ بیٹیوں کا باپ تھا۔ قاتل بیوی کا شوہر ایک عرصہ سے بیمار اور کام سے لاچار تھا۔ گھریلو اخراجات پر کچھ توتکار ہوئی تو گھاگ شخص نے اپنی باتوں میں لبھایا اور شادی کا جھانسا دیا۔ کج فہم عورت اس حد تک گرگئی کہ طلاق یا خلع کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے شوہر کو ہی ابدی نیند سلادیا۔
نامعلوم ایسے کتنے ہی دل دہلانے والے واقعات ہمارے معاشرے میں ہورہے ہیں، جہاں گھریلو ناچاقی کا انجام قتل کی صورت نکلا۔ سوال یہ ہے کہ کیا طلاق یا خلع ایک انسانی قتل سے زیادہ خطرناک ہے؟ یہ تو وہ راستے ہیں جن کی ریاستی قانون اور شریعت باقاعدہ اجازت دیتی ہے۔ ایک منطقی بات ہے کہ اگر قانونی عمل میں بندھے دو افراد مطمئن نہ ہوں تواپنا راستہ الگ کرلیں۔ لیکن اس طرح سے انسانی قتل کی اجازت تو قطعاً اسلام میں نہیں دی گئی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک جائزعمل اگرچہ ناپسندید (طلاق یا خلع) تو مشکل ترین بنا دیا گیا، جبکہ ایک ناجائز عمل (قتل) سہل دکھائی دینے لگا؟
ایک معروف این جی او کے مرتب کردہ اعداد وشمار کے مطابق 2018 میں کراچی میں 15,000 جبکہ لاہور میں 6,000 خلع کے کیسز درج ہوئے۔ خلع کی نوبت کب اور کیوں پیش آتی ہے؟ وجوہات میں دیکھا گیا ہے کہ جب شوہر طلاق دینے پر باہمی رضامند نہ ہو۔ شاید اس کی ایک وجہ رشتہ بچانے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھی جانی چاہیے۔ ایک صورت حق مہر کی استطاعت سے بڑھ کر طے شدہ رقم کا ہونا ہے، جس کی ادائیگی طلاق کی صورت میں شرعی طور پر ادا کرنا مرد کی ذمے داری ہوتی ہے۔
چونکہ شرعی اصول کے مطابق اسلام مرد کو طلاق کا حق دیتا ہے، جس کا منفی سوچ کے تحت استعمال بھی دیکھا گیا ہے۔ مثلاً خانگی مسائل سے تنگ ایک عورت علیحدگی چاہتی ہے تو شوہر طلاق دینے کے بجائے منفی ہتھکنڈے استعمال کرے گا، خلع لینے کے لیے کورٹ کچہری جانے پر مجبور کرے گا اور ایسی قانونی موشگافیوں میں ڈالے گا جس سے پیسوں اور وقت کا زیاں ہو۔
کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ معاملات میں سلجھاؤ نہ آنے پر طلاق کا راستہ اختیار کیا جائے اور زندگی میں آگے بڑھا جائے؟ اسلام نے مرد کو طلاق کا حق بوجوہ دیا کہ اس میں برداشت کا مادہ زیادہ ہے۔ جذباتیت پر قابو پانے کی صلاحیت قدرتی طور پر ودیعت کردہ ہے- لہٰذا یہ بھی فرض کیا گیا ہے کہ وہ طلاق جیسا سنجیدہ فیصلہ انہتائی فہم اور غوروفکر کے ساتھ کرے گا اور اس بات کو مدںظر رکھے گا کہ اگر معاملات کی ناؤ درست راہ پر نہیں، تو مردانگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طلاق کا باعزت راستہ اختیار کرے گا۔
لیکن افسوس ہم نے اپنے معاشرے میں آسانیاں بانٹنا سیکھا ہی نہیں ہے۔ شہر میں رہنے والی نسبتاً پڑھی لکھی عورت خلع کا راستہ تو اختیار کرسکتی ہے۔ دیہات کی پسماندہ عورت جو اپنے قانونی حقوق سے نابلد ہوتی ہے، اس کے درد کا اندازہ لگائیں کہ وہ تو اس کا سوچ بھی نہیں سکتی- عدم برداشت، ہٹ دھرمی اور ضدی رویوں نے ہمارے معاشرے کو اخلاقی پستی میں دھکیل دیا ہے۔ راقم طلاق کے بے جا استعمال کے حق کے میں بالکل بھی نہیں، لیکن شادی ایسا مقدس رشتہ ہے جس میں شب و روز ایک دوسرے کے ساتھ نباہنے کا عہد وپیماں ہوتا ہے- اگر کسی وجہ سے ناچاقی در آئے تو ان گزرے ہوئے لمحات کا لحاظ کرتے ہوئے باہمی رضامندی سے جدا ہونا چاہیے اور کسی کدورت کو پالنا نہیں چاہیے۔ ورنہ دوسری صورت میں طلاق یا خلع میں آسانی نہ ہونے کی وجہ سے قتل جیسے گھناؤنے اور قبیح واقعات ہمارے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر رہے ہیں۔
اختلافات اگر شدت اختیار کرجائیں اور ازدواجی رشتہ برائے نام رہ جائے تو صرف دنیاوی دکھلاوے کے لیے رشتے کو برقرار رکھنا کہاں کی سمجھداری ہے۔ کیوں گھٹن بھری زندگی پر اصرار کیا جائے؟ جبکہ یہ تسلیم شدہ ہے کہ شادی دو لوگوں کی باہمی رضامندی کا نام ہے، جس میں ایک فریق کی خوشی خاص معنی نہیں رکھتی۔ ایک غیرمطمئن ازدواجی تعلق ڈپریشن، مایوسی اور ناامیدی کا باعث بنتا ہے۔ اور یہ یقیناً ایک گھاٹے کا سودا ہے۔
اس ضمن میں میڈیا کا کردار آج کے معاشرے میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جدید میڈیا عوام کی رائے تشکیل دینے اور سماجی حرکیات پر اثرانداز ہوتا ہے۔ میڈیا عوامی مفادات کی حفاظت اور سماجی شعور بیدار کرنے میں انتہائی کارگر رہا ہے۔ آئیے! ہم دیکھتے ہیں کہ طلاق کا معاملہ لے کر میڈیا کا کیا کردار ہے؟
(جاری ہے)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔