سادھو بیلہ خوب صورتی اور عقیدت کا سنگم

دریائے سندھ کے جزیرے پر قائم ہندوؤں کا مقدس مقام

دریائے سندھ پر سادھو بیلہ واحد قدرتی جزیرہ ہے، جس پر ملک کا سب سے بڑا مندر (تیرتھ استھان) موجود ہے۔فوٹو : فائل

KARACHI:
سادھو بیلہ کا لفظ سنتے ہی لوگوں کے ذہن میں درویش اور گھنے جنگل کا تصور ابھرنے لگتا ہے۔

اٹک سے لے کر کراچی کے ساحل تک دریائے سندھ پر یہ واحد قدرتی جزیرہ ہے، جس پر ملک کا سب سے بڑا مندر (تیرتھ استھان) موجود ہے۔ 1823 میں ہجرت کرکے آنے والے بابا بنکھنڈی مہاراج نے دریائے سندھ کے جزیرے پر پوجا پاٹ کا سلسلہ شروع کیا۔



 

یوں تو ہر روز ہی دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے مرد، خواتین ہندو عقیدت مند، دریائے سندھ کے جزیرے پر قائم تیرتھ استھان سادھو بیلہ میں مذہبی رسومات (پوجا پاٹ) کرنے کے لیے آتے ہیں۔ خصوصاً ہر سال اسھاڑ کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو ہونے و الے سالانہ میلے کے موقع پر انڈیا، برطانیہ، کینڈا، امریکا سمیت دنیا بھر میں قیام پذیر سندھی ہندو یہاں پر رسومات کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں۔



پاکستان میں ہندوؤں کے چھوٹے بڑے ہزاروں مندر اور مذہبی مراکز موجود ہیں، مگر دریائے سندھ کے جزیرے پر قائم سادھو بیلہ اور بلوچستان کے ہنگلاج ماتا مندر کو تیرتھ استھان کا اعزاز حاصل ہے۔ عقیدت مندوں کا کہنا ہے کہ اگر ہم چھوٹے ایک ہزار مندروں میں عبادت کرتے ہیں اس کا ثواب ایک طرف اور تیرتھ استھان سادھو بیلہ میں عبادت کرنے کا ثواب ایک طرف ہوتا ہے۔



ہندو برادری کے افراد مرنے والوں کی ارتھی کی راکھ یہاں ڈالتے ہیں، تاکہ مردے کو زیادہ ثواب حاصل ہو۔ عقیدت مندوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چار سو سال قبل جب تعلیم اتنی عام نہیں تھی تو سادھوؤں کی پہچان کے لیے ان کے ہاتھ یا جسم پر مہر لگائی جاتی تھی جس سے ان کے متعلقہ مذہبی گروہ کا کا معلوم ہوتا تھا اور وہ جب اس دنیا سے رخصت ہوتے تھے تو اس ہی گروہ کی رسومات کے مطابق ان کی آخری رسومات ادا کی جاتی تھیں۔



 

قیام پاکستان کے فوری بعد پولیس کی جانب سے سادھو بیلہ کے گدی نشین بابا گنیش داس کو حراست میں لے لیا گیا۔ وہ ایک ماہ تک قید میں رہے اور رہائی کے فوری بعد وہ بھارت منتقل ہوگئے۔

سادھو بیلہ میں 12دیگر چھوٹے بڑے مندر اور سماھادیاں ہیں۔

کم و بیش 9ایکڑ رقبے پر محیط تیرتھ استھان کے علاوہ سادھو بیلہ میں 1۔ بابا بنکھنڈی مہاراج مندر،2۔ ماتا انپوری مندر، 3۔ ہنومان مندر، 4۔ سری چن مندر، 5۔ گنیش مندر، 6۔ شیو مندراول ، 7۔ شیو مندر دوئم، 8۔ راما پیر مندر، 9۔ باراں سمادھیاں ہیں، جب کہ سنت سوامی نارائن مندر کی اصل جگہ معلوم نہیں ہوسکی ہے۔



اس کے علاوہ 2سماھادیاں سنتوں (پجاری) کی بھی ہیں۔ سادھوبیلہ میں اس وقت 48 کمرے ہیں جو باہر سے آنے والے یاتریوں کی رہائش کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ ہندو پنچایت کی جانب سے زائرین کو تمام سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔ سادھو بیلہ میں ایک لائبریری بھی قائم ہے جس میں سیکٹروں کتابیں موجود ہیں۔ ان کتابوں کا مطالعہ کرنے کے علاوہ یاتری آگ کی پوجا، گنیش دیوتا کی پوجا کرتے ہیں۔



ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ صدر آصف علی زرداری نے ہندوؤں کی اس عبادت گاہ کی بہتری کے لیے48 کروڑ روپے کا پیکیج دیا، جس سے یاتریوں کو بہتر سہولیات مہیاکرنے کے لیے مزید 74کمرے، پانچ جدید ہال، سندھ کے صوفیوں، درویوشوں سے متعلق گیلری قائم کی گئی اور تزئین وآرائش کا کام کیا گیا۔ اس کے علاوہ اس رقم سے سادھو بیلہ کو سیلابی پانی سے محفوظ رکھنے کے لیے دیوار بھی تعمیر کی گئی۔



سادھو بیلہ میگا پروجیکٹ:

نگراں صوبائی حکومت کے دور میں ترقیاتی کام کو بہتر انداز سے مکمل کرنے کے لیے 8 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں سکھر کی ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے 6اراکین و دیگر افراد شامل کیے گئے۔ تعمیراتی کام کی ابتدا ہی میں منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے شکوک و شبہات جنم لینے لگے۔ منارٹیز افیئر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے سادھو بیلہ میگا پروجیکٹ پر یکم جنوری 2013ء کو48کروڑروپے کی خطیر رقم سے شروع کردہ کام 3سال میں مکمل ہونا ہے۔ شہر سمیت ملک بھر سے آنے والی ہندو عقیدت مندوں کو بہتر سہولیات مہیا کرنے کے لیے کام جاری ہے اور اب تک 20 فی صد کام کو مکمل کر لیا گیا ہے۔

گدی نشین: 9 جون 2013ء کو سوامی اچاریا، وشو درشن جی مہاراج سادھو بیلہ کے نئے گدی نشین بنے۔

متروکہ وقف املاک بورڈ پاکستان کا کردار:
دریائے سندھ کے جزیرے پر قائم ہندوؤں کی سب سے بڑی عبادت گاہ سادھو بیلہ کی نگرانی اور دیکھ بھال کے لیے متروکہ وقف املاک کی جانب سے خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ ایک نگراں امتیاز علی میرانی، 2 پجاری راجیش، اشوک کمار، 2ملازمین غلام قادر اور منظور احمد کنارے سے سادھو بیلہ تک آنے والے عقیدت مندوں کو کشتی کے ذریعے پہنچاتے ہیں۔

سادھو بیلہ کے وسیع لان اور درختوں کی دیکھ بھال کے لیے محمد ابراہیم، لال ڈنو اور محمد علی مالی کے فرائض انجام دیتے ہیں، جب کہ 10سیکیوریٹی اہل کار، صفائی ستھرائی کے لیے سینیٹری ورکرز اور چوکیدار بھی موجود ہیں۔ حکومت کی جانب سے دیکھ بھال، سالانہ لگنے والے میلے اور رنگ و روغن کے لیے ساڑھے پانچ لاکھ روپے سالانہ 10لاکھ روپے ہندو پنچایت کمیٹی کے حوالے کیے جاتے ہیں۔



ہندو پنچایت کے مکھی ایشور لعل ماکیھ جا کا کہنا ہے کہ جس طرح ہندوؤں میں ہمالیہ سے نکلنے والی گنگا اپنے تقدس کی وجہ سے اہم مانی جاتی ہے اور اس کے کنارے بسے ہوئے کاشی، پریاگ، ہری دوار وغیرہ مقدس مقامات مانے جاتے ہیں اور وہاں پر نہانا اور دان کرنا فائدے مند سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح ہندوؤں کے اس تیرتھ استھان پر خاص مواقع پر نہانا یا اشنان کرنا ثواب کام کام سمجھا جاتا ہے۔ شری سادھو بیلہ جیسے مقدس استھان پر پوجا پاٹھ کرنا دوسرے مقامات سے زیادہ فائدہ مند ہے، کیوں کہ یہاں پر عظیم درویشوں نے پوجا، چلہ کشی اور تپسیا (بندگی) کی ہے، اس لیے یہ مقام زیادہ مقدس بن گیا ہے اور یہاں پر اپنے آپ کو سدھارنا اور دھیان لگاکر عبادت کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

سادھو بیلہ بننے سے پہلے یہاں پر دو پہاڑیاں ہوتی تھیں اور گھنا جنگل ہوتا تھا، جس کا ذکر ہندو مذہب کی سب سے پہلی مقدس کتاب ''رگ وید'' میں بھی ہے۔ یہ مقام دریا کے وسط میں واقع ہے اور اسے ''میناک پربت'' کے نام سے جانا جاتا ہے، جہاں پر بڑے بڑے رشی منی (مہارشی) عبادت کرتے تھے۔ ہندو مذہب کی کتابوں کے مطابق بڑے بڑے رشی منیوں سے میناک پربت کی تعریف سن کر سادھو بنکھنڈی بابا نیپال سے یہاں آئے اور ٹھیک اسی جگہ میناک پربت پر سادھو بیلہ کی بنیاد رکھی۔ واضح رہے کہ ہندو درھم میں دریائے سندھ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ رگ وید میں ''سندھو دریا'' کا ذکر سو سے بھی زیادہ مرتبہ کیا گیا ہے، جب کہ گنگا ندی کا ذکر صرف دو جگہ پر کیا گیا ہے۔

سادھو بیلہ میں ہندو عقیدے کے مطابق نجات حاصل کرنے کے لیے چکر تیرتھ اور برہم تیرتھ ہیں۔ دریائے سندھ پہلے نارائن سر کے مقام پر سمندر میں شامل ہوجاتا تھا، لیکن ایک زلزلے کی وجہ سے یہ علاقہ سمندر میں غرق ہوگیا اور اب دریائے سندھ کیٹی بندر کے قریب سمندر میں جاگرتا ہے۔ دریائے سندھ کی لمبائی 1700 میل ہے۔ ہندو عقیدت مندوں کا کہنا ہے کہ ان کے دھرم کے مطابق نجات حاصل کرنے کے لیے مختلف مقامات ہیں جو سادھوؤں، رشیوں اور دیوتاؤں نے اپنے رہنے کے لیے اپنالیے ہیں، جس کی وجہ سے یہ مقامات لوگوں کی خوش حالی کے لیے تیرتھ استھان کا درجہ رکھتے ہیں۔

ایسے مقدس مقامات پر دان، کریا کرم، چلہ کشی اور پوجا پاٹ کرنا چاہیے، دوسری طرف لوگ بیمار ہوتے ہیں، غریب، اپاہج ہوتے ہیں، یہ لوگ موت سے پہلے اپنے کیے ہوئے گناہوں کی معافی کے لیے اس مقام پر آتے ہیں۔ ہندو مذہب کے مطابق ان تیرتھ استھان پر کوئی اگر تھوڑی سی نیکی کرے تو بہت ثواب ملتا ہے اور اگر تھوڑا سا ہی پاپ کرے تو بہت دکھ سہنے پڑتے ہیں۔

سادھوبیلہ انتظامی کمیٹی کے چیئر مین موکیش کمار کارڑا کہتے ہیں کہ سادھو بیلہ کے بانی بابا بنکھنڈی مہاراج اداسین کا جنم دھرم کھیتر کر کھیتر کے مقام پر پنڈت رام چندر شرما گوڑ برہمن کے گھر میں ہوا۔ ان کا نام بھالچند شرما تھا۔ 9 برس کی عمر میں اپنی ذہانت کی وجہ سے انہوں نے بہت سا علم حاصل کیا اور تب ان کے والد نے بڑی محبت و عزت سے اس بچے کو شری میلا رام اداسین کے حوالے کیا، جنہوں نے 1830 میں اپنا شاگرد (چیلا) بناکر اداسین فرقے میں شامل کرلیا اور بنکھنڈی نام رکھ دیا۔ انہوں نے 16 برس کی عمر میں مذہبی تعلیم میں مہارت حاصل کرلی اور لاتعداد یاترائیں کرتے ہوئے سندھ آئے اور بہ حساب 1880 بیساکھ کے بڑے دن پر اس استھان پر پدھارے جس کا نام انہوں نے شری سادھو بیلہ رکھا۔

اس مقام پر انہوں نے جگت گرو سریچند مہاراج کی تپسیا کی اور جگت گرو نے انہیں درشن دیتے ہوئے یہ دعا دی کہ یہ استھان دنیا بھر میں ایک مقدس مقام مانا جائے گا۔ بابا سریچند بابا گرو نانک کے بڑے فرزند تھے اور انہیں شو شنکر کا اوتار مانا جاتا ہے۔ انہوں نے ہی پرانے پنتھ ''اداسین'' میں ایک نئی روح پھونکی اور ان کی کاوش سے یہ پنتھ سندھ میں پھیلا اور آج جتنے بھی اداسین مندر ہیں اس کا سہرا جگت گرو بابا سریچند کے سر جاتا ہے۔ جگت گرو نے بابا بنکھنڈی کو ہدایت کی کہ وہ انپورنا دیوی کی پوجا کریں۔



دریائے سندھ جب سکھر کے قریب سادھو بیلہ کے چاروں طرف چکر لگاکر جہاں پر چکر ختم کرتا ہے اس مقام پر ایک گھاٹ بنایا گیا، جس کا نام رکھا گیا دکھ پنجنی گھاٹ۔ یہاں پانی اندر تک آتا ہے۔ ہندو عقیدت مندوں کا کہا جاتا ہے کہ اس گھاٹ پر نہانے سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے یہ تیرتھ استھان بنایا گیا ہے۔

جس جگہ سنگ مرمر کا سنگھاسن ہے وہاں تین بڑے بڑے سایہ دار درخت لگے ہوئے ہیں، جو بنکھنڈی مہاراج نے اپنے ہاتھوں سے لگائے تھے۔ یہ درخت ترشول کی شکل میں لگائے گئے ہیں۔ ایک گدی کے مشرق کی طرف، دوسرا مغرب کی طرف اور تیسرا گدی کے عین سامنے۔ آج 180 سال گزرنے کے باوجود یہ درخت قائم ہیں، ان درختوں کے نام ہیں، برہما، وشنو اور مہیش۔

بابا بنکھنڈی 60 سال کی عمر میں یہاں آئے، 40 سال سادھو بیلہ میں رہے، اس میں سے 20 سال تالپوروں کی حکومت تھی اور بعد میں 20 سال انگریز سرکار رہی، لیکن اس عرصے کے دوران بابا بنکھنڈی نے نہ پکا بندر بنوایا اور نہ ہی کوئی پکا مندر یا کوئی پکی عمارت تعمیر کرائی۔ دنیا سے جانے سے پہلے اپنے قریبی چیلے ہرنارائن داس اور بھائی ہرپرشاد کو حکم دیا کہ پکا بندر اور اندر پکا مندر اور سادھوؤں کے رہنے کے لیے پکی کٹیائیں بنائی جائیں۔ بابا بنکھنڈی نے پہلے سنگھاسن گدی بنائی اس کے بعد دھونی جو کہ عین گدی کے سامنے ہے۔

 



اس کے بعد انپورنا دیوی کا استھان، پھر پنگت والا شیو لنگ (مہادیو) اور بعد میں گنیش، ہنومان، گرو سریچند، ست نارائن اور کیلاش مہادیو وغیرہ کی مورتیاں رکھی گئیں۔ بابا بنکھنڈی کا جسم دریائے سندھ کے پانی کے حوالے کردیا گیا۔ سادھو بیلہ کے نام سے دنیا بھر میں سکھر کے اس مقدس استھان کی شاخیں بنائی گئی ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے اقلیتی رکن سندھ اسمبلی دیوان چند چاؤلہ کا کہنا ہے کہ سادھو بیلہ کی اربوں روپے کی پراپرٹی شہر سمیت ملک و بیرون ملک موجود ہے۔ سادھو بیلہ اور بابا بنکھنڈی مہاراج کے چاہنے والوں نے افغانستان کے دارالحکومت کابل، کوئٹہ اور بھارت کے مختلف علاقوں میں میڈیکل کالج، یونیورسٹی، انجینئرنگ یونی ورسٹی، اسپتال، دھرم شالا، درس گاہیں، سادھو بیلہ کے نام مختص کر رکھی ہیں جب کہ سکھر شہر میں بندر روڈ پر مختلف علاقوں گؤشالہ سے لے کر گلیمر سینٹر تک قیمتی اراضی موجود ہے۔

سادھو بیلہ کی بیشتر اراضی پر بااثر لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سادھو بیلہ میں حکومت کی جانب سے خطیر رقم سے شروع کردہ تعمیراتی کام کو جلد از جلد مکمل کرنے کے لیے انہوں نے سندھ اسمبلی میں آواز اٹھائی ہے اور تجویز پیش کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں سے ایک ایک رکن لے کر کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ ترقیاتی کاموں میں ہونے والی مبینہ کرپشن اور اس میں ملوث افراد عوام کے سامنے آسکیں۔
Load Next Story