وفاقی کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے فیصلے
دہشت گردی کے عفریت نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے.
SUKKUR:
وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے ملک میں امن و امان کی بحالی اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے دہشت گردی کے خاتمے کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ دہشت گردی کے عفریت نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ملک میں کوئی دہشت گردی کی واردات نہ ہوتی ہو۔ اس نے ملک کی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے جب تک دہشت گردی کے جن کو قابو نہیں کیا جائے گا' کوئی بھی ترقیاتی منصوبہ ملک میں معاشی انقلاب نہیں لا سکتا۔ ملک میں دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں جمعرات کواسلام آباد میں وفاقی کابینہ کی دفاعی کمیٹی کااہم اجلاس ہوا جس میں سول و عسکری قیادت نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے دہشت گردی کے خلاف اپنی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ شدت پسند ہتھیار ڈالیں تو ان سے بات چیت ہو گی ورنہ ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ پاکستان میں انتہا پسند اور دہشت گرد گروپ طویل عرصے سے حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے باعث وطن عزیز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اورعالمی سطح پر پاکستان کا امیج بری طرح متاثر ہوا ہے۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہیں تاہم ملک میں کچھ حلقے جن میں سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں حکومت پر زور دیتے چلے آ رہے ہیں کہ وہ عسکریت پسندوں سے جنگ کے بجائے مذاکرات کا راستہ اپنائے۔ماضی میں کچھ گروپوں سے مذاکرات ہوئے بھی ہیں لیکن ان میں کامیابی نہیں ہو سکی۔مسلم لیگ ن بھی مذاکرات کے آپشن کو تسلیم کرتی ہے۔
ملک میں بعض مذہبی سیاسی جماعتیں جس انداز سے عسکریت پسندوں سے مذاکرات کی بات کرتی ہیں 'ان سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ حکومت عسکریت پسندوں کو ایک متبادل قوت تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔ ان سیاسی عناصر کو یہ بات مدنظر رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی حکومت ہتھیار بند گروپوں سے تب ہی مذاکرات کرتی ہے جب وہ ہتھیار ڈال کر حکومتی رٹ کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ پاکستان میں انتہا پسند گروپ موجودہ جمہوری نظام کو تسلیم نہ کرتے ہوئے جنگ کا اعلان کرچکے ہیں' وہ جمہوری نظام پر یقین ہی نہیں رکھتے بلکہ جمہوریت پسند سیاستدانوں کے خلاف کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ چند سیاستدان ان کی کارروائیوں کے نتیجے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایسی صورت میں وہ عناصر جو حکومتی رٹ ماننے کو تیار ہی نہیں ان سے برابری کی سطح پر بات چیت کیسے ہو سکتی ہے۔
لہٰذا وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے صائب فیصلہ کیا کہ شدت پسند پہلے ہتھیار ڈالیں پھر ان سے مذاکرات ہوں گے۔وزیراعظم نے گزشتہ دنوں قوم سے خطاب کے دوران انتہا پسند گروپوں کو مذاکرات کی پیشکش کی تھی' اس حوالے سے مختلف حلقے تحفظات کا اظہار بھی کر رہے تھے۔اب وفاقی کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم نے عسکریت پسندوں پر واضح کر دیا ہے کہ اگر انھوں نے مذاکرات سے قبل ہتھیار نہ ڈالے اور اپنی کارروائیاں جاری رکھیں تو پھر ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ عسکریت پسندوں کے ہمدرد سیاسی عناصر کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دہشت گردی اس ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے زہر قاتل ہے،اس کے خاتمے کے لیے تمام سیاسی و مذہبی عناصر کو بلا امتیاز حکومت کا ساتھ دینا ہو گا۔ کوئی بھی تحریک عوامی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی، حکومت کو دہشت گردی کے خلاف اپنی مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے گراس روٹ لیول پر عوام کو متحرک کرنا ہو گا۔
ذرایع کے مطابق اجلاس میں عسکری قیادت نے حکومت سے کہا کہ وہ انسداد دہشت گردی کی مجوزہ پالیسی میں دہشت گردی کی مکمل تعریف کرے، انسداد دہشت گردی پالیسی کے بارے میں طویل المدتی اقدامات کے ساتھ قلیل المدتی اقدامات بھی تجویز کیے جائیں۔ عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سخت سے سخت قوانین بنانے کی سفارش کی ہے۔ ذرایع کے مطابق عسکری قیادت نے یہ بھی کہا کہ فیصلہ کیا جائے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے بین الاقوامی خفیہ ایجنسیوں سے تعلقات کس حد تک منظرعام پر لانے ہیں۔ عسکری قیادت نے حکومت پر واضح کر دیا ہے کہ انتہا پسند غیر ملکی ایجنسیوں کے تعاون سے اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حکومت کو عوامی حمایت سے انتہا پسندوں کے خلاف بھرپور قوت استعمال کرنا ہو گی۔ وہ عناصر جو ملک کی سلامتی کے لیے چیلنج بن چکے ہیں کسی بھی طور ہمدردی کے قابل نہیں۔
اجلاس میں کابینہ کی دفاعی کمیٹی کی کابینہ کمیٹی برائے قومی سلامتی کے نام سے تشکیل نو کی بھی منظوری دی گئی۔ بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن پر فائر بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں پر فیصلہ کیا گیا کہ اس سب کے باوجود پاکستان صبر و تحمل اور ذمے داری کی پالیسی جاری رکھے گا اور بھارتی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے تمام فوجی اور سفارتی ذرایع استعال کیے جائیں گے۔ پاکستان بھارتی جارحانہ پالیسی کے برعکس خطے میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے صبروتحمل اور ذمے داری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ بھارتی حکومت کو بھی پاکستانی حکومت کے اس دوستانہ پیغام کا جواب گولی سے دینے کے بجائے دوستانہ انداز ہی میں دینا چاہیے اور کسی ایسی غیر ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے جس سے اس خطے کی سلامتی دائو پر لگ جائے۔ پاکستان افغانستان سے بھی خوشگوار تعلقات قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے مگر موجودہ افغان حکومت مسلسل معاندانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے۔
عسکری قیادت نے پاکستان کے لیے افغانستان کا بہترین حل افغان اتحادی حکومت کا قیام قرار دیا ہے۔ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی مشکلات سے نمٹنے کے لیے حکومت تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کیونکہ عوامی حمایت کسی بھی تحریک کی کامیابی کا پہلا زینہ ہے۔وفاقی کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس عسکریت پسندی کے خلاف حکمت عملی کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔موجودہ حکومت جس طریقے سے کام کر رہی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عسکریت پسندی کے خلاف ایسی حکمت عملی ترتیب دینے کی کوشش کر رہی ہے جس پر ملک کی تمام سیاسی جماعتیں 'ادارے اور قوم متفق ہو۔ اگر حکومت ایسی پالیسی اختیار کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے میں کسی قسم کی کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث گروہوں کے لیے بھی یہ موقع ہے کہ وہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کریں اور اپنے موقف میں لچک پیدا کرتے ہوئے قومی دھارے میں شامل ہونے کی کوشش کریں۔اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وطن عزیز مزید خون خرابے سے محفوظ رہے گا۔
وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے ملک میں امن و امان کی بحالی اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے دہشت گردی کے خاتمے کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ دہشت گردی کے عفریت نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ملک میں کوئی دہشت گردی کی واردات نہ ہوتی ہو۔ اس نے ملک کی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے جب تک دہشت گردی کے جن کو قابو نہیں کیا جائے گا' کوئی بھی ترقیاتی منصوبہ ملک میں معاشی انقلاب نہیں لا سکتا۔ ملک میں دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں جمعرات کواسلام آباد میں وفاقی کابینہ کی دفاعی کمیٹی کااہم اجلاس ہوا جس میں سول و عسکری قیادت نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے دہشت گردی کے خلاف اپنی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ شدت پسند ہتھیار ڈالیں تو ان سے بات چیت ہو گی ورنہ ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ پاکستان میں انتہا پسند اور دہشت گرد گروپ طویل عرصے سے حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے باعث وطن عزیز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اورعالمی سطح پر پاکستان کا امیج بری طرح متاثر ہوا ہے۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہیں تاہم ملک میں کچھ حلقے جن میں سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں حکومت پر زور دیتے چلے آ رہے ہیں کہ وہ عسکریت پسندوں سے جنگ کے بجائے مذاکرات کا راستہ اپنائے۔ماضی میں کچھ گروپوں سے مذاکرات ہوئے بھی ہیں لیکن ان میں کامیابی نہیں ہو سکی۔مسلم لیگ ن بھی مذاکرات کے آپشن کو تسلیم کرتی ہے۔
ملک میں بعض مذہبی سیاسی جماعتیں جس انداز سے عسکریت پسندوں سے مذاکرات کی بات کرتی ہیں 'ان سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ حکومت عسکریت پسندوں کو ایک متبادل قوت تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔ ان سیاسی عناصر کو یہ بات مدنظر رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی حکومت ہتھیار بند گروپوں سے تب ہی مذاکرات کرتی ہے جب وہ ہتھیار ڈال کر حکومتی رٹ کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ پاکستان میں انتہا پسند گروپ موجودہ جمہوری نظام کو تسلیم نہ کرتے ہوئے جنگ کا اعلان کرچکے ہیں' وہ جمہوری نظام پر یقین ہی نہیں رکھتے بلکہ جمہوریت پسند سیاستدانوں کے خلاف کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ چند سیاستدان ان کی کارروائیوں کے نتیجے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایسی صورت میں وہ عناصر جو حکومتی رٹ ماننے کو تیار ہی نہیں ان سے برابری کی سطح پر بات چیت کیسے ہو سکتی ہے۔
لہٰذا وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے صائب فیصلہ کیا کہ شدت پسند پہلے ہتھیار ڈالیں پھر ان سے مذاکرات ہوں گے۔وزیراعظم نے گزشتہ دنوں قوم سے خطاب کے دوران انتہا پسند گروپوں کو مذاکرات کی پیشکش کی تھی' اس حوالے سے مختلف حلقے تحفظات کا اظہار بھی کر رہے تھے۔اب وفاقی کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم نے عسکریت پسندوں پر واضح کر دیا ہے کہ اگر انھوں نے مذاکرات سے قبل ہتھیار نہ ڈالے اور اپنی کارروائیاں جاری رکھیں تو پھر ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ عسکریت پسندوں کے ہمدرد سیاسی عناصر کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دہشت گردی اس ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے زہر قاتل ہے،اس کے خاتمے کے لیے تمام سیاسی و مذہبی عناصر کو بلا امتیاز حکومت کا ساتھ دینا ہو گا۔ کوئی بھی تحریک عوامی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی، حکومت کو دہشت گردی کے خلاف اپنی مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے گراس روٹ لیول پر عوام کو متحرک کرنا ہو گا۔
ذرایع کے مطابق اجلاس میں عسکری قیادت نے حکومت سے کہا کہ وہ انسداد دہشت گردی کی مجوزہ پالیسی میں دہشت گردی کی مکمل تعریف کرے، انسداد دہشت گردی پالیسی کے بارے میں طویل المدتی اقدامات کے ساتھ قلیل المدتی اقدامات بھی تجویز کیے جائیں۔ عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سخت سے سخت قوانین بنانے کی سفارش کی ہے۔ ذرایع کے مطابق عسکری قیادت نے یہ بھی کہا کہ فیصلہ کیا جائے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے بین الاقوامی خفیہ ایجنسیوں سے تعلقات کس حد تک منظرعام پر لانے ہیں۔ عسکری قیادت نے حکومت پر واضح کر دیا ہے کہ انتہا پسند غیر ملکی ایجنسیوں کے تعاون سے اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حکومت کو عوامی حمایت سے انتہا پسندوں کے خلاف بھرپور قوت استعمال کرنا ہو گی۔ وہ عناصر جو ملک کی سلامتی کے لیے چیلنج بن چکے ہیں کسی بھی طور ہمدردی کے قابل نہیں۔
اجلاس میں کابینہ کی دفاعی کمیٹی کی کابینہ کمیٹی برائے قومی سلامتی کے نام سے تشکیل نو کی بھی منظوری دی گئی۔ بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن پر فائر بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں پر فیصلہ کیا گیا کہ اس سب کے باوجود پاکستان صبر و تحمل اور ذمے داری کی پالیسی جاری رکھے گا اور بھارتی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے تمام فوجی اور سفارتی ذرایع استعال کیے جائیں گے۔ پاکستان بھارتی جارحانہ پالیسی کے برعکس خطے میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے صبروتحمل اور ذمے داری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ بھارتی حکومت کو بھی پاکستانی حکومت کے اس دوستانہ پیغام کا جواب گولی سے دینے کے بجائے دوستانہ انداز ہی میں دینا چاہیے اور کسی ایسی غیر ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے جس سے اس خطے کی سلامتی دائو پر لگ جائے۔ پاکستان افغانستان سے بھی خوشگوار تعلقات قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے مگر موجودہ افغان حکومت مسلسل معاندانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے۔
عسکری قیادت نے پاکستان کے لیے افغانستان کا بہترین حل افغان اتحادی حکومت کا قیام قرار دیا ہے۔ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی مشکلات سے نمٹنے کے لیے حکومت تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کیونکہ عوامی حمایت کسی بھی تحریک کی کامیابی کا پہلا زینہ ہے۔وفاقی کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس عسکریت پسندی کے خلاف حکمت عملی کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔موجودہ حکومت جس طریقے سے کام کر رہی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عسکریت پسندی کے خلاف ایسی حکمت عملی ترتیب دینے کی کوشش کر رہی ہے جس پر ملک کی تمام سیاسی جماعتیں 'ادارے اور قوم متفق ہو۔ اگر حکومت ایسی پالیسی اختیار کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے میں کسی قسم کی کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث گروہوں کے لیے بھی یہ موقع ہے کہ وہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کریں اور اپنے موقف میں لچک پیدا کرتے ہوئے قومی دھارے میں شامل ہونے کی کوشش کریں۔اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وطن عزیز مزید خون خرابے سے محفوظ رہے گا۔