نابغہ روزگار ڈاکٹر جمیل جالبی
عہد ساز جالبی صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن اور ایک ادارہ تھے۔
نابغہ روزگار اردو ادب کے تاجدار، ممتاز نقاد، ماہر لسانیات ، منفرد مترجم، ادبی مورخ اور جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر جمیل جالبی گزشتہ 18 اپریل کو طویل علالت کے بعد 89 برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئے۔
جن کے دم سے تھی بزم کی رونق
ہائے وہ لوگ اٹھتے جاتے ہیں
عہد ساز جالبی صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن اور ایک ادارہ تھے۔ ان کی وفات سے اردو ادب میں جو خلا پیدا ہوگیا ہے، وہ کبھی پُر نہیں ہوگا۔ محنت اور مستقل مزاجی ان کا طرہ امتیاز تھی۔ انگریزی زبان کی اصطلاح میں وہ ایک سیلف میڈ آدمی تھے، ہمہ صفت اور ہمہ جہت۔ وہ 30 جولائی 1929 کو علی گڑھ (بھارت) کے یوسف زئی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد جمیل خان تھا لیکن اردو ادب کے صف اول کے صحافی سید جالب دہلوی سے بے حد متاثر ہونے کی وجہ سے انھوں نے اپنے نام کے ساتھ جالبی کا اضافہ کرلیا۔
انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے پیدائشی شہر علی گڑھ میں حاصل کی اور میٹرک کا امتحان اتر پردیش کے مشہور شہر سہارن پور سے پاس کیا۔ انھوں نے انٹر اورگریجویشن کی تعلیم میرٹھ (یو۔پی) کے ایک معروف کالج سے حاصل کی۔ 1947 میں پاکستان ہجرت کرنے کے بعد ایل۔ایل۔بی، ایم۔اے،پی۔ایچ۔ڈی اور ڈی۔لٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ سی۔ایس۔ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے انکم ٹیکس کے محکمے میں ملازمت اختیار کی۔ تاہم اس سے قبل کراچی میں رہائش اختیار کرنے کے بعد ایک معروف مقامی اسکول میں ہیڈ ماسٹر کی ملازمت سے اپنے کیریئر کی ابتدا کی۔ انھوں نے 1972 میں ڈاکٹر غلام مصطفی خان کی نگرانی میں قدیم اردو ادب پر مقالہ لکھ کر پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔
1983 میں جمیل جالبی کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے اور 1987 میں مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین مقرر ہوئے۔ اس کے علاوہ جالبی صاحب نے 1990 سے 1997 تک اردو لغت بورڈ، کراچی کے سربراہ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ 1990 میں حکومت پاکستان نے انھیں ستارہ امتیاز سے نوازا۔ جمیل جالبی صاحب کی سب سے پہلی تخلیق ''سکندر اور ڈاکو'' تھی جو انھوں نے 12 سال کی عمر میں تحریر کی۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کے لیے اسکول میں اسٹیج بھی کیا گیا۔ ان کی سب سے پہلی کتاب ''جانورستان'' تھی جو انگریزی کے مشہور و معروف ادیب جارج آرویل کے ناول کا ترجمہ تھا۔ ''پاکستانی کلچر، قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ'' ان کی ایک اہم کتاب ہے جس کے اب تک 8 ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں۔
ان کی دیگر تصانیف و تالیفات میں تنقید و تجربہ، نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، محمد تقی میر، معاصر ادب، قومی زبان یکجہتی نفاذ اور مسائل، قلندر بخش جرأت، لکھنوی تہذیب کا نمایندہ شاعر، مثنوی کدم راؤ پدم راؤ، دیوانِ حسن شوقی، دیوانِ نصرتی وغیرہ شامل ہیں۔ قدیم اردو کی لغت، فرہنگِ اصلاحات جامعہ عثمانیہ اور پاکستان کلچر کی تشکیل بھی ان کی قابل ذکر تصانیف ہیں۔اس کے علاوہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے انگریزی کی متعدد کتابوں کے نہایت رواں تراجم بھی کیے جن میں ''ایلیٹ کے مضامین اور ارسطو سے ایلیٹ تک'' شامل ہیں۔
جالبی صاحب نے بچوں کے لیے بھی بہترین ادب تخلیق کیا جس میں ''حیرت ناک کہانیاں'' اور ''خوجی'' قابل ذکر اور نہایت دلچسپ ہیں جنھیں بچے بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔ ''تاریخ ادب اردو'' ڈاکٹر جمیل جالبی کا لافانی کارنامہ ہے۔ چار جلدوں پر مشتمل اس شاہکار کو مجلس ترقی ادب، لاہور نے نہایت اہتمام سے شایع کیا ہے۔ اس کی پہلی جلد 791 صفحات پر مشتمل ہے جس میں اردو ادب کی تاریخ کو اس کے آغاز سے لے کر 1750 تک بیان کیا گیا ہے۔ تاریخ ادب اردو کی دوسری جلد دو حصوں میں منقسم اور 1248 صفحات پر مشتمل ہے جس میں اٹھارہویں صدی کے نصف ثانی کو بیان کیا گیا ہے۔
1095 صفحات پر مشتمل تیسری جلد میں انیسویں صدی کے نصف اول کے عرصے میں اردو کی تاریخ کو بیان کیا گیا ہے۔ چوتھی اور آخری جلد 1626 صفحات پر مشتمل ہے جس میں بیسویں صدی کے نصف ثانی اور بیسویں صدی کے آغاز کے کچھ حصوں کے عرصے کے دوران اردو زبان کے ارتقا کو بیان کیا گیا ہے۔ چار جلدوں میں شایع ہونے والی اردو ادب کی یہ ضخیم تاریخ اردو ادب کا ایک مستند انسائیکلو پیڈیا ہے۔ درحقیقت یہ غیر معمولی کارنامہ جمیل جالبی صاحب کی چالیس سالہ مسلسل محنت اور عرق ریزی کا ثمر ہے جس کے لیے انھیں نامعلوم کتنے دبے ہوئے خزانوں کو تلاش کرنا پڑا ہوگا۔ تحقیق کا کام نہایت صبر آزما اور سخت محنت طلب ہوتا ہے جس کے لیے مستقل مزاجی شرط اول کا درجہ رکھتی ہے۔
جمیل جالبی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اپنے اخذ کردہ نتائج کو انتہائی دلچسپ اور رواں انداز میں بیان کردیا ہے جسے پڑھنے میں بڑا لطف آتا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ اردو ادب کی تاریخ بیان کرنے والا خود بھی اس تاریخ کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ عام شکایت یہ ہے کہ ہم اپنے عظیم لوگوں کی قدر و منزلت ان کی زندگی میں نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہم ایک مردہ پرست قوم کہلاتے ہیں۔ اس اعتبار سے ڈاکٹر جمیل جالبی بڑے خوش قسمت کہلانے کے مستحق ہیں کہ ان کی عظمت کا اعتراف ان کی زندگی میں ہی کرلیا گیا۔
ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا اور بعض ادبی رسائل نے ان کی شخصیت کے بارے میں خصوصی شمارے بھی شایع کیے۔ ان کے بارے میں کتابیں بھی شایع کی گئیں جن میں اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام شایع ہونے والی کتاب بعنوان ''ڈاکٹر جمیل جالبی شخصیت اور فن'' انتہائی قابل ذکر ہے۔ بڑے لوگوں کے بارے میں ایک عام شکایت یہ ہے کہ وہ عام آدمی کو خاطر میں نہیں لاتے، لیکن ڈاکٹر جمیل جالبی کا معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ نرم خوئی اور منکسرالمزاجی ان کا طرہ امتیاز تھا۔ گفتگو کے دوران ان کے لبوں پر پھیلی ہوئی نرم مسکراہٹ ان کے دھیمے لہجے کو چار چاند لگا دیتی تھی۔ ان کے ملاقاتی کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ اتنے بڑے آدمی سے مل رہا ہے۔اس حوالے سے سرور بارہ بنکوی کا شعر یاد آرہا ہے جو جمیل جالبی صاحب پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے:
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
یہ بات میں اپنے ذاتی مشاہدے کی بنا پر کہہ رہا ہوں کہ ان کے ساتھ میرا تعلق تقریباً نصف صدی کے عرصے پر محیط تھا۔ ان سے مل کر ہر مرتبہ ایک نئی تازگی اور حوصلہ مندی کا احساس ہوتا تھا۔ حسن اتفاق سے کراچی کے مقابلے میں اسلام آباد میں ان سے زیادہ ملاقاتیں رہیں۔ یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب وہ مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشین تھے اور یہ خاکسار ریڈیو پاکستان سے وابستہ تھا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی سے قلبی وابستگی کی بنا پر اظہار عقیدت کے طور پر یہ فی البدیہہ اشعار پیش خدمت ہیں:
اک گہر آبدار تھے جمیل جالبی
قدرت کا شاہکار تھے جمیل جالبی
حد درجہ وضع دار تھے جمیل جالبی
سرتاپا انکسار تھے جمیل جالبی
قومی زبان کو جن پہ رہے گا ہمیشہ فخر
اردو کے تاجدار تھے جمیل جالبی
اللہ تعالیٰ جالبی کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔