ملک کو سیاست کی تجربہ گاہ نہ بنائیں

ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے، جو آمریت کو ہی ملک کے سیاسی مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔

jabbar01@gmail.com

آج کل پاکستان میں صدارتی نظام کے نفاذ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان خبروں میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا افسانہ۔ میں ان خبروں کو پڑھ کر سوچتا ہوں کہ پاکستان کے قیام کو ستر سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے ہم کیسی قوم ہیں جو اب تک سیاسی نظام کے حوالے سے اپنی سیاسی سمت کا تعین نہیں کرسکے ہیں۔

ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے، جو آمریت کو ہی ملک کے سیاسی مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو صوبائی خود مختاری کے خاتمے اور ون یونٹ کے قیام کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس بات کا جائزہ لیے بغیرکہ متناسب نمایندگی کا طریقہ انتخاب پاکستان جیسے ملک کے لیے مفید بھی ہے یا نہیں اس کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔ مختصراً بات یہ ہے کہ ہم نے ملک کو سیاست کی تجربہ گاہ بنا دیا ہے جس کی وجہ سے ہم سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں۔

جو لوگ متناسب نمایندگی کے طریقہ کار اپنانے کی بات کرتے ہیں ،ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ فرض کریں ایک حلقے میں ایک لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز ہیں 40 ہزار ووٹ لینے والا کامیاب قرار پاتا ہے، 60 ہزار ووٹ تقسیم ہونے کی وجہ سے غیر موثر ہوجاتے ہیں اس طرح اقلیتی نمایندہ اکثریت کا نمایندہ قرار پاتا ہے۔ منطقی لحاظ سے یہ طریقہ کار غلط ہے۔

متناسب نمایندگی کا طریقہ کار ہر اقلیت کو اس کی تعداد کے تناسب سے نمایندگی دلاتا ہے۔ اس لیے اس طریقہ کار کو اپنا لینا چاہیے۔ یہ مطالبہ کرنے والے یہ بات بھول جاتے ہیں متناسب نمایندگی کا طریقہ کار ان ممالک کے لیے سودمند ہے جہاں آبادی میں تہذیبی، معاشرتی، مذہبی اور لسانی معاملات میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں صورتحال اس کے برعکس ہے قوم نظریاتی اعتبار سے مذہبی، لبرل اور سیکولر بنیادوں پر تقسیم ہے۔ مذہبی بنیادوں میں بھی مسلک اور فرقہ پرستی کی بنیادوں پر تقسیم موجود ہے صوبائی شناخت کے حوالے سے تقسیم ہیں ، یہ تقسیم آگے جاکر مزید لسانی اور گروہی تقسیم در تقسیم میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ غیر مسلم آبادی بھی مختلف مذاہب کی صورت میں موجود ہے ملک میں ذات اور برادری کی تقسیم بھی موجود ہے۔

سوچیے متناسب نمایندگی کی صورت میں جب ہر گروہ انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا ایسی صورت میں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والا جو سیاسی کنبہ وجود میں آئے گا وہ نظام حکومت کس طرح چلائے گا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی کا افلاطون ہونا ضروری نہیں میری ذاتی رائے میں یہ طریقہ کار انتخابات کے درمیان ہی ملک اور قوم کو دھڑے بندی کا شکار کرکے ان کے اتحاد اور یکجہتی کو پارہ پارہ کردے گا ، اس لیے ہمیں اس طریقہ کار سے گریزکرنا چاہیے۔

اب آئیے ان لوگوں کی جانب جو صوبائی خود مختاری کے خاتمے کی بات کرکے مرکزی حکومت کی بات کرتے ہیں۔ مرکزی حکومت پورے ملک پر حکمرانی کرتی ہے، انتظامی سہولت کے لیے ملک کو مختلف صوبوں اور یونٹوں میں تقسیم کیا جاتا ہے یہ صوبے مرکزی حکومت کے نمایندے کی حیثیت سے کام کرتے ہیں اس طرز حکومت میں مرکزیت کی وجہ سے علاقائی اور مقامی نظم و نسق منتخب نمایندوں کے بجائے افسر شاہی کے کنٹرول میں آجاتا ہے۔ مرکزی حکومت ان افسران کے مشورے پر عمل کرتی ہے۔ افسر شاہی مقامی اور علاقائی مسائل کو اپنے دفتری نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ جائز علاقائی اور مقامی مفادات، عوامی احساسات، عوامی امنگوں اور جذبات کو یکسر نظرانداز کردیتے ہیں۔ نتیجے میں عوام کو مرکزی حکومت سے شکایات پیدا ہوتی ہیں جب یہ بڑھ جاتی ہیں تو تصادم کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔ نتیجے میں علیحدگی کی تحریکیں پروان چڑھتی ہیں (بنگلہ دیش کے قیام کی مثال ہمارے سامنے ہے) اس طرح سے ملکی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔


جو لوگ آمریت کو ملک کے مسائل کا حل سمجھتے ہیں ، انھیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ آمریت کی بنیاد طاقت پر ہوتی ہے۔ آمریت میں رائے عامہ ہموار کرنے والے ادارے مثلاً پریس، ریڈیو، ٹیلی وژن اور سیمینارز وغیرہ پر حکومت کا کنٹرول ہوتا ہے، ان اداروں کو حکومتی پالیسی کے حق میں پروپیگنڈہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، نتیجے میں شہری آزادی بالکل ختم ہوجاتی ہے۔ اطاعت گزاری کی وجہ سے معاشرے میں سیاسی جمود پیدا ہوجاتا ہے جس سے معاشرے سیاسی بیگانگی کا کلچر فروغ پاتا ہے۔

جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ آمرانہ حکومتوں کو سیاسی جماعتوں سے خوف ہوتا ہے کیونکہ وہ آمرانہ حکومتوں کو چیلنج کرتی ہیں اس لیے آمرانہ حکومتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی سیاسی جماعت منظم نہ ہونے پائے جو ان کو چیلنج کرے۔ لہٰذا وہ سیاسی جماعتوں کو غیر موثر کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں میں شامل موقع پرستوں کو آمرانہ حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں جس کے نتیجے میں سیاسی جماعتیں کمزور ہوجاتی ہیں سیاسی جماعتوں کے کمزور ہونے کی صورت میں اس خل کو غیر سیاسی عناصر، فرقہ پرست تنظیمیں، لسانی تنظیمیں اور مختلف مافیا پورا کرتے ہیں جو ملک کی سالمیت کے لیے خطرناک ہوتے ہیں۔

نتیجے میں سیاسی بحران پیدا ہوتے ہیں ۔سیاستدانوں کو جب مسائل کا سامنا ہوتا ہے تو وہ مذاکرات ، مفاہمت اور سمجھوتے کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ آمریت کی بنیاد طاقت پر ہوتی ہے اور وہ سیاسی بصیرت سے بھی محروم ہوتے ہیں ان کی تربیت سیاسی انداز یعنی مذاکرات پر نہیں ہوتی لہٰذا وہ طاقت کا استعمال کرتے ہیں نتیجے میں مسائل مزید شدت اختیار کرلیتے ہیں جس سے ملکی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

جمہوریت میں قوم اپنے حکمران خود منتخب کرتی ہے اس لیے جمہوری حکومت عوامی خواہشات کے مطابق اپنے فرائض انجام دیتی ہے ۔ جمہوریت کی اساس آزادی اور مساوات پر ہوتی ہے اس لیے جمہوریت میں تمام فیصلے باہمی مشورے سے کیے جاتے ہیں ۔ اس میں مسائل پر بحث و مباحثہ کرکے مسائل کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ پھر اس کے ذریعے عمل کی راہیں متعین کی جاتی ہیں۔ وزیر اعظم اور اس کے وزرا پارلیمنٹ کے باقاعدہ ارکان ہوتے ہیں اور اپنی کارکردگی کے سلسلے میں پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔

سوالات کے ذریعے پارلیمنٹ کے ممبران عوام کی شکایات اور حکومت کی غلطیوں کو حکومت کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ وزرا اپنے جوابات کے ذریعے ان کو مطمئن بھی کرتے ہیں اگر پارلیمنٹ کی اکثریت حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پاس کردے تو حکومت مستعفی ہوجاتی ہے اس طرز سیاست میں حزب اختلاف حکومتی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھتی ہے وہ عوام کو حکومت کی غلطیوں اور ناقص کارکردگی سے بھی آگاہ کرتی ہے۔ حزب اختلاف حکومت پر تنقید کے ذریعے رائے عامہ کو حکومت کے خلاف اور اسے اپنے حق میں ہموار کرکے عوام کی حمایت سے برسر اقتدار آنے کے لیے جدوجہد کرتی ہے اگر اس نظام میں غیر آئینی مداخلت نہ کی جائے تو یہ نظام کامیابی سے جاری رہتا ہے۔

جہاں تک ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کے تعلق کی بات ہے اس نظام کے بارے میں صرف اتنا عرض کرنا کافی ہے کہ اس نظام کو سیاسی اصطلاح میں جمہوریت نما آمریت کا نام دیا جاتا ہے یہ نظام ملک میں نافذ بھی رہا ہے لیکن کوئی مفید نتائج نہیں دے سکا۔ اس لیے بیشتر سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ اس لیے اس نظام کے عملی نفاذ سے گریز کرنا چاہیے۔ میری ذاتی رائے میں دنیا میں جمہوری نظام کے ذریعے ہی سیاسی مسائل حل ہوئے ہیں۔ اس لیے ہمیں جمہوری نظام کو ہی فروغ دینا چاہیے۔ موجودہ جاری نظام میں ہمیں جو خامیاں اور خرابیاں نظر آرہی ہیں وہ جمہوری نظام کے تسلسل کے ساتھ جاری نہ رہنے کی وجہ سے ہیں اگر ملک میں جمہوری نظام تسلسل کے ساتھ جاری رہے تو یہ خامیاں اور خرابیاں خودبخود ختم ہوجائیں گی۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ملک کو سیاست کی تجربہ گاہ نہ بنائیں اسی میں ہماری ترقی اور بقا کا راز پوشیدہ ہے۔
Load Next Story