خواب دیکھنے سے پھول نہیں کھلا کرتے
آرزوئوں سے دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہتیں.
صرف خواب دیکھنے سے پھول کھلا نہیں کرتے، آرزوئوں سے دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہتیں، دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہوں مذاکرات سے ہو یا طاقت سے۔ منتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے تیسرے دور اقتدار کے دو ماہ مکمل ہونے کے بعد اپنی پہلی نشریاتی تقریر میں ان خیالات کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہر روز بچوں کے جنازے نہیں اٹھائے جا سکتے، ہمارے انتظامی اداروں اور ایجنسیوں نے خود کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا اہل ثابت نہیں کیا۔ وزیر اعظم نواز شریف کی پہلی تقریر سے خاصی توقعات وابستہ تھیں، مسلم لیگ ن نے گزشتہ 5 سال حزب اختلاف میں گزارے تھے، مسلم لیگی رہنما پیپلز پارٹی کے دور میں ہونے والی دہشت گردی امن و امان کی صورتحال، توانائی کے بحران کو پیپلز پارٹی کی نااہلی اور کرپشن سے منسلک کرتے تھے۔
میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی بار بار مذہبی انتہا پسندوں سے بات چیت پر زور دیتے تھے۔ طالبان کی جانب سے مسلم لیگ ن کے لیے خوشگوار جذبات کا اظہار کیا جاتا تھا اور ایک وقت وہ آیا تھا جب طالبان کی کالعدم تنظیم نے مذاکرات کے لیے میاں نواز شریف' منور حسن اور فضل الرحمن کو ثالث مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا مگر مسلم لیگ کے اقتدار میں آنے کے بعد دہشت گردی میں شدت آ گئی۔ شمالی علاقہ جات ڈیرہ اسماعیل خان، کوئٹہ اور کراچی میں دہشت گردی کے واقعات نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔ مسلم لیگی حکومت مذاکرات کی پالیسی پر عمل نہیں کر پائی، حکومت نے ایک جامع سیکیورٹی پالیسی تیار کرنے کا عندیہ دیا اور آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا۔ عمران خان کے انکار کی بناء پر فوری طور پر اے پی سی منعقد نہیں ہو سکی۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے مذہبی انتہا پسندوں سے مذاکرات کا معاملہ اے پی سی کے سپرد کرنے کا اعلان کیا، میاں صاحب نے مذاکرات یا طاقت کے آپشن پیش کیے مگر دہشت گردی کی انتہائی گمبھیر صورتحال میں یہ آپشن عوام کے لیے مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں خود اس بات کو تسلیم کیا کہ ہمارے انتظامی ادارے، ایجنسیاں اور عدالتی نظام دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کر سکے، اس صورتحال میں مذہبی انتہا پسندوں سے غیر مشروط مذاکرات کا مطلب ان کی حاکمیت کو تسلیم کرنا ہے۔ اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ طالبان مذاکرات کے لیے تیار ہو جاتے ہیں تو ان کی شرائط پر مذاکرات ہوں گے؟ ساری دنیا اس حقیقت سے واقف ہے کہ طالبان کی شرائط ان کی مخصوص شریعت کا نفاذ ہے، یوں ریاست تقسیم ہو جائے گی، ملک میں جاری فرقہ وارانہ کشیدگی میں مزید شدت آئے گی، پہلے تو صرف اہل تشیع، قادیانی، عیسائی مذاہب کی عبادت گاہوں پر حملے ہوتے تھے، اب آغا خان اور بوہری فرقے کی عبادت گاہیں بھی حملوں کی زد میں آ گئی ہیں۔ اگر ان مذہبی انتہا پسندوں کی شرائط منظور کی گئیں تو پھر پاکستانی معاشرہ تاریخی بے امنی اور انارکی کا شکار ہو گا۔
حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ ان ہی گروہوں سے مذاکرات ہونے چاہئیں جو پاکستان کے آئین اور قوانین کو تسلیم کرنے کی ضمانت دیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے انتہائی شاعرانہ انداز میں یہ پیشکش کی ہے، اس پیشکش سے اقلیتی فرقے اور دوسرے مذاہب کے پیروکار ایک قسم کے خوف کا شکار ہو چکے ہیں۔ عوام یہ امید رکھتے تھے کہ وزیر اعظم نواز شریف اپنی تقریر میں محض انتظامی اداروں، ایجنسیوں اور عدالتی نظام کی کمزوریوں کا ذکر نہیں کریں گے بلکہ ان اداروں کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے ادارہ جاتی اقدامات کا اعلان کریں گے۔
بعض وکلاء کہتے ہیں کہ دہشت گردی جیسے سنگین جرم میں ملو ث ملزمان عدالتوں سے اس بناء پر رہا ہو جاتے ہیں کہ پولیس اہلکار ایف آئی آر تحریر کرتے وقت اس میں بنیادی خامیاں چھوڑ دیتے ہیں، پھر گواہ عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے، پولیس افسران، سرکاری وکیل، گواہ اور جج صاحبان اپنی زندگی کے خوف کا شکار ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم کو اپنی تقریر میں ان پولیس افسران کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے تھا جنھوں نے دہشت گردی کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور شہید ہو گئے، ان جج صاحبان اور سرکاری وکلاء کا بھی ذکر ہونا چاہیے تھا جو اپنی اصول پسندی کی بناء پر دہشت گردی کا شکار ہوئے تا کہ پولیس، فوج، سرکاری وکلاء اور ججوں کے حوصلے بلند ہوتے۔ وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں گواہ کے تحفظ کے لیے جامع قانون سازی کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ مسلم لیگ حکومت وفاق، پنجاب اور بلوچستان میں یہ قانون فوری طور پر منظور کرا سکتی ہے، سندھ اور خیبر پختونخوا اپنا قانون بنانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں توانائی کے بحران کا ذکر کیا کہ حکومت نے گردشی قرضوں کی مد میں 450 ارب روپے کی ادائیگی کی جس سے بجلی کی پیداوار میں 1700 میگا واٹ کا اضافہ ہوا ہے مگر وزیر اعظم نے توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے زرداری حکومت کے پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ یہ منصوبہ ملک میں گیس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے انتہائی اہم تھا، جب صدر زرداری نے اس منصوبے پر دستخط کیے تھے تو مسلم لیگی اراکین اسمبلی نے ہر صورت اس منصوبے کی تکمیل پر زور دیا تھا مگر اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت امریکا اور سعودی عرب کے دبائو میں آ گئی ہے۔ شاید یہ منصوبہ محض کاغذات اور فائلوں کے بوجھ میں دب کر رہ جائے۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
بعض ناقدین کی یہ رائے ہے کہ خارجہ پالیسی میں تبدیلی امریکا سے مزید نزدیک ہونے کی ایک کوشش ہے، اگر خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا مظہر ایران سے تیل اور گیس درآمد کرنے کی پابندی کے دبائو کو قبول کرنا ہے تو پھر عوام کو مایوسی ہی ملے گی۔ وزیر اعظم نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے کوئی حتمی تاریخ دینے سے گریز کیا ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف انتخابات سے قبل ہی فوری طور پر لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا نعرہ لگاتے تھے اب وہ بھی خاموش ہیں۔ اب وفاقی وزراء دو تین سال کی مدت میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی باتیں کر رہے ہیں، عالمی بینک سے قرضے کے لیے معاہدے کے تحت حکومت نے بجلی اور گیس کی مد میں دی جانے والی سبسڈی میں کمی کے باعث بجلی اور گیس کے نرخ بڑھ گئے ہیں اور بعض لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ مسلم لیگی حکومت کو غریبوں اور متوسط طبقے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور یہ عوام کی پہنچ سے دور، بجلی کی فراہمی کو لوڈ شیڈنگ کا حل سمجھ رہی ہے۔
وزیراعظم کا لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا عزم عام آدمی کو مایوسی سے نکالنے میں ناکام رہا ہے۔ وزیراعظم کی تقریر میں قومی صنعتی اداروں کی نج کاری کا ذکر نکلا ہے۔ 1999ء سے قومی بینکوں صنعتی اداروں کی پی ٹی سی ایل، کے ای ایس سی وغیرہ کی نج کاری کے مثبت اثرات برآمد نہیں ہوئے ہیں، ان اداروں میں تیس سال سے ملازمت کرنے والے لاکھوں کارکن بے روزگار ہوئے اور گولڈن شیک ہینڈ کی تمام اسکیمیں ناکام ہوئیں اور عوام کو بہتر سہولتیں نہیں مل سکیں۔ اگر حکومت پھر نج کاری کی پالیسی پر عملدرآمد کرنا چاہتی ہے تو اس کو ان اداروں کے اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا چاہیے اور بھارت میں قومی اداروں کی نج کاری کے بارے میں جو پالیسی تیار ہوئی تھی اس کا ضرور جائزہ لینا چاہیے۔
بھارت کی حکومت نے 80 کروڑ غریبوں کو سستے داموں چاول، گندم اور دیگر اشیاء کی فراہمی کا منصوبہ شروع کیا ہے، اس منصوبے کے تحت یہ اشیاء ایک سے تین روپے کلو میں ملیں گی۔ وزیراعظم کی تقریر میں غریبوں کے لیے کچھ نہیں ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے کراچی میں امن و امان کو بہتر بنانے پر زور دیا مگر کراچی کے بگڑتے حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر فوری طور پر جامع پالیسی بنانی چاہیے۔ کراچی کے شہریوں کے لیے زیر زمین میٹرو بس سروس کے قیام کا اعلان انتہائی خوش آیند ہے مگر اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں۔ کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئے بغیر کسی ترقیاتی منصوبے کے مفید نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ وزیراعظم کی یہ بات درست ہے کہ خواب دیکھنے سے پھول نہیں کھلا کرتے۔
میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی بار بار مذہبی انتہا پسندوں سے بات چیت پر زور دیتے تھے۔ طالبان کی جانب سے مسلم لیگ ن کے لیے خوشگوار جذبات کا اظہار کیا جاتا تھا اور ایک وقت وہ آیا تھا جب طالبان کی کالعدم تنظیم نے مذاکرات کے لیے میاں نواز شریف' منور حسن اور فضل الرحمن کو ثالث مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا مگر مسلم لیگ کے اقتدار میں آنے کے بعد دہشت گردی میں شدت آ گئی۔ شمالی علاقہ جات ڈیرہ اسماعیل خان، کوئٹہ اور کراچی میں دہشت گردی کے واقعات نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔ مسلم لیگی حکومت مذاکرات کی پالیسی پر عمل نہیں کر پائی، حکومت نے ایک جامع سیکیورٹی پالیسی تیار کرنے کا عندیہ دیا اور آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا۔ عمران خان کے انکار کی بناء پر فوری طور پر اے پی سی منعقد نہیں ہو سکی۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے مذہبی انتہا پسندوں سے مذاکرات کا معاملہ اے پی سی کے سپرد کرنے کا اعلان کیا، میاں صاحب نے مذاکرات یا طاقت کے آپشن پیش کیے مگر دہشت گردی کی انتہائی گمبھیر صورتحال میں یہ آپشن عوام کے لیے مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں خود اس بات کو تسلیم کیا کہ ہمارے انتظامی ادارے، ایجنسیاں اور عدالتی نظام دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کر سکے، اس صورتحال میں مذہبی انتہا پسندوں سے غیر مشروط مذاکرات کا مطلب ان کی حاکمیت کو تسلیم کرنا ہے۔ اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ طالبان مذاکرات کے لیے تیار ہو جاتے ہیں تو ان کی شرائط پر مذاکرات ہوں گے؟ ساری دنیا اس حقیقت سے واقف ہے کہ طالبان کی شرائط ان کی مخصوص شریعت کا نفاذ ہے، یوں ریاست تقسیم ہو جائے گی، ملک میں جاری فرقہ وارانہ کشیدگی میں مزید شدت آئے گی، پہلے تو صرف اہل تشیع، قادیانی، عیسائی مذاہب کی عبادت گاہوں پر حملے ہوتے تھے، اب آغا خان اور بوہری فرقے کی عبادت گاہیں بھی حملوں کی زد میں آ گئی ہیں۔ اگر ان مذہبی انتہا پسندوں کی شرائط منظور کی گئیں تو پھر پاکستانی معاشرہ تاریخی بے امنی اور انارکی کا شکار ہو گا۔
حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ ان ہی گروہوں سے مذاکرات ہونے چاہئیں جو پاکستان کے آئین اور قوانین کو تسلیم کرنے کی ضمانت دیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے انتہائی شاعرانہ انداز میں یہ پیشکش کی ہے، اس پیشکش سے اقلیتی فرقے اور دوسرے مذاہب کے پیروکار ایک قسم کے خوف کا شکار ہو چکے ہیں۔ عوام یہ امید رکھتے تھے کہ وزیر اعظم نواز شریف اپنی تقریر میں محض انتظامی اداروں، ایجنسیوں اور عدالتی نظام کی کمزوریوں کا ذکر نہیں کریں گے بلکہ ان اداروں کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے ادارہ جاتی اقدامات کا اعلان کریں گے۔
بعض وکلاء کہتے ہیں کہ دہشت گردی جیسے سنگین جرم میں ملو ث ملزمان عدالتوں سے اس بناء پر رہا ہو جاتے ہیں کہ پولیس اہلکار ایف آئی آر تحریر کرتے وقت اس میں بنیادی خامیاں چھوڑ دیتے ہیں، پھر گواہ عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے، پولیس افسران، سرکاری وکیل، گواہ اور جج صاحبان اپنی زندگی کے خوف کا شکار ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم کو اپنی تقریر میں ان پولیس افسران کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے تھا جنھوں نے دہشت گردی کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور شہید ہو گئے، ان جج صاحبان اور سرکاری وکلاء کا بھی ذکر ہونا چاہیے تھا جو اپنی اصول پسندی کی بناء پر دہشت گردی کا شکار ہوئے تا کہ پولیس، فوج، سرکاری وکلاء اور ججوں کے حوصلے بلند ہوتے۔ وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں گواہ کے تحفظ کے لیے جامع قانون سازی کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ مسلم لیگ حکومت وفاق، پنجاب اور بلوچستان میں یہ قانون فوری طور پر منظور کرا سکتی ہے، سندھ اور خیبر پختونخوا اپنا قانون بنانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں توانائی کے بحران کا ذکر کیا کہ حکومت نے گردشی قرضوں کی مد میں 450 ارب روپے کی ادائیگی کی جس سے بجلی کی پیداوار میں 1700 میگا واٹ کا اضافہ ہوا ہے مگر وزیر اعظم نے توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے زرداری حکومت کے پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ یہ منصوبہ ملک میں گیس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے انتہائی اہم تھا، جب صدر زرداری نے اس منصوبے پر دستخط کیے تھے تو مسلم لیگی اراکین اسمبلی نے ہر صورت اس منصوبے کی تکمیل پر زور دیا تھا مگر اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت امریکا اور سعودی عرب کے دبائو میں آ گئی ہے۔ شاید یہ منصوبہ محض کاغذات اور فائلوں کے بوجھ میں دب کر رہ جائے۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
بعض ناقدین کی یہ رائے ہے کہ خارجہ پالیسی میں تبدیلی امریکا سے مزید نزدیک ہونے کی ایک کوشش ہے، اگر خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا مظہر ایران سے تیل اور گیس درآمد کرنے کی پابندی کے دبائو کو قبول کرنا ہے تو پھر عوام کو مایوسی ہی ملے گی۔ وزیر اعظم نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے کوئی حتمی تاریخ دینے سے گریز کیا ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف انتخابات سے قبل ہی فوری طور پر لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا نعرہ لگاتے تھے اب وہ بھی خاموش ہیں۔ اب وفاقی وزراء دو تین سال کی مدت میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی باتیں کر رہے ہیں، عالمی بینک سے قرضے کے لیے معاہدے کے تحت حکومت نے بجلی اور گیس کی مد میں دی جانے والی سبسڈی میں کمی کے باعث بجلی اور گیس کے نرخ بڑھ گئے ہیں اور بعض لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ مسلم لیگی حکومت کو غریبوں اور متوسط طبقے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور یہ عوام کی پہنچ سے دور، بجلی کی فراہمی کو لوڈ شیڈنگ کا حل سمجھ رہی ہے۔
وزیراعظم کا لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا عزم عام آدمی کو مایوسی سے نکالنے میں ناکام رہا ہے۔ وزیراعظم کی تقریر میں قومی صنعتی اداروں کی نج کاری کا ذکر نکلا ہے۔ 1999ء سے قومی بینکوں صنعتی اداروں کی پی ٹی سی ایل، کے ای ایس سی وغیرہ کی نج کاری کے مثبت اثرات برآمد نہیں ہوئے ہیں، ان اداروں میں تیس سال سے ملازمت کرنے والے لاکھوں کارکن بے روزگار ہوئے اور گولڈن شیک ہینڈ کی تمام اسکیمیں ناکام ہوئیں اور عوام کو بہتر سہولتیں نہیں مل سکیں۔ اگر حکومت پھر نج کاری کی پالیسی پر عملدرآمد کرنا چاہتی ہے تو اس کو ان اداروں کے اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا چاہیے اور بھارت میں قومی اداروں کی نج کاری کے بارے میں جو پالیسی تیار ہوئی تھی اس کا ضرور جائزہ لینا چاہیے۔
بھارت کی حکومت نے 80 کروڑ غریبوں کو سستے داموں چاول، گندم اور دیگر اشیاء کی فراہمی کا منصوبہ شروع کیا ہے، اس منصوبے کے تحت یہ اشیاء ایک سے تین روپے کلو میں ملیں گی۔ وزیراعظم کی تقریر میں غریبوں کے لیے کچھ نہیں ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے کراچی میں امن و امان کو بہتر بنانے پر زور دیا مگر کراچی کے بگڑتے حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر فوری طور پر جامع پالیسی بنانی چاہیے۔ کراچی کے شہریوں کے لیے زیر زمین میٹرو بس سروس کے قیام کا اعلان انتہائی خوش آیند ہے مگر اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں۔ کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئے بغیر کسی ترقیاتی منصوبے کے مفید نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ وزیراعظم کی یہ بات درست ہے کہ خواب دیکھنے سے پھول نہیں کھلا کرتے۔