اس سادگی پہ کون نہ مرجائے۔۔۔۔

کیا دہشتگردی کے واقعات کچھ کم ہورہے ہیں.

کیا تاریک دور سے گزر رہا ہے ہمارا ملک! کیا دہشتگردی کے واقعات کچھ کم ہورہے ہیں کہ ایک اور واقعہ بلکہ سانحہ رونما ہوگیا کہ ایک دہشت گرد اتنی دیدہ دلیری سے مسلح ہوکر آزادی، بلا روک ٹوک، شاہراہ دستور کا طویل فاصلہ طے کرتا ہوا جناح ایونیو پہنچ گیا اور وہ بھی بڑی دھوم دھڑکے کے ساتھ فائرنگ کرتا ہوا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ معلوم نہیں سارے کے سارے ذمے داران کہاں سوئے ہوئے تھے یا سیروتفریح اور موسم کا مزہ لوٹنے یا مری، سوات کے نظارے لوٹنے چلے گئے تھے۔ حقیقت یہی ہے کہ رونما ہونے والا سانحہ یوم آزادی کے دوسرے روز ہی وقوع پذیر ہوا، یعنی یوں سمجھیے کہ ''مقدر کے سکندر'' نے ہمیں یوم آزادی کا تحفہ دیا۔

ایک شخص مسلح ہوکر باقاعدہ اپنے ہتھیاروں کی گھن گرج میں بلیو ایریا میں داخل ہوگیا (جو ریڈزون بھی کہلاتا ہو) کیسا اہم مقام ہے، ملک کے تمام اشرافیہ، اہم عمارتیں اور اہم رہائش گاہیں، سفارت خانے، سپریم کورٹ، وزیراعظم سیکریٹریٹ اور نہ جانے کتنی اہم پوسٹیں قائم ہیں، اور ان تمام جگہوں پر سکندر کا پہنچ جانا محیرالعقول ہے۔ جب سکندر کی تڑتڑ فائرنگ کی آواز کسی کے کانوں تک نہیں پہنچی تو بھلا میری یہ بے زبان آہ و بکا کہاں ان تک پہنچے گی۔ اگر کسی نے بھولے سے یہ تحریر پڑھ بھی لی تو کیا فرق پڑے گا۔ کیونکہ یہ کالم نگار، تجزیہ نگار، میڈیا والے ایسے ہی ''نان ایشوز'' پر واویلا مچاتے ہیں۔ چھوڑو یار! ان پر کیا کان دھرنا، خواہ مخواہ میں وقت برباد کرنا، چلو اپنے کام سے کام رکھو۔ ان بے اصول اصولوں پر کیا دھیان دینا۔ ایسی باتیں تو ہم روزانہ سنتے اور مناظر دیکھتے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ کوئی ڈرامہ رچایا گیا ہو۔ کوئی دہشت گرد تنظیم نے ڈر اور خوف پیدا کرنے کے لیے یہ منصوبہ بنایا ہو۔ متعلقہ اداروں کو تحقیقات کرنے دو اس کے بعد اس معاملے پر غور کریں گے۔

ابھی تو تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔ دیکھا آپ نے کیسی سوچ ہے ذمے دار اداروں اور ان کے اہلکاروں کی۔ تعجب اور تشویشناک بات تو یہ ہے کہ اتنا سب کچھ ہوجانے کے باوجود شاہراہ پر نہ کوئی پولیس نظر آئی نہ کمانڈوز نہ ہی ریپڈ اسکواڈ۔ زمرد خان ہتھیلی پر جان رکھتے ہوئے گھر سے روانہ ہوئے اور بڑی دلیری سے بچوں سے پیار کرتے کرتے اس بدبخت فرعون پر حملہ کردیا۔ وہ ان کی گرفت میں تو نہ آسکا لیکن پولیس نے اس پر فائرنگ کردی اس طرح وہ زخمی ہو کر گرفتار ہوگیا۔اب دوسری طرف کی صورت حال ملاحظہ کیجیے کوئی حکومتی اہلکار یا ان کا کوئی نمایندہ جائے وقوع پر نظر نہیں آئے۔ اتنا اہم نوعیت کا واقعہ شاید ان کی نظر میں اہمیت کا حامل نہیں تھا، وہ اسے ایک معمول کا حادثہ سمجھے اس لیے نظرانداز کردیا۔ حکومتی ارکان کی ذمے داری تھی کہ وہ اس واقعے کا بلا تاخیر نوٹس لیتے اور حاضر وقوع ہوکر عملدرآمد کراتے۔ دوسری طرف پنجاب میں ہمارے بہت مشہور سیاستدان نے تبصرہ فرمایا کہ ''نبیل گبول اور زمردخان کا عمل احمقانہ تھا''۔ ایک ذمے دار سیاستدان کو اس واقعے پر ایسا تبصرہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔


ہماری حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کی ہدایت بھی کی ہے۔ دیکھیے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ عوام تو بیزار، بے چین، بے سکون اور ڈر اور خوف کے سہارے جی رہی ہے۔ ''نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن'' کی صورت حال ہے۔ گزشتہ دنوں ہی ایک اہم حکومتی عہدیدار کا ایک بیان مقامی اخبار میں شایع ہوا ہے جس میں انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ حالات بہت تشویشناک ہیں، کسی کو اندازہ نہیں۔ عوام تو ملک کے تشویشناک حالات کا پچھلے 5 سال سے سامنا کر رہے ہیں، یہ آج کی بات نہیں۔

خدارا! سنبھل جائیے۔ غفلت، سستی، نااہلی کا ثبوت نہ دیں، ابھی تو ابتدائے عشق ہے اور اس عشق میں تو آپ نے 5 سال گزارنے ہیں۔ ابھی سے گھبرائیے مت، حوصلہ پست نہ کیجیے، حوصلہ بلند رکھ کر عوام کی خدمت کیجیے، عوام کو کچھ ڈلیور کیجیے۔ ویسے حکمران تو کہہ چکے ہیں کہ ہمیں خزانہ خالی ملا ہے۔ حکومت کے پاس پیسے ہی نہیں ہیں تو کام کیسے کریں۔ عوام کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔ ہمارے پاس الٰہ دین کا چراغ یا جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ چٹکی بجاتے مسائل حل ہوجائیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں ہم اپنی حکومت کی مقررہ مدت میں ہی ان مسائل کو حل کرلیں۔ مگر حکمران بڑی ہوشیاری سے کشکول توڑنے کا جواب گول کرگئے یعنی خاموشی سے آگے بڑھ گئے۔

لیکن عوام بے وقوف نہیں۔ عوام جس گاڑی میں سوار ہیں اس کی لگام تو آپ کے ہاتھ میں ہے، چابک بھی آپ کے ہاتھ میں ہے۔ پھر سواری کو کیوں الزام دیتے ہیں؟ جب گاڑی آپ کے قابو سے باہر ہوکر چل رہی ہے یا رک رہی ہو بہرصورت کوچوان تو آپ ہیں۔ سب سے بڑی ذمے داری آپ کی ہے کہ جمہوریت کی گاڑی کو قابو میں رکھ کر چلائیں۔ غیر جمہوری طریقے سے حکومت چلائیں گے تو ظاہر ہے جمہوریت تو ''ڈی ریل'' ہوجائے گی اسے ڈی ریل نہ ہونے دیں صحیح ٹریک پر چلائیے۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ عوام سے رشتہ جوڑیں، عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں، عوام کو جن کمر توڑ دینے والے مسائل اور بحرانوں کا سامنا ہے انھیں دور کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں۔ یہی تو کہلاتا ہے ''گڈگورننس''۔

ملک میں اندرونی حالات پر کنٹرول ہونا چاہیے۔ دہشت گردی، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، نشانہ وار قتل، گھریلو خاندانی یا برادری کے مابین جھگڑوں کی بنیاد پر قتل و غارت گری، کاروکاری، رہزنی، سرعام چھینا جھپٹی، خواتین پر تشدد (تیزاب پھینکنے والی وارداتیں) جیسے گھناؤنے جرائم پر قابو پانے کے لیے مضبوط، منصوبہ سازی اور ایماندارانہ عملدرآمد کی پالیسی کی ضرورت ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ وفاقی و صوبائی وزارت داخلہ ان تجاویز پر عمل پیرا ہوں گی۔
Load Next Story