آمروں کی بے سکونی…
شہنشاہ ایران ’’رضا شاہ پہلوی‘‘ 38 سال تک ایران کا حکمران رہا۔
شہنشاہ ایران ''رضا شاہ پہلوی'' 38 سال تک ایران کا حکمران رہا۔ 22 سال کی عمر میںپوری دنیا اسے شاہ ایران کے نام سے پکارنے لگی تھی۔ 1953 میں شاہ نے ڈاکٹر محمد مصدق کی منتخب حکومت کو ملیامیٹ کرکے محمد مصدق کو قید میں ڈال دیا اور اس کے بعد 25 سال ایران پر قابض رہا۔ یورپی پریس اسے ''امریکن گورنر'' کہتا تھا۔ شاہ ایران کے دفتر میں ''امریکی گرین فون'' موجود تھا، امریکا سے جو ہدایت ملتی، اس پر فوری عمل درآمد کرتا۔ امریکی اشاروں پر اس نے ایران میں داڑھی اور پردہ جرم بنادیا اور عصر کی نماز کی ادائیگی پر پابندی لگادی۔ وہ اپنی سلطنت کو تین ہزار سال پرانی سلطنت قرار دیتا تھا، اس نے یہودیوں کو اسرائیل کے قیام میں مدد دی۔ ایران سے اسرائیلیوں کو اسرائیل میں جا کر بسنے کی قانونی اجازت دی۔ اسرئیل کی ''موساد'' کو تہران میں دفتر کھولنے کی بھی اجازت دی تاکہ یہودیوں کی آبادی کو اسرائیل منتقل کیا جاسکے۔ اسرائیل کو ایک آزاد ریاست کے طور پر قبول کرنے کے لیے اس نے 50,000 ڈالر بھی وصول کیے۔
شاہ ایران کی امریکا نواز پالیسیوں کے خلاف ایرانی عوام نے احتجاج شروع کیا تو شاہ نے ملت ایران کی صدائے احتجاج کو خاموش کرنے کے لیے ہزاروں جوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، قید میں ڈال دیا، یا شہر بدر کردیا۔ درجن بھر شہروں میں مارشل لاء لگا کرظلم و ستم کے کئی ریکارڈ قائم کیے۔ عوام نے ہمت نہ ہاری، تین برس مسلسل بپھرے عوام شاہ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے صدائے احتجاج بلند کرتے رہے۔ بالآخر عوام نے اس آمر کو ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کردیا۔ شاہ کا خیال تھا امریکا اب اس کی وفاداریوں کا بدلہ دے گا لیکن جوں ہی شاہ ایران کا طیارہ ایران کی حدود سے نکلا، امریکا نے آنکھیں پھیر لیں۔ شاہ پہلے مصر گیا، پھر مراکش، پھر بہاماس اور پھر میکسیکو۔
وہ اس دوران امریکا سے مسلسل مدد مانگتا رہا لیکن وائٹ ہاؤس نے اس کا ٹیلی فون تک نہ سنا۔ شاہ ایران مارا مارا پھرتا رہا، کسی نے اس کی مدد نہ کی۔ اس دوران شاہ نے مصر کے صدر انور سادات کو خط لکھا جس میں اس نے کہا کہ ''میں دنیا کا سب سے بڑا بھکاری ہوں، خدا کے واسطے مجھے مصر میں آنے دو اور میری پہلی بیوی نریمان کے پہلو میں دفن ہونے دو'' اس خط کو پڑھ کر انور سادات کی آنکھوں میں آنسو آگئے، اس نے یہ درخواست قبول کرلی۔ چند روز بعد شاہ نے انور سادات سے ملاقات کی درخواست کردی، جب انور سادات اس سے ملنے آیا تو شاہ نے کہا ''جناب صدر! آپ کے خیال میں میری آخری خواہش کیا ہوسکتی ہے؟'' اس پر انور سادات نے جواب دیا کہ تم شہنشاہ رہے ہو، ہوسکتا ہے تم دوبارہ بادشاہت کی خواہش کرو، اس پر رضاشاہ پہلوی نے انکار میں سر ہلا دیا۔
پھر کہا ہو سکتا ہے کہ تم اپنا آخری وقت آرام سے گزارنے کے لیے بہت ساری دولت کی تمنا کرو، لیکن رضاشاہ نے اس پر بھی انکار میں سر ہلا دیا۔ تیسر ی مرتبہ انور سادات نے کہا کہ ہو سکتا ہے تم صحت اور آرام کی خواہش کرو؟ اس مرتبہ بھی رضاشاہ پہلوی نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ''میر ی آخری خواہش یہ ہے کہ اگر اﷲ تعالی نے میری زندگی میں مہلت دینی ہے تو اتنی مہلت ضرور دے کہ میں سکون سے مر سکوں۔'' ٹھیک تین دن بعد شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کا قاہرہ میں اس قدر بے بسی کے عالم میں انتقال ہوا کہ انتقال کے وقت اس کے پاس اس کی تیسری بیوی کے سوا کوئی نہ تھا، لوگ اس کا جنازہ تک پڑھنے نہ آئے، چنانچہ اسے اس کے بیڈ روم ہی میں امانتاً دفن کردیا گیا۔
یہ صرف ایک آمر کی کہانی نہیں بلکہ عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ کر اپنے اقتدار کو طول دینے والا ہر آمر اور ڈکٹیٹر حکمران اسی انجام کا شکار ہوتا ہے۔ منتخب حکومتوں پر شب خون مار کر عوام کو تہہ و تیغ کرنے والا ہر ڈکٹیٹر ہی ''سکون کی موت'' کو ترستا ہے لیکن موت سکون سے نہیں مل پاتی۔ لوگوں کا سکون چھیننے والوں سے ہمیشہ کے لیے سکون چھین لیا جاتا ہے۔ ایڈولف ہٹلر کے جرمن قوم کی نسلی برتری کے فلسفے کے سبب ایک کروڑ 10 لاکھ لوگ موت کے منہ میں چلے گئے لیکن وہ خود سکون کی موت کو ترستا 1945 میں خودکشی کرلیتا ہے۔ یوگنڈا کا آمر عیدی امین اپنے ملک میں احتجاج کو کچلنے کے دوران تقریباً 5 لاکھ افراد کی ہلاکت کا سبب بنا۔ سکون کی موت اسے بھی نصیب نہ ہوئی اور جلاوطنی کی موت مرا۔
چلی کے آمر جنرل اگارتے اگستوپنوشے نے سی آئی اے کی مدد سے منتخب حکومت پر شب خون مارا، امریکا کے کہنے پر ہزاروں شہری قتل کرائے، جب عوام پنوشے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو وہ لندن فرار ہوگیا، لندن آتے ہی پولیس نے اسے گرفتار کیا اور اس کے گھر میں نظربند کردیا، اس کے خلاف مقدمہ چلا، اسے ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ دم توڑ گیا۔ اپنے مخالفین کی بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے والے آمر صدام حسین نے زندگی کے آخری ایام ایک قبر نما گڑھے میں گزارے اور پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ عوام کا سکون چھیننے والا کرنل قذافی عوام کے ہی انتقام و غضب کا نشانہ بن کر مرا۔مصر کے انور سادات کو گولی ماری گئی۔مراکش کے زین العابدین کو ملک بدر کردیا گیا۔ مصر کا حسنی مبارک زندگی کے آخری ایام ذلت و رسوائی کے ساتھ گزارنے پر مجبور ہے۔ پرویز مشرف عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہے۔ ان کے علاوہ بھی آمروں کی ایک لمبی فہرست ہے جن کی آخری عمر میں سکون ان کا مقدر نہ بن سکا۔
اب مصر میں جنرل سیسی نے بھی ایک منتخب حکومت پر شب خون مارکر اور اپنا جمہوری حق مانگنے والے بے شمار لوگوں کو اپنی آمرانہ فطرت کی بھینٹ چڑھا کر بے سکون موت مرنے والے آمروں کی اقتدا کی ہے۔ سیسی نے اسلامی ملکوں میں خانہ جنگی کی آگ لگانے والے امریکا اور اسرائیل کے اشارے پر یہ سب کچھ کیا ہے۔ اس نے عوام کو اپنا حق مانگنے کی پاداش میں خون میں نہلا دیا ہے۔ ان کو ٹینکوں تلے روند ڈالا۔ پرامن عوام کو ٹینکوں تلے روندنے والے یہ تو بھول ہی گئے کہ اﷲ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ ظلم کا اندھیرا ہمیشہ نہیں رہتا۔ آج اگر یہ عوام کو ٹینکوں تلے روند رہے ہیں تو کل یہی لوگ اپنے پیشوا آمروں کی طرح عوام کے پائوں تلے روندے جائیں گے۔ ان کو بھاگنے کی راہ نہیں ملے گی، پھر نہ تو امریکا ان کو بچائے گا اور نہ اسرائیل۔ قدرت کا ضابطہ یہی ہے۔
آج تک کوئی بھی عوام کا قاتل آمر سکون کی موت نہیں مرا اور نہ کل مرے گا۔ شاہ ایران کے نقش قدم پر چلنے والوں کا انجام بھی شاہ ایران سے مختلف نہیں ہوگا۔ صرف سیسی ہی نہیں بلکہ نہتے شہریوں پر گولیاں اور گولے برسانے والی ظالم فوج کو امن کا پیامبر اور اپنے حق کا مطالبہ کرنے والے پرامن شہریوں کو دہشت گرد کہہ کر ظالم فوج پر اربوںروپے نچھاور کرنے والے بھی انھی کے ساتھ روندے جائیں گے۔ جنرل سیسی یہ بات یاد رکھے کہ عوام کا سکون چھیننے والے آمروں کو کبھی سکون نہیں ملا۔ وہ آخری وقت بھی سکون کو ترستے ترستے مرجاتے ہیں لیکن ان کی آخری خواہش ''سکون کی موت'' بھی پوری نہیں ہوپاتی۔