صدرکرزئی کا مجوزہ دورہ پاکستان

افغانستان کے صدر حامد کرزئی اس ماہ کے آخری ایام میں پاکستان کے دورے پر تشریف لارہے ہیں.

S_afarooqi@yahoo.com

ISLAMABAD:
افغانستان کے صدر حامد کرزئی اس ماہ کے آخری ایام میں پاکستان کے دورے پر تشریف لارہے ہیں اور حکومت پاکستان انھیں خوش آمدید کہنے کے لیے حسب سابق فرش راہ ہے۔ یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ پاکستان کی ہر حکومت کی یہ خواہش رہی ہے کہ اپنے پڑوسی برادر ملک کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے سے اچھے ہوں۔حامد کرزئی اس سے قبل پاکستان کے ایک دو نہیں بلکہ 19دورے کرچکے ہیں اور پاکستان کی جانب سے ہر مرتبہ ان کا والہانہ اور پرتپاک استقبال بھی کیاگیا۔ یہ اور بات ہے کہ صدر کرزئی نے ہر مرتبہ وعدہ خلافی کا مظاہرہ کیا اور پاکستان کے خلاف موقع بہ موقع سخت الفاظ اور ترش لب ولہجے کا استعمال کیا۔ ان کے اس غیر اخلاقی طرز عمل کے بارے میں اس کے سوائے اور کیا کہاجاسکتاہے کہ:

ہم تو تسلیم کی خو ڈالیںگے

بے نیازی تری عادت ہی سہی

پاکستان اور افغانستان کے عوام خون کے رشتوں کے بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں اور ان رشتوں کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ خشکی سے گھرا ہوا(Land Locked)ملک ہونے کے باعث افغانستان کے لیے پاکستان کی بندرگاہوں تک رسائی حاصل کرنا اس کی جغرافیائی مجبوری ہے۔اگر پاکستان راہداری کی سہولتیں مہیا نہ کرتا تو افغانستان کے لیے بھارت کے ساتھ تجارت کرنا بھی ممکن نہ ہوتا۔ لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ افغانستان کے فرماں روا بھارت کے اس قدر ہمنوا اور پٹھو بنے رہے کہ انھوں نے ایک عرصے دراز تک پاکستان کے وجودہی کو تسلیم نہیں کیا۔ ہمارا دل اس وقت خون کے آنسو روتا تھا جب ہم نے دلی کے رام لیلا گرائونڈ میں افغان قائدین سرداردائود اور سردار نعیم کو ہندوستان کے وزیراعظم آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو کے ساتھ انتہائی والہانہ انداز میں بغل گیر ہوتے ہوئے دیکھتے تھے۔ افسوس کہ افغان قائدین نے پاکستان کے ساتھ افغانستان اور اس کے عوام کے تمام تاریخی، مذہبی اور ثقافتی رشتوں کو بالائے طاق رکھ دیا اور اقبال کی اس صدا کو سنی ان سنی کردیا کہ

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر

پاکستان کے دشمنوں، بھارت اور سابق سوویت یونین کے ساتھ مل کر اس مملکت خداداد کے خلاف سازشوں کے جال بچھانا اور سیاسی وعسکری گٹھ جوڑ کرنا افغان حکمرانوں کا پرانا وطیرہ رہا ہے، اس کے بالکل برعکس پاکستان کا سلوک ملاحظہ ہو کہ اس نے افغانستان کے ساتھ ہمیشہ اور مسلسل برادرانہ، اخلاص وتعاون کا مظاہرہ کیا ہے اور انتہا تو یہ ہے کہ افغانستان کو سابق سوویت یونین کے چنگل سے بچانے کے لیے اپنے وجود کو بھی دائو پر لگادیا اور اب بھی لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں نہ صرف پناہ گزین ہیں بلکہ اس کی معیشت پر بوجھ بن کر آرام اور چین کی زندگی گزاررہے ہیں۔


یہ ایک کھلی اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کا وجود افغانستان کے لیے ناگزیر ہے اور پاکستان کے بغیر نہ تو افغانستان کی حکومت چل سکتی ہے اور نہ ہی معیشت۔

شاید یہی وہ احساس ہے جس نے بالآخر صدر کرزئی کو پاکستان کے دورے پر آنے کے لیے مجبور کردیا ہے۔ چلیے ''دیر آید درست آید۔''

2014 میں افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا کے پس منظر اور دوحہ مذاکرات کے حوالے سے صدر کرزئی کے مجوزہ دورہ پاکستان کو سیاسی اور سفارتی حلقوں میں غیر معمولی اہمیت دی جارہی ہے۔ خود افغانستان کی اندرونی حالت بھی دو عشروں سے زیادہ پرانی، شورش زدگی اور کشمکش کے باعث دگرگوں اور ناگفتہ بہ ہوچکی ہے جس کے نتیجے میں افغان عوام کی زندگیاں اجیرن ہوگئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ بے چارے لوگ اس غیر یقینی صورتحال سے کب تک نبرد آزما ہوتے رہیں گے اور ان کی آیندہ نسلوں کو اس کا خمیازہ کب تک بھگتنا پڑے گا؟

جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے تو افغانستان کے حالات نے اسے بری طرح متاثر کیا ہے اور ڈرون حملوں اور اندرون ملک دہشت گردی نے اس کی سیاست، معیشت اور معاشرت کی جڑیں ہلاکر رکھ دی ہیں اور پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن اس سنگین مسئلے سے بے حد متفکر اور بری طرح سے پریشان ہیں۔ پاکستان کی حکومت ہی نہیں بلکہ پاکستان کا ہر شہری یہ چاہتا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا جلدازجلد کوئی پرامن حل نکل آئے تاکہ اس ملک کے عوام سکھ اور چین کا سانس لے سکیں۔ پاکستان کی کشادہ دلی اور امن پسندی کا اس سے بڑھ کر کوئی اور ثبوت کیا ہوگا کہ اس کے باوجود کہ افغان حکمرانوں نے مولوی فضل اللہ جیسے لوگوں کو اپنے یہاں پناہ دے رکھی ہے، پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ مفاہمت کو ترجیح دی ہے۔

یہی وہ خیر سگالی اور امن پسندی کا جذبہ تھا کہ جس کے تحت پاکستان نے امن مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی نیت سے پاکستان کی تحویل میں رکھے گئے بہت سے افغان نظربندوں کو رہا کردیا اور دوحہ میں طالبان کے دفتر کے قیام کی حمایت میں بھی کوئی پس و پیش نہیں کی۔ یہ اور بات ہے کہ خود افغانستان کی حکومت نے ہی دوحہ امن مذاکرات کو منسوخ کردیا۔ تاہم یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی ایک سے زائد مرتبہ اس خواہش کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ افغانستان کے مسئلے کے پرامن حل کی تلاش کی خاطر طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ بال اب صدر کرزئی کے کورٹ میں ہے۔

توقع ہے کہ صدر کرزئی کا مجوزہ دورہ پاکستان نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ثابت ہوگا بلکہ اس سے افغانستان کے برسوں پرانے سنگین مسئلے کے پرامن اور دیرپا حل کی تلاش میں بھی بڑی مدد ملے گی۔ اگرچہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے صدر کرزئی کے بارے میں بعض خدشات اور تحفظات ہیں جوکہ بہت حد تک درست اور جائز بھی ہیں، تاہم اس دورے سے اچھی توقعات رکھنے میں شاید کوئی حرج نہ ہوگی کیونکہ امن کو ایک اور موقع ضرور دیا جانا چاہیے۔ امر واقع یہ ہے کہ اس دورے کی کامیابی اور اس کے آیندہ اثرات اور مضمرات کا سب سے زیادہ انحصار حامد کرزئی کی فراخدلی اور نیک نیتی پر ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان مسئلے کے پرامن حل میں طالبان کو کلیدی اہمیت حاصل ہے مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ صدر کرزئی کی جانب سے بھی لچک کا مظاہرہ کرنے کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ سچی اور کھری بات یہ ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے کبھی نہیں بج سکتی۔

ہمارا خیال ہے کہ اگر صدر کرزئی خوشدلی سے یا بادل ناخواستہ اس نتیجے پر نہ پہنچتے کہ افغان مسئلے کے پرامن اور پائیدار حل کے لیے پاکستان کے ساتھ بات چیت اور اس کی حمایت ناگزیر ہے تو وہ ہرگز اس دورے کے لیے آمادہ نہ ہوتے جو لوگ کرزئی کی سوچ اور اپروچ سے بخوبی واقف ہیں وہ ہمارے اس خیال سے یقینا اتفاق کریں گے۔ اگر افغانستان کے مسئلے میں ملوث بیرونی طاقتوں کو بھی پاکستان کی کلیدی اہمیت کا اندازہ یا احساس نہ ہوتا تو وہ پاکستان کو گھاس بھی نہ ڈالتیں۔ ممکن ہے کہ ان ہی بین الاقوامی قوتوں نے بالواسطہ یا بلاواسطہ صدر کرزئی کو یہ باور کروایا ہو کہ افغان مسئلے کے پرامن اور پائیدار حل کے لیے پاکستان کی شرکت اور حمایت قطعی طور پر ناگزیر ہے۔ چنانچہ ہم یہ توقع کرسکتے ہیں کہ صدر کرزئی اپنے اس مجوزہ دورے میں ماضی کی روش سے ہٹ کر حقیقت پسندی اور صلح جوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آئیں گے اور ایک ضدی، ہٹ دھرم اور روٹھے ہوئے بچے جیسا سابقہ رویہ اپنانے سے گریز کریں گے۔ دوسری جانب پاکستانی قیادت کو بھی محتاط رویہ اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا مظاہرہ کرنا ہوگا کہ اسے صدر کرزئی کے خدشات اور تحفظات کا بخوبی اندازہ ہے۔

چونکہ صدر کرزئی کا مجوزہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس لیے ہمارے میڈیا پر بھی لازم ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمے داری کا بخوبی احساس کرتے ہوئے انتہائی احتیاط اور اعتدال پسندی کا مظاہرہ کرے اور ایسی کسی بھی بات اور حرکت سے اجتناب کرے جس سے اس دورے پر کوئی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہماری حزب اختلاف سے بھی یہی استدعا ہے کہ اسے اس موقعے پر حکومت وقت کے ساتھ ایک صفحے پر موجود ہونا چاہیے اور باہمی گفت و شنید کے اس فیصلہ کن عمل میں پاکستانی حکومت کی اخلاقی حمایت کرنا چاہیے تاکہ ملک کو دہشت گردی کے سنگین مسئلے سے نجات حاصل ہو۔
Load Next Story