پہلا خطاب
وزیراعظم پاکستان محترم نواز شریف صاحب نے کافی انتظار کے بعد آخر قوم سے خطاب کر ہی ڈالا۔
GILGIT:
پیر کو وزیراعظم پاکستان محترم نواز شریف صاحب نے کافی انتظار کے بعد آخر قوم سے خطاب کر ہی ڈالا۔ انھوں نے اب ہی کیوں قوم سے خطاب کیا جب کہ ضمنی انتخابات سر پہ ہیں ایک الگ بحث ہے لیکن پچپن منٹ کے اس جوش و جذبات سے عاری خطاب کو اگر صرف ایک جملے میں بیان کیا جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ وہ بولے بہت اور انھوں نے کہا کچھ بھی نہیں۔ اس تقریر میں ملکی حالات کی منظر کشی جو وہ عوام کے سامنے کررہے تھے اس سے عوام نہ صرف اچھی طرح سے واقف ہیں بلکہ بھگت بھی رہے ہیں، یہ سب وہی الفاظ، وہی وعدے اور وہی نعرے تھے جو وہ الیکشن کے دنوں میں تواتر سے دہرایا کرتے تھے۔ یہ 1999 نہیں بلکہ 2013 ہے جہاں اب عوام کو لفاظیاں نہیں بلکہ ان کے مسائل کا حل چاہیے۔
نواز شریف صاحب کی حکومت کو حلف اٹھائے ہوئے اب جب کہ دو ماہ ہونے کو ہیں، ملک آج بھی اسی طرح بے سمت ہزاروں مسائل کے انبار میں گھرا بے یار و مددگار نظر آتا ہے جیسے پہلے تھا۔ ان دو ماہ میں اگر ملکی حالات کا جائزہ لیں تو مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھے زیادہ ہیں۔ معاشی حالت کی مزید ابتری کا منہ بولتا ثبوت روپے کی گھٹتی ہوئی قدر اور ایک دفعہ پھر سے آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینے سے نظر آ ہی رہا ہے۔ وہی ن لیگ جو کبھی کشکول توڑنے کے نعرے لگایا کرتی تھی اب خود غیروں کے در پہ جا پہنچیہے۔ امن عامہ کا یہ حال ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کے گھر سے لے کر شاہراہ دستور تک کوئی جگہ بھی تو ایسی نہیں جو شرپسند عناصر کے ہاتھوں سے محفوظ ہو۔ کراچی کا یہ حال ہے کہ قسمت سے بھی کوئی ایک دن ایسا دیکھنے کو نہیں ملا جس دن کراچی میں لاشیں نہ گری ہوں۔ کبھی ایک طرف کوئی دہشت گرد کوئٹہ میں قائداعظم کے گھر کو جلا کے چلے جاتے ہیں، کوئی سیکڑوں لوگ جیلیں توڑ کر ہزاروں قیدیوں کو بھگا دیتے ہیں تو کبھی دوسری طرف کوئی ایک شخص ہاتھوں میں دو گنیں اٹھائے ساڑھے پانچ گھنٹے تک ساری دنیا کے سامنے ہمارا تماشا بنائے رکھتا ہے اور ہمارے ادارے اس کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔
سیلاب نے سارے ملک میں تباہی مچا رکھی ہے، سو سے زیادہ کی تعداد میں اب تک لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ہزاروں گائوں زیر آب اور زرعی اراضی تباہ ہوچکی ہیں، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان سیلاب زدگان کا کوئی پرسان حال نہیں، کہیں کوئی حکومتی نمایندہ یا امداد نظر نہیں آرہی۔ نواز شریف صاحب بھی اپنی تقریر میں ان آفت زدہ لوگوں کی ہمت بندھانے اور کسی امداد کا اعلان کرنے سے گریزاں رہے۔11 مئی کے انتخابات میں تبدیلی کے نعرے ہر جماعت کی طرف سے اتنے تواتر سے لگائے گئے کہ جمہوریت کے نام پہ پانچ سال سے عذاب جھیلتی قوم کے دلوں میں امید جاگی کہ شاید حالات میں کچھ بہتری آجائے، عوام کے دن پھر جائیں مگر ایسا فی الحال تو کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ہمارے عوام تو پہلے ہی ہر روز مہنگائی، لوڈشیڈنگ، امن و امان پہ ماتم کرتی ہوئی نظر آتی ہے مگر اب تو یوں لگتا ہے کہ حکمران بھی لوگوں کو مسائل کے حل کی امید دینے کے بجائے صرف مشکل حالات کا ذکر کرتے کرتے وقت گزار دیں گے۔ نواز شریف کی تقریر میں کہیں کوئی مسائل سے نمٹنے کے لیے سمت کا تعین کیا گیا نہ ہی ہنگامی بنیادوں پر مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات کا کوئی اعلان کیا گیا، پھر اس ایک گھنٹے کی اس تقریر کو محض لفظوں کا ہیر پھیر نہ کہیں تو پھر اور کیا کہیں۔
آج کے اس مشکل دور میں لوگوں کو امید چاہیے۔ اچھے دن آ نے کا یقین چاہیے۔ اپنے آنے والا کل روشن اور اپنے بچوں کا محفوظ مستقبل چاہیے اور یہ سب تب ممکن ہے کہ ایک مضبوط، پرعزم اور بااعتماد لیڈر کی طرح نواز شریف صاحب اٹھ کھڑے ہوں، اس یقین کے ساتھ کہ اس ملک کے عوام اور حکمران مل کے نہ صرف اچھے دنوں کی آس میں سفر کی مشکلات جھیل لیں گے بلکہ زندہ قوموں کی طرح اپنے ملک کی تقدیر بھی اپنی ہمت اور محنت سے بدل ڈالیں گے۔ نواز شریف صاحب اٹھارہ کروڑ عوام کو امید اور یقین کا پیغام چاہیے جو حالات کی کڑی دھوپ میں ان کا سائبان بن سکے۔ آپ سے قوم کو بہت امیدیں ہیں، ان کی زندگیوں میں رنگ صرف آپ کی مخلصانہ کوشش اور سنجیدگی سے مسائل کے حل کی جانب قدم بڑھانے سے ہی آ سکتے ہیں۔