جامعہ کی حلال محبت
جب محبت شرعی قواعد و ضوابط کی پیروی کرنے والوں کو ہوتی ہے، تو اس کو عام لوگ ’’حلال محبت‘‘ کا نام بھی دے دیتے ہیں
محبت تو پانی کی طرح ہونی چاہیے، جو اپنی جگہ خود بنائے، جیسے پانی اپنا راستہ خود بناتا ہے، پہاڑوں کا سینہ چاک کرکے اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے، جو اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ راستے میں جوں جوں آگے بڑھتا ہے، لوگ اس سے سیراب ہوتے ہیں۔ دراصل ہمارے ہاں محبت بھی درجات میں منقسم ہے، جیسے کہ ''حلال محبت۔'' آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بھئی یہ حلال محبت کون سی ہوتی ہے؟
جب یہ محبت شرعی قواعد و ضوابط کی پیروی کرنے والوں کو ہوتی ہے، تو اس کو عام لوگ ''حلال محبت'' کا نام بھی دے دیتے ہیں۔ جامعہ کراچی میں دو شعبہ جات ایسے ہیں جن کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے: شعبہ تاریخ اسلام اور شعبہ علوم اسلامی؛ کیونکہ ان کے مائنر مضامین کی کلاسز بھی ایک ہی ساتھ ہوتی ہیں۔ اب دونوں شعبہ جات کے طلبا پر منحصر ہے کہ انہوں نے کون سا مضمون چنا ہے۔
یہ جاننا سب سے اہم ہے کہ یہاں کس قسم کے طلبا پائے جاتے ہیں۔ میری ایک دوست ہیں، جن کا تعلق شعبہ علوم اسلامی سے ہے، ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کی یا تو بوتیک ہے یا وہ کوئی ماڈل ہیں۔ ایک مرتبہ ان سے کہا کہ میں نے جامعہ کے کنفیشن پیچ پر پڑھا ہے، کسی لڑکی نے لکھا تھا کہ Beauty exists in Department of Islamic Learning، تو موصوفہ تھوڑا اتراتے ہوئے بولیں ''ہاں بھئی! بات تو ٹھیک ہی ہے۔ مجھے دیکھ لیں!'' یہ جملہ سن کر میں اضطراب کا شکار ہوگیا کہ اب ہنسا جائے یا رویا جائے۔
ان دونوں شعبہ جات میں لڑکوں کی تعداد ویسے ہی کم ہے؛ اور لڑکوں کی قدر ویسے ہی ہے جیسے ڈالر کے سامنے روپے کی، مگر لڑکے اسے بھی برداشت کرجاتے ہیں۔ لیکن ایک بات وہ برداشت نہیں کرپاتے، وہ ہیں نقاب میں چھپی جھیل سی گہری آنکھیں۔ اب مجال ہے کوئی لڑکی بغیر آئی لائنر اور مسکارا کے نظر آجائے۔ اکثریت کا یہی حال ہے۔ کچھ تو اس سے بھی تجاوز کر جاتی ہیں کہ اللہ کی بنائی ہوئی ان نازک آنکھوں پر دو دو کلو میک اپ انڈیل کر آجاتی ہیں۔ پتا نہیں آنکھیں بھی کیسے کھولتی ہوں گی۔ اب یہ میک اپ زدہ آنکھیں مقناطیس کی طرح متوجہ کرتی ہیں اور کمزور دِلوں پر ایسے حملہ کرتی ہیں جیسے شیر اپنے شکار پر حملہ کرتا ہے۔ بعض مرتبہ تو اتنی اچھی آنکھیں نظر آجاتی ہیں کہ دوسری نظر واجب سی لگتی؛ اور پھر بعد میں فرض ہوجاتی ہے۔ البتہ یاد رہے کہ شعبہ جات کا تقدس قائم رکھنے کےلیے ''فرض'' اور ''واجب'' کی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔
لیکن پوری جامعہ میں شعبہ تاریخ اسلام اور شعبہ علوم اسلامی کے مابین محبت کے قصے بہت مشہور ہیں۔ یہ قصے منظر عام پر کم ہی آتے ہیں مگر اندر کے لوگ سب جانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ قبر کا حال تو مردہ ہی جانتا ہے۔ کیونکہ یہ بے چارے عام لوگوں کی طرح کھلم کھلا محبت کا اظہار نہیں کرسکتے، ان کو حلال طریقہ اپنانا پڑتا ہے۔
اسی بات پر مجھے اپنے ایک دوست کا قصہ یاد آگیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ میری ایک لڑکی سے ملاقات ''پی جی'' (پریم گلی) کینٹین کے پاس والی مسجد کے سامنے ہوئی تھی۔ اس نے مجھے دیکھا، میں نے اسے دیکھا۔ وہ دھیمے قدم چل کر میرے پاس آنے کو بڑھی، میرے بھی قدم اس کی جانب چلنے لگے۔ اس کی چمکتی آنکھوں پر دو کلو میک اپ لگا ہوا تھا۔ میرے سر پر ٹوپی تھی، اس کا چمکیلا عبایا تھا، میرا سفید کُرتا تھا۔ میں اپنے خیال میں تصور کرنے لگا کہ میں پی جی کے مشہور گول گپے اس کے ساتھ کھا رہا ہوں۔ جیسے ہی وہ قریب آئی، بولی ''سنیے!'' میں اپنے خیالوں سے ہوش میں آگیا ''جی کہیے؟'' وہ کہنے لگی کے میڈم پروین نے جو اسائنمنٹ دیا ہے، اس کے بارے میں ذرا سمجھا دیجیے۔ میرا کلیجہ منہ کو آنے لگا، جسم پر کپکپی طاری تھی، جیسے تیسے میں نے اسے سمجھا کر روانہ کردیا۔
اس دن کے بعد دھیرے دھیرے ہماری بات چیت طول پکڑنے لگی تھی۔ وہ مجھے کہتی تھی ''میں تمہیں اسامہ بن لادن سے بھی زیادہ پیار کروں گی۔'' میں نے کہا ''میں تمہارے لیے حلوہ بھی چھوڑ سکتا ہوں،'' وہ کہتی ''اچھا، قسم کھاؤ!'' میں نے کہا ''اشرافیوں کی طاہری کی قسم،'' تب کہیں جاکر اسے تسلی ہوئی۔ وہ مجھے روز فون کرکے کہتی تھی کہ آپ نے عشاء کی نماز پڑھ لی؟ میں بھی جواب میں ہاں کہہ دے دیتا تھا، اور تہجد کے بعد فون کرنے کا کہہ دیتا تھا، کیونکہ تہجد میں اسے اٹھانے کا ذمہ میرا تھا۔ اگر اسے نہ اٹھاتا، تو وہ مجھے نہ اٹھا دے اس بات کا خطرہ مجھے ہر وقت لاحق رہتا تھا۔ بالآخر میں نے اس بات کو غنیمت سمجھا کہ اس کو اٹھاؤ، نہیں تو خود اٹھ جاؤ گے۔
یوں ہماری زندگی برق رفتار ٹرین کی طرح چل رہی تھی لیکن جب نکاح کا وقت آیا تو وہ کہنے لگی ''طارق جمیل صاحب،'' میں نے کہا نہیں! ''علامہ طاہر القادری صاحب'' اور پھر ہمارے درمیان یہ بحث شدومد کے ساتھ آگے بڑھنے لگی۔ وہ مجھے اسے پار سے کافر کہتی تھی، میں اسے کافر کہتا تھا۔ وہ شعبہ علوم اسلامی کی لڑکی، میں شعبہ تاریخ اسلام کا لڑکا۔ لیکن دل تو دل ہوتا ہے، پھر بھی مانتا ہی نہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں شعبہ جات آمنے سامنے ہی ہیں۔ لگتا ہے اس کہانی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی یہ گانا ''تیرے عشق میں کافر کافر ہوں'' لکھا گیا ہے۔ ویسے ہمارے دوست کی یہ کہانی ہر متشکک انسان کو تشکیکیت میں مبتلا کر دیتی ہے کہ شاعر حضرات اب تک جو اپنی غزلیات میں محبوبہ کو کافر کہتے آرہے تھے، کیا ان کے ساتھ بھی یہ حادثات ہوئے تھے؟ سوالات تو بہت ہیں مگر جواب کی تلاش ہے۔
لہٰذا تمام افراد سے یہ گزارش ہے کہ اپنا اکاؤنٹ دیکھ بھال کر کھولا کریں، دوسروں کے اکاؤنٹ پر قبضہ نہ کریں۔ مطلب آسان ہے کہ اپنے نظريات، عقائد، خاندانی، گھریلو معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی تعلق قائم کیجیے۔ بعد میں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اس رشتے کو نباہ نہ سکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جب یہ محبت شرعی قواعد و ضوابط کی پیروی کرنے والوں کو ہوتی ہے، تو اس کو عام لوگ ''حلال محبت'' کا نام بھی دے دیتے ہیں۔ جامعہ کراچی میں دو شعبہ جات ایسے ہیں جن کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے: شعبہ تاریخ اسلام اور شعبہ علوم اسلامی؛ کیونکہ ان کے مائنر مضامین کی کلاسز بھی ایک ہی ساتھ ہوتی ہیں۔ اب دونوں شعبہ جات کے طلبا پر منحصر ہے کہ انہوں نے کون سا مضمون چنا ہے۔
یہ جاننا سب سے اہم ہے کہ یہاں کس قسم کے طلبا پائے جاتے ہیں۔ میری ایک دوست ہیں، جن کا تعلق شعبہ علوم اسلامی سے ہے، ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کی یا تو بوتیک ہے یا وہ کوئی ماڈل ہیں۔ ایک مرتبہ ان سے کہا کہ میں نے جامعہ کے کنفیشن پیچ پر پڑھا ہے، کسی لڑکی نے لکھا تھا کہ Beauty exists in Department of Islamic Learning، تو موصوفہ تھوڑا اتراتے ہوئے بولیں ''ہاں بھئی! بات تو ٹھیک ہی ہے۔ مجھے دیکھ لیں!'' یہ جملہ سن کر میں اضطراب کا شکار ہوگیا کہ اب ہنسا جائے یا رویا جائے۔
ان دونوں شعبہ جات میں لڑکوں کی تعداد ویسے ہی کم ہے؛ اور لڑکوں کی قدر ویسے ہی ہے جیسے ڈالر کے سامنے روپے کی، مگر لڑکے اسے بھی برداشت کرجاتے ہیں۔ لیکن ایک بات وہ برداشت نہیں کرپاتے، وہ ہیں نقاب میں چھپی جھیل سی گہری آنکھیں۔ اب مجال ہے کوئی لڑکی بغیر آئی لائنر اور مسکارا کے نظر آجائے۔ اکثریت کا یہی حال ہے۔ کچھ تو اس سے بھی تجاوز کر جاتی ہیں کہ اللہ کی بنائی ہوئی ان نازک آنکھوں پر دو دو کلو میک اپ انڈیل کر آجاتی ہیں۔ پتا نہیں آنکھیں بھی کیسے کھولتی ہوں گی۔ اب یہ میک اپ زدہ آنکھیں مقناطیس کی طرح متوجہ کرتی ہیں اور کمزور دِلوں پر ایسے حملہ کرتی ہیں جیسے شیر اپنے شکار پر حملہ کرتا ہے۔ بعض مرتبہ تو اتنی اچھی آنکھیں نظر آجاتی ہیں کہ دوسری نظر واجب سی لگتی؛ اور پھر بعد میں فرض ہوجاتی ہے۔ البتہ یاد رہے کہ شعبہ جات کا تقدس قائم رکھنے کےلیے ''فرض'' اور ''واجب'' کی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔
لیکن پوری جامعہ میں شعبہ تاریخ اسلام اور شعبہ علوم اسلامی کے مابین محبت کے قصے بہت مشہور ہیں۔ یہ قصے منظر عام پر کم ہی آتے ہیں مگر اندر کے لوگ سب جانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ قبر کا حال تو مردہ ہی جانتا ہے۔ کیونکہ یہ بے چارے عام لوگوں کی طرح کھلم کھلا محبت کا اظہار نہیں کرسکتے، ان کو حلال طریقہ اپنانا پڑتا ہے۔
اسی بات پر مجھے اپنے ایک دوست کا قصہ یاد آگیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ میری ایک لڑکی سے ملاقات ''پی جی'' (پریم گلی) کینٹین کے پاس والی مسجد کے سامنے ہوئی تھی۔ اس نے مجھے دیکھا، میں نے اسے دیکھا۔ وہ دھیمے قدم چل کر میرے پاس آنے کو بڑھی، میرے بھی قدم اس کی جانب چلنے لگے۔ اس کی چمکتی آنکھوں پر دو کلو میک اپ لگا ہوا تھا۔ میرے سر پر ٹوپی تھی، اس کا چمکیلا عبایا تھا، میرا سفید کُرتا تھا۔ میں اپنے خیال میں تصور کرنے لگا کہ میں پی جی کے مشہور گول گپے اس کے ساتھ کھا رہا ہوں۔ جیسے ہی وہ قریب آئی، بولی ''سنیے!'' میں اپنے خیالوں سے ہوش میں آگیا ''جی کہیے؟'' وہ کہنے لگی کے میڈم پروین نے جو اسائنمنٹ دیا ہے، اس کے بارے میں ذرا سمجھا دیجیے۔ میرا کلیجہ منہ کو آنے لگا، جسم پر کپکپی طاری تھی، جیسے تیسے میں نے اسے سمجھا کر روانہ کردیا۔
اس دن کے بعد دھیرے دھیرے ہماری بات چیت طول پکڑنے لگی تھی۔ وہ مجھے کہتی تھی ''میں تمہیں اسامہ بن لادن سے بھی زیادہ پیار کروں گی۔'' میں نے کہا ''میں تمہارے لیے حلوہ بھی چھوڑ سکتا ہوں،'' وہ کہتی ''اچھا، قسم کھاؤ!'' میں نے کہا ''اشرافیوں کی طاہری کی قسم،'' تب کہیں جاکر اسے تسلی ہوئی۔ وہ مجھے روز فون کرکے کہتی تھی کہ آپ نے عشاء کی نماز پڑھ لی؟ میں بھی جواب میں ہاں کہہ دے دیتا تھا، اور تہجد کے بعد فون کرنے کا کہہ دیتا تھا، کیونکہ تہجد میں اسے اٹھانے کا ذمہ میرا تھا۔ اگر اسے نہ اٹھاتا، تو وہ مجھے نہ اٹھا دے اس بات کا خطرہ مجھے ہر وقت لاحق رہتا تھا۔ بالآخر میں نے اس بات کو غنیمت سمجھا کہ اس کو اٹھاؤ، نہیں تو خود اٹھ جاؤ گے۔
یوں ہماری زندگی برق رفتار ٹرین کی طرح چل رہی تھی لیکن جب نکاح کا وقت آیا تو وہ کہنے لگی ''طارق جمیل صاحب،'' میں نے کہا نہیں! ''علامہ طاہر القادری صاحب'' اور پھر ہمارے درمیان یہ بحث شدومد کے ساتھ آگے بڑھنے لگی۔ وہ مجھے اسے پار سے کافر کہتی تھی، میں اسے کافر کہتا تھا۔ وہ شعبہ علوم اسلامی کی لڑکی، میں شعبہ تاریخ اسلام کا لڑکا۔ لیکن دل تو دل ہوتا ہے، پھر بھی مانتا ہی نہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں شعبہ جات آمنے سامنے ہی ہیں۔ لگتا ہے اس کہانی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی یہ گانا ''تیرے عشق میں کافر کافر ہوں'' لکھا گیا ہے۔ ویسے ہمارے دوست کی یہ کہانی ہر متشکک انسان کو تشکیکیت میں مبتلا کر دیتی ہے کہ شاعر حضرات اب تک جو اپنی غزلیات میں محبوبہ کو کافر کہتے آرہے تھے، کیا ان کے ساتھ بھی یہ حادثات ہوئے تھے؟ سوالات تو بہت ہیں مگر جواب کی تلاش ہے۔
لہٰذا تمام افراد سے یہ گزارش ہے کہ اپنا اکاؤنٹ دیکھ بھال کر کھولا کریں، دوسروں کے اکاؤنٹ پر قبضہ نہ کریں۔ مطلب آسان ہے کہ اپنے نظريات، عقائد، خاندانی، گھریلو معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی تعلق قائم کیجیے۔ بعد میں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اس رشتے کو نباہ نہ سکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔