علی ظفر کو نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی ایک بہترین گلوکار اور اداکار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ صرف گلوکاری نہیں بلکہ علی وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے بھارت جاکر بالی ووڈ کی صف اول کی اداکاراؤں کترینہ کیف، پرینیتی چوپڑا اور یامی گوتم وغیرہ کے ساتھ کام کیا۔ علی ظفر کی نہ صرف پاکستان میں شہرت بہت اچھی ہے بلکہ بھارت میں بھی انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کئی برس تک بالی ووڈ کی حسیناؤں کے ساتھ کام کرنے کے باوجود ان پر جنسی ہراسانی کا کوئی الزام نہیں لگا۔
دوسری طرف میشا شفیع بھی پاکستان کی مقبول گلوکارہ ہیں جنہوں نے پاکستان کی مشہور اداکارہ صبا حمید کی بیٹی ہونے کے باوجود اپنی پہچان خود بنائی اور اپنی گائیکی سے لوگوں کے دلوں میں اپنا الگ مقام بنایا۔ دونوں فنکار پاکستان شوبز اور گلوکاری کی دنیا کا چمکتا ہوا ستارہ ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک دونوں مختلف پروجیکٹس پر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام بھی کررہے تھے اور دونوں کے تعلقات بھی بہت اچھے تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دونوں کے ستارے خوب عروج پر تھے۔ پھر اچانک ایک ٹویٹ نے پاکستانی میڈیا اورسوشل میڈیا پر طوفان کھڑا کردیا۔ ٹویٹ میشا شفیع کی جانب سے کی گئی تھی جس میں انہوں نے علی ظفر پر ایک سے زائد بار جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا۔
میشا شفیع کا شمار پاکستان کی خود اعتماد اور کامیاب خواتین میں ہوتا ہے جنہیں دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ خاتون اپنے یا دوسروں کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر خاموش رہ سکتی ہیں، بلکہ ان کی خود اعتمادی کو دیکھ کر تو شاید ان کے ساتھ کام کرنے والے مرد حضرات بھی ہراسانی جیسا عمل کرنے سے پہلے 100 بار سوچتے ہوں گے۔ لیکن پاکستان شوبز کی یہ بااختیار، کامیاب، بولڈ اور خوداعتماد خاتون بھی جنسی ہراسانی کا نشانہ بن گئیں اور انہوں نے جس شخص پر ہراسانی کا الزام لگایا، اسے دیکھ کر لوگوں نے دانتوں تلے انگلیاں دبالیں۔
میشا شفیع نے ایک ٹویٹ کے ذریعے بتایا کہ علی ظفر نے انہیں ایک بار نہیں بلکہ کئی بار ہراساں کیا اور انہیں غلط انداز میں چھوا ہے۔ وہ ان واقعات پر اس قدر پریشان ہوئیں کہ ابتدا میں تو کچھ بول ہی نہیں سکیں لیکن اب جب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے تو وہ اپنے ساتھ ہونے والی اس زیادتی پر خاموش نہیں رہ سکتیں لہٰذا انہوں نے ٹوئٹر پر علی ظفر کو ایکسپوز کرتے ہوئے بتایا کہ بے ضرر سا دکھائی دینے والا یہ شخص دراصل اندر سے کس قدر گھٹیا ہے اور خواتین پر بُری نظر رکھتا ہے۔
دوسری جانب میشا شفیع کے اس انکشاف پر لوگ حیران تھے کہ علی ظفر، جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ اس نے کبھی چڑیا بھی نہیں ماری ہوگی، اس نے میشا شفیع جیسی دبنگ عورت کو جنسی طور پر ہراساں کردیا اور ایک بار نہیں بلکہ کئی بار۔ اس واقعے کو ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے لیکن آج بھی لوگ میشا شفیع کے اس انکشاف پر یقین نہیں کرپارہے ہیں کہ علی ظفر جیسا انسان بھی ایسی حرکت کرسکتا ہے۔
میشا شفیع کے اس الزام کے جواب میں علی ظفر نے ٹوئٹر، انسٹاگرام، فیس بک یا ہمارے مرچ مصالحہ بیچنے والے میڈیا کا سہارا لیے بغیر ڈائریکٹ میشا شفیع کے خلاف عدالتی جنگ لڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کورٹ میں کیس دائر کردیا۔ پچھلے ایک سال سے دونوں اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اوردونوں میں سے کوئی بھی اپنے بیان سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ان دونوں میں سے آخر جھوٹ کون بول رہا ہے اور سچ کون چھپا رہا ہے؟ آئیے تجزیہ کرتے ہیں۔
میشا شفیع نے جس ''جیمنگ سیشن'' کا حوالہ دیتے ہوئے علی ظفر پر ہراسانی کا الزام لگایا ہے علی ظفر نے اسی ''جیمنگ سیشن'' کی ویڈیو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کرائی ہے۔ اس ویڈیو اور علی ظفرکے بیان کے مطابق ان دونوں کے علاوہ اس وقت وہاں کئی لوگ موجود تھے۔ سوال یہ ہے کہ اتنے سارے لوگوں کی موجودگی میں علی ظفر نے میشا شفیع کو جنسی طور پر ہراساں کردیا اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ میشا شفیع نے کوئی مزاحمت بھی نہیں کی۔ یہاں تک کہ جیمنگ سیشن ختم ہوگیا اور میشا کے چہرے پر کوئی شکن تک نہ آئی۔ میشا اس وقت اتنی پرسکون تھیں کہ انہوں نے وہاں موجود لوگوں کو بھی شک نہیں ہونے دیا کہ علی ظفر غلط انداز سے چھو رہے ہیں۔
میشا شفیع کے جھوٹ کا پول تو علی ظفر کے ان اسکرین شاٹس نے بھی کھول دیا ہے جو میشا نے جیمنگ سیشن اور کنسرٹ کے بعد اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے شیئر کیے تھے۔ ایک انٹرویو کے دوران جب پاکستان کے ایک ''نمبر ون'' ٹی وی چینل کے معروف میزبان نے میشا شفیع سے ان اسکرین شاٹس کے حوالے سے سوال کیا تو میشا بہت ہی صفائی سے جھوٹ بول گئیں کہ انہوں نے یہ پیغامات علی ظفر کو نہیں بھیجے تھے بلکہ شو آرگنائز کرنے والی انتظامیہ کو کیے تھے اور ان پیغامات میں 'جیمنگ' کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ لیکن پیغامات کے اسکرین شاٹس دیکھے جائیں تو ان میں صاف اور واضح الفاظ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ میشا شفیع نے علی ظفر کا نام لیتے ہوئے بطور خاص اس ''جیمنگ سیشن'' کا حوالہ دیا، جس میں انہیں مبینہ طور پر جنسی ہراسانی کا شکار بنایا گیا تھا؛ اور اس وقت کو پُرمسرت قرار دیا۔
آخر ایک خاتون کس طرح اس وقت کو اچھے الفاظ میں یاد کرسکتی ہے جہاں اس کے ساتھ غلط حرکت ہوئی ہو اور اسے ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا ہو؛ اور آخر کیسے اس شخص کا شکریہ ادا کرسکتی ہے جس نے اس کے ساتھ ایسا غلط فعل کیا ہو؟ میری نظر میں دنیا کی کوئی عورت اپنے ساتھ غلط حرکت کرنے والے شخص کا نام لے کر اچھے الفاظ ادا نہیں کرے گی اور نہ ہی یہ کہے گی کہ واہ! کتنے مزے کا شو تھا، ''ایسا شو آرگنائز کرنے کےلیے بہت شکریہ، آئندہ بھی ہم ایسے شو کریں گے!'' کیا کوئی عورت جنسی طور پر ہراساں ہونے کے بعد دوبارہ اسی طرح کی تقریب کا اہتمام کرنے کا کہہ سکتی ہے؟
اب بات کرتے ہیں میشا شفیع اور علی ظفر کی میڈیا پر گردش کرنے والی ان تصاویر کی، جن میں نہ صرف دونوں ایک دوسرے کے انتہائی قریب کھڑے ہیں بلکہ میشا شفیع تو علی ظفر کے ساتھ مختصر کپڑوں میں بہت خوشی سے تصاویر بنوارہی ہیں اور ان کے چہرے پر ایک شکن تک نظر نہیں آرہی۔ تو میشا جی، جب آپ مختصر کپڑوں میں علی کے ساتھ انتہائی قریب ہوکر تصویریں بنوارہی تھیں تو اس وقت آپ کو ''می ٹو'' مہم یاد نہیں آئی اور نہ ہی آپ کو علی ظفر نے ہراساں کیا؟
علی ظفر کئی بار کہہ چکے ہیں کہ میشا شفیع کے پاس اپنی بات ثابت کرنے کےلیے کوئی ثبوت نہیں، لہٰذا وہ مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے ہراسانی کے کیس کو بلاوجہ طول دے رہی ہیں۔ اب اس کے پیچھے ان کا کیا مقصد ہے؟ یہ تو وہی جانتی ہیں۔ تاہم میشا کی ان حرکتوں کی وجہ سے علی ظفر کو ذہنی، مالی اور نفسیاتی نقصان پہنچا ہے اور وہ اس اسکینڈل کی وجہ سے کئی بین الاقوامی کنٹریکٹس سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ دوسری جانب میڈیا پر گردش کرنے والے پیغامات کے اسکرین شاٹس اور میشا شفیع کی جانب سے دیئے گئے انٹرویوز کی روشنی میں واضح ہورہا ہے کہ دونوں میں سے کون جھوٹ بول رہا ہے اور کون سچ۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔