ملک میں پھولوں کی کاشت کا سب سے بڑا مرکز ریسرچ سینٹر سے محروم

نئی تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے کاشتکار بھارتی اقسام کے پھول کاشت کرنے پر مجبور


May 07, 2019
پاکستان میں پتوکی پھولوں کا مرکز مانا جاتا ہے، فوٹو: ایکسپریس

پاکستان میں پھولوں کی کاشت کا سب سے بڑا مرکز پتوکی ریسرچ سینٹر اور کولڈ اسٹوریج کی سہولت سے محروم ہے جس کی وجہ سے کاشت کار پھولوں کی چند روایتی قسمیں ہی کاشت کررہے ہیں جب کہ اسٹوریج کی سہولت نہ ہونے سے روزانہ کئی من پھول ضائع ہوجاتے ہیں، نئی تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے کاشتکار بھارتی اقسام کے پھول کاشت کرنے پرمجبور ہیں۔

پاکستان میں پتوکی پھولوں کا مرکز مانا جاتا ہے، اسے سٹی آف فلاورزبھی کہتے ہیں جہاں گلاب کی بھارتی اقسام سمیت کئی طرح کے گلیڈ ، موتیا، چنبیلی اوررات کی رانی کے پھول کاشت کئے جارہے ہیں۔ تحصیل پتوکی میں واقع ایک درجن کے قریب دیہات میں پھولوں کی کاشت کی جارہی ہے اور سب سے زیادہ نرسریاں بھی اسی علاقے میں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تحصیل پتوکی میں 40 سے 50 فیصد مقامی خاندانوں کا ذریعہ معاش نرسریوں اور پھولوں کی کاشت سے وابستہ ہے جبکہ پاکستان میں 7 لاکھ افراد اس کاروبار سے جڑے ہیں۔



پتوکی کے مقامی رہائشی ندیم مصطفائی نے بتایا کہ یہ خطہ پھولوں کی کاشت کے حوالے سے انتہائی زرخیزہے، لوگ مختلف فصلوں اورسبزیوں کی کاشت چھوڑ کر اب مختلف اقسام کے پھولوں کی کاشت کررہے ہیں، اس کاروبار نے مقامی لوگوں کو خوشحال کردیا ہے، پاکستان میں سب سے زیادہ پھول اورپودے یہاں کاشت ہوتے اور پھر ملک بھر میں سپلائی کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں پھولوں کی باغبانی اور نرسریوں کا رواج گزشتہ کئی سال سے تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ گلاب، گلیڈ، موتیا ، چنبیلی اور دیگر پھولوں کی پنکھڑیوں کو شادی بیاہ، کانفرنسز، میٹنگز ہالز اور دیگر تقریبات کے لیے گلدانوں میں خوبصورتی کے لیے رکھا جاتا ہے۔پاکستان کی نرسریوں میں کاشت ہونے والے پھولوں کو نہ صرف ایشائی ممالک بلکہ یورپی ممالک میں بھی بھیجا جاتا ہے۔



گلاب اور گلیڈ کی کاشت کرنیوالے میاں شفقت علی کا کہنا تھا اس علاقے میں سب سے زیادہ گلاب اورگلیڈکاشت ہوتا ہے ، گلاب کی 100 سے زائد اقسام ہیں جبکہ گلیڈ کی بھی کئی قسمیں کاشت کی جارہی ہیں۔ان پھولوں کا بیج ہالینڈ سے منگوایا جاتا ہے جب کہ اب مقامی سطح پربھی بیج تیارہوتاہے۔ کٹ فلاور کا رحجان بہت زیادہ ہے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہاں کاشت ہونے والے پھول ٹرین کے ذریعے کراچی ،اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف حصوں میں بھیجے جاتے ہیں۔افغانستان سمیت کئی ممالک میں بھی پاکستانی پھول بھیجے جاتے ہیں۔



گزشتہ کئی برسوں سے نرسری کے کاروبارسے جڑے سخاوت علی بتایا کہ اس علاقے میں نرسریوں کا آغاز 25 ،30 سال پہلے حادثاتی طور پر ہوا، پتوکی کے رہائشی ایک بزرگ نے نہر میں بہتی پھول کی ایک ٹہنی کو پکڑ کر اپنے ڈیرے پر کاشت کیا اور چند ہی دنوں میں اس ٹہنی سے کونپلیں نکلنا شروع ہوگئیں، اس طرح یہاں نرسری کا آغاز ہوا اور آج تحصیل پتوکی کے ایک درجن دیہات میں سیکڑوں نرسریاں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے یہا ں زیادہ تر گلاب کی بھارتی اقسام کاشت کی جارہی ہیں کیونکہ بھارت میں اس شعبے پر خاصی تحقیق کی گئی ہے۔ گلاب کے ایک ہی پودے سے مختلف رنگوں کے پھول حاصل کرنے کے لئے پودوں کو کیمیکل کے انجیکشن لگاناپڑتے ہیں لیکن ہمارے یہاں ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہے ہم روایتی اندازمیں ہی پھول کاشت کررہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت تحصیل پتوکی میں تقریباً 5 ہزار ایکڑ رقبے پرمختلف اقسام کا گلاب جب کہ 400 ایکڑ پر گلیڈ کاشت کیا جارہا ہے، ایک ایکڑ میں لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ تک بیج لگایا جاتا ہے۔ بیج کو کھیلیوں میں لگایا جاتا ہے اور ان کے درمیان تقریباً دو فٹ کا فاصلہ رکھا جاتا ہے، ایک ایکڑ گلیڈ کاشت کرنے پر تقریباً پانچ لاکھ روپے خرچہ آتا ہے اور اس سے تقریباً 3 سے 6 لاکھ روپے تک منافع حاصل ہوتا ہے۔



مقامی کاشت کار سید افضل حسین نے ایکسپریس کو بتایا کہ پھولوں کی کاشت کے شعبے میں جدت اور تحقیق کی ضرورت ہے ، پتوکی پاکستان میں پھولوں کی کاشت کا سب سے بڑا مرکز ہے مگر یہاں کوئی ریسرچ سینٹر ہے اور نہ ہی پھولوں کو محفوظ رکھنے کے لئے کوئی کولڈ اسٹور ہے، پھولوں کی عمرچند گھنٹے ہوتی ہے ۔ٹرانسپوٹیشن کے دوران بڑی مقدارمیں پھول ضائع ہوجاتے ہیں ، اگر یہاں کولڈ اسٹور بن جائے تو کاشت کار اس نقصان سے بچ سکتے ہیں۔



سید افضل حسین نے بتایا پاکستان میں پھولوں کی کاشت کے بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مارکیٹ میں اس کی ڈیمانڈ بڑی تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ شادی ہالوں میں اسٹیج ڈیکوریشن کے لئے پھولوں کی طلب میں اچھا خاصا اضافہ ہو رہا تھا۔ اسی طرح شادی بیاہ میں بھی گلاب کے پھولوں کے ہار، ریشمی ہاروں کی جگہ لے رہے تھے۔ دلہا کی گاڑیوں پر قدرتی پھول لگانے کے علاوہ مختلف تقریبات میں پھولوں کے گلدستے پیش کرنے کے رواج میں بھی پچھلے ایک ڈیڑھ عشرے میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں