شاید کہ اُتر جائے تیرے دل میں میری بات
ہم یہ نہیں کہتے کہ ہماری عدالتوں نے ہمیشہ درست اور صحیح فیصلے کیے۔
ہماری قوم اور ہمارے لوگوں کی یہ عادت سی بن گئی ہے کہ ہماری عدالتیں جب کسی مقدمے میں ایک فریق کوکچھ ریلیف دینے لگتی ہے تو وہ اُن ہی عدالتوں کے خلاف دشنام طرازی اورہرزہ سرائی کرنے لگتے ہیں جن کے فیصلوں کی وہ ابھی کچھ ماہ قبل ہی تعریف وتوصیف میں زمین وآسمان کے قلابے ملا رہے ہوتے تھے۔
عدالتوں کے فیصلوں پر تنقید یقینا کی جا سکتی ہے لیکن اُن کا تمسخر ہرگز اُڑایا نہیں جا سکتا۔ اُن عدالتوں کے منصف بھی بہرحال ہماری طرح کے انسان ہوا کرتے ہیں اُن سے بھی کچھ معاملات میں غلطی ہوسکتی ہے۔ وہ بھی کسی انجانے نادیدہ خوف کا شکار ہوسکتے ہیں یا پھر اُن کے اپنے بھی کچھ ذاتی خیالات اور احساسات ہوسکتے ہیں۔ اُن کے بھی کچھ سیاسی نظریات اور وابستگیاں ہو سکتی ہیں۔اُن کی بھی کچھ مصلحتیں اور مجبوریاں ہوسکتی ہیں۔ایسا قطعاً نہیں ہوسکتا کہ اُن کا ہر فیصلہ دونوں فریق کے لیے قابل قبول ہے۔کسی نہ کسی فریق کو اُن فیصلوں پر اعتراض یقینی اور فطری ہے۔
میاں نواز شریف کے خلاف جب اعلیٰ عدالتوں سے فیصلے آنا شروع ہوئے تو اُن کے بارے میں بھی بہت سے لوگوں کو تحفظات تھے۔خود عدل وانصاف سے وابستہ افراد بھی اُن فیصلوں کو انصاف کے مقررکردہ اعلیٰ اُصولوں کے برعکس اور غیر منطقی قرار دے رہے تھے، لیکن بہرحال اُن پر من و عن عملدرآمد بھی ہوا۔ مگر آج جب انھیں اُن کی اپیلوں پر عدالتیں نظر ثانی کرتے ہوئے اُن کی سزاؤں میں کچھ نرمی برت رہی ہے تو فریق ثانی کی جانب سے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ایک طوفان بد تمیزی برپا ہونے لگا ۔ اعلیٰ عدالتوں کے معزز ججوں کے خلاف فحش مغلظات اور انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے جانے لگے۔انھیں گندے گندے جملوں اورالقابات سے نوازا جانے لگا۔
ہمارے لوگوں کی فطرت ہے کہ وہ ہر اُس معاملے میں اپنی ٹانگ ضرور لڑایا کرتے ہیں جن کے بارے میںوہ ایک لفظ بھی نہیں جانتے۔کرکٹ ہی کو لے لیجیے۔کسی بھی بڑے ایونٹ کے میچوں پر ہمارے لوگوں کا تبصرہ ایک ضروری فرض اور ذمے داری بن چکا ہے۔ جن نے زندگی بھر کرکٹ نہیں کھیلی وہ اپنے قیمتی خیالات کے اظہار اور تبصرہ نگاری میں کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا، وہ گرچہ کرکٹ کے بارے میں الف ب تک نہیں جانتا مگر تبصرہ کرتے ہوئے وہ ماہر کرکٹ اور بہت بڑا دانشور بناہوا ہوتا ہے۔
اِسی طرح عدل وانصاف اور قانون کے بارے میں جس نے ایک کتاب بھی پڑھی نہیں ہوتی وہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں پر تنقید کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور تو اور اُس نے اِس ملک کے دستور اور آئین کی کسی ایک شق کا بھی کبھی مطالعہ نہیں کیا ہوتا ہے اور باتیں بڑی بڑی کر رہا ہوتا ہے۔ عدالتوں کو بازار حسن سے تشبیح دیتے ہوئے اُسے لمحہ بھر کے لیے احساس نہیں ہوتا کہ وہ یہ کہہ کر گندی سوچ اور گندی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود ننگا اوربے لباس ہو رہا ہوتا ہے۔سوشل میڈیا لوگوں کو اگر اظہار کی آزادی کاموقعہ فراہم کرتا ہے تو اُسے مثبت طریقے سے استعمال کرنا چاہیے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ ہماری عدالتوں نے ہمیشہ درست اور صحیح فیصلے کیے۔ عدلیہ کی تاریخ مصلحت آمیزاور دباؤ زدہ فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔'' نظریہ ضرورت'' بھی کبھی ہماری عدالتوں کامؤثر ہتھیار ہوا کرتا تھا۔ مشہور زمانہ نواب محمد خان کیس جس میں ایک وزیر اعظم کو پھانسی کے تختہ پر لٹا دیا گیا، ہماری عدلیہ کی تاریخ کا ایک ایسا بدنما داغ ہے جسے ہزاروں درست فیصلے کرکے بھی دھویا نہیں جاسکتا۔ جسٹس محمد منیر کی عدالت سے لے کر جسٹس ثاقب نثار تک ہر عدالت کے فیصلوں پر اعتراضات کیے جاتے رہے۔ اُن کی حمایت اور مخالفت میں نظائر اوردلائل کے انبار لگائے جا رہے ہیں مگر کوئی اِنہیں رد اور مسترد نہیں کرسکا۔ اِنہیں اگر رد کرسکتی ہے تو وہ خود اعلیٰ عدلیہ ہی ہے۔
عدلیہ چاہے تو نظر ثانی کرتے ہوئے اپنے فیصلوں کو تبدیل یا مکمل رد بھی کر سکتی ہے۔ابھی ہماری حالیہ عدالت عظمیٰ نے سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں کیے گئے پانچ فیصلوں کو اب تک بدل ڈالا ہے یا یکسر UNDOکرڈالا ہے۔ جس میں سے ایک فیصلہ موبائل فون کارڈز پر ختم کیاجانے والا وہ ٹیکس ہے جسے اب ہماری اِس معزز عدالت نے واپس لاگو کردیا ہے۔
عدالت کے اِس فیصلے سے موبائل فون استعمال کرنے والے کروڑوں لوگوں کو مالی نقصان تو پہنچ رہا ہے لیکن پی ٹی آئی حکومت کو اِس فیصلے ٹیکس کی مد میں اربوں روپے کی اضافی آمدنی ہونے لگی ہے ۔ یہی وہ ٹیکس ہے جسے وہ پچھلے حکمرانوں پر تنقید کرتے ہوئے اُسے عوام کی جیبوں میں ڈاکہ ڈالنے کے مترادف قراد دیاکرتے تھے مگر اب خود بڑے اطمینان سے اِن فیصلوں کے ثمرات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف آئین کی شق 62 اور 3 6 کے تحت نااہلی بذات خود ایک متنازعہ فیصلہ ہے۔ پانامہ کیس سے شروع ہونے والے اِس مقدمہ میں اقامہ رکھنے پر سزا سنانا قانون کی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کے لیے یقینا حیران کن تھا۔ جے آئی ٹی کی دو ماہ کی انتھک مشقت کے بعد دس جلدوں پر مبنی شواہد اور ثبوتوں کی طویل فہرست میں سے اگر قابل تعزیر کوئی مواد ملا بھی تو وہ صرف دبئی کا اقامہ ملا ۔اُن پرکرپشن کے بے تحاشہ الزمات تو ضرور لگائے گئے لیکن عدلیہ کے کسی فیصلے میں انھیں اِس کامجرم قرار دیکر کوئی سزا سنائی نہیں گئی۔
دیکھا جائے تو اُن کو سنائی جانے والی پوری سزا ہی عدل وانصاف اور قانون کے کمزور ستونوں پر کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ جن کا واپس ہونا فطری اوریقینی طور پر حالات اور منظر نامہ کی تبدیلی سے وابستہ اور منسلک ہے۔ جیسے جیسے حالات میاں صاحب کے لیے مثبت اور بہتر ہوتے جائیں گے ممکنہ طور پر یہ فیصلے بھی ویسے ویسے واپس ہوتے جائیںگے۔اِس میں حقائق سے زیادہ ہمارے یہاں کے اُس نظام کا عمل دخل ہے جو عرصہ دراز سے اِس مملکت پاکستان کو مضبوطی سے جکڑے ہوئے ہے۔ میاں صاحب نے طاقت اور اختیار کے بلند وبالا مضبوط میناروں سے سر ٹکرایا تھا۔اُس کی سزا تو انھیں بہر حال ملنی ہی تھی۔
جیل کی چند ماہ کی قید تنہائی نے اُن کی ساری خود سری اور باغیانہ سوچ ختم کر ڈالی ہے اور وہ اب نہ کھل کر اورجی بھر کے رو سکتے ہیں اور نہ ہنس سکتے ہیں۔لہذا پر اسرار خاموشی کو انھوں نے اب اپنا ہتھیار بنالیا ہے۔''شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات'' کے مصداق اپنی اِس خاموشی سے مقتدر قوتوں کو مفاہمت اور دوستی کا کچھ پیغام دینا چاہتے ہیں جو رفتہ رفتہ پہنچ بھی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے تمام اہل خانہ اور رفقاء ایک ایک کرکے جیل سے باہر آچکے ہیں اور اب صرف وہی اندر باقی ہیں ۔آیندہ آنے والے دنوں میں بہت ممکن ہے کہ وہ بھی کسی ایسے ہی فیصلے کے ذریعے نہ صرف باعزت طور پر رہا ہو جائیں گے اور ہوسکتا ہے علاج کی غرض سے دیار غیر کو بھی کوچ کر جائیںگے ۔
رہ گیا سوال کہ خان صاحب کا وہ دعویٰ کہ میں کسی کو این آر او نہیں دونگا ، کرسی چلی جائے لیکن کسی کو چھوڑوں گا نہیں۔ ماضی میں کیے گئے اُن کے دیگر دعوؤں کی طرح یوٹرن کی عظمتوں میں جھولنے لگے گا۔ خان صاحب کے پاس توخود نہ کسی کو سزا دینے کا اختیار ہے اور نہ معاف کرنے کا ۔ وہ بے چارے تو اتنے بے بس اور مجبور ہیں کہ اپنے سب سے عزیز اور قابل سمجھے جانے والے اوپننگ بیٹس مین اسد عمرکو بھی بچا نہیں سکے وہ بھلاکسی کو کیا سزا دلوا پائیں گے ۔ وہ محض جذباتی تقریروں سے نہ صرف اپنا دل بہلایا کرتے ہیں بلکہ اپنے ساتھیوں اور ووٹروں کا بھی حوصلہ بڑھایا کرتے ہیں ۔
عدالتوں کے فیصلوں پر تنقید یقینا کی جا سکتی ہے لیکن اُن کا تمسخر ہرگز اُڑایا نہیں جا سکتا۔ اُن عدالتوں کے منصف بھی بہرحال ہماری طرح کے انسان ہوا کرتے ہیں اُن سے بھی کچھ معاملات میں غلطی ہوسکتی ہے۔ وہ بھی کسی انجانے نادیدہ خوف کا شکار ہوسکتے ہیں یا پھر اُن کے اپنے بھی کچھ ذاتی خیالات اور احساسات ہوسکتے ہیں۔ اُن کے بھی کچھ سیاسی نظریات اور وابستگیاں ہو سکتی ہیں۔اُن کی بھی کچھ مصلحتیں اور مجبوریاں ہوسکتی ہیں۔ایسا قطعاً نہیں ہوسکتا کہ اُن کا ہر فیصلہ دونوں فریق کے لیے قابل قبول ہے۔کسی نہ کسی فریق کو اُن فیصلوں پر اعتراض یقینی اور فطری ہے۔
میاں نواز شریف کے خلاف جب اعلیٰ عدالتوں سے فیصلے آنا شروع ہوئے تو اُن کے بارے میں بھی بہت سے لوگوں کو تحفظات تھے۔خود عدل وانصاف سے وابستہ افراد بھی اُن فیصلوں کو انصاف کے مقررکردہ اعلیٰ اُصولوں کے برعکس اور غیر منطقی قرار دے رہے تھے، لیکن بہرحال اُن پر من و عن عملدرآمد بھی ہوا۔ مگر آج جب انھیں اُن کی اپیلوں پر عدالتیں نظر ثانی کرتے ہوئے اُن کی سزاؤں میں کچھ نرمی برت رہی ہے تو فریق ثانی کی جانب سے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ایک طوفان بد تمیزی برپا ہونے لگا ۔ اعلیٰ عدالتوں کے معزز ججوں کے خلاف فحش مغلظات اور انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے جانے لگے۔انھیں گندے گندے جملوں اورالقابات سے نوازا جانے لگا۔
ہمارے لوگوں کی فطرت ہے کہ وہ ہر اُس معاملے میں اپنی ٹانگ ضرور لڑایا کرتے ہیں جن کے بارے میںوہ ایک لفظ بھی نہیں جانتے۔کرکٹ ہی کو لے لیجیے۔کسی بھی بڑے ایونٹ کے میچوں پر ہمارے لوگوں کا تبصرہ ایک ضروری فرض اور ذمے داری بن چکا ہے۔ جن نے زندگی بھر کرکٹ نہیں کھیلی وہ اپنے قیمتی خیالات کے اظہار اور تبصرہ نگاری میں کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا، وہ گرچہ کرکٹ کے بارے میں الف ب تک نہیں جانتا مگر تبصرہ کرتے ہوئے وہ ماہر کرکٹ اور بہت بڑا دانشور بناہوا ہوتا ہے۔
اِسی طرح عدل وانصاف اور قانون کے بارے میں جس نے ایک کتاب بھی پڑھی نہیں ہوتی وہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں پر تنقید کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور تو اور اُس نے اِس ملک کے دستور اور آئین کی کسی ایک شق کا بھی کبھی مطالعہ نہیں کیا ہوتا ہے اور باتیں بڑی بڑی کر رہا ہوتا ہے۔ عدالتوں کو بازار حسن سے تشبیح دیتے ہوئے اُسے لمحہ بھر کے لیے احساس نہیں ہوتا کہ وہ یہ کہہ کر گندی سوچ اور گندی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود ننگا اوربے لباس ہو رہا ہوتا ہے۔سوشل میڈیا لوگوں کو اگر اظہار کی آزادی کاموقعہ فراہم کرتا ہے تو اُسے مثبت طریقے سے استعمال کرنا چاہیے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ ہماری عدالتوں نے ہمیشہ درست اور صحیح فیصلے کیے۔ عدلیہ کی تاریخ مصلحت آمیزاور دباؤ زدہ فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔'' نظریہ ضرورت'' بھی کبھی ہماری عدالتوں کامؤثر ہتھیار ہوا کرتا تھا۔ مشہور زمانہ نواب محمد خان کیس جس میں ایک وزیر اعظم کو پھانسی کے تختہ پر لٹا دیا گیا، ہماری عدلیہ کی تاریخ کا ایک ایسا بدنما داغ ہے جسے ہزاروں درست فیصلے کرکے بھی دھویا نہیں جاسکتا۔ جسٹس محمد منیر کی عدالت سے لے کر جسٹس ثاقب نثار تک ہر عدالت کے فیصلوں پر اعتراضات کیے جاتے رہے۔ اُن کی حمایت اور مخالفت میں نظائر اوردلائل کے انبار لگائے جا رہے ہیں مگر کوئی اِنہیں رد اور مسترد نہیں کرسکا۔ اِنہیں اگر رد کرسکتی ہے تو وہ خود اعلیٰ عدلیہ ہی ہے۔
عدلیہ چاہے تو نظر ثانی کرتے ہوئے اپنے فیصلوں کو تبدیل یا مکمل رد بھی کر سکتی ہے۔ابھی ہماری حالیہ عدالت عظمیٰ نے سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں کیے گئے پانچ فیصلوں کو اب تک بدل ڈالا ہے یا یکسر UNDOکرڈالا ہے۔ جس میں سے ایک فیصلہ موبائل فون کارڈز پر ختم کیاجانے والا وہ ٹیکس ہے جسے اب ہماری اِس معزز عدالت نے واپس لاگو کردیا ہے۔
عدالت کے اِس فیصلے سے موبائل فون استعمال کرنے والے کروڑوں لوگوں کو مالی نقصان تو پہنچ رہا ہے لیکن پی ٹی آئی حکومت کو اِس فیصلے ٹیکس کی مد میں اربوں روپے کی اضافی آمدنی ہونے لگی ہے ۔ یہی وہ ٹیکس ہے جسے وہ پچھلے حکمرانوں پر تنقید کرتے ہوئے اُسے عوام کی جیبوں میں ڈاکہ ڈالنے کے مترادف قراد دیاکرتے تھے مگر اب خود بڑے اطمینان سے اِن فیصلوں کے ثمرات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف آئین کی شق 62 اور 3 6 کے تحت نااہلی بذات خود ایک متنازعہ فیصلہ ہے۔ پانامہ کیس سے شروع ہونے والے اِس مقدمہ میں اقامہ رکھنے پر سزا سنانا قانون کی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کے لیے یقینا حیران کن تھا۔ جے آئی ٹی کی دو ماہ کی انتھک مشقت کے بعد دس جلدوں پر مبنی شواہد اور ثبوتوں کی طویل فہرست میں سے اگر قابل تعزیر کوئی مواد ملا بھی تو وہ صرف دبئی کا اقامہ ملا ۔اُن پرکرپشن کے بے تحاشہ الزمات تو ضرور لگائے گئے لیکن عدلیہ کے کسی فیصلے میں انھیں اِس کامجرم قرار دیکر کوئی سزا سنائی نہیں گئی۔
دیکھا جائے تو اُن کو سنائی جانے والی پوری سزا ہی عدل وانصاف اور قانون کے کمزور ستونوں پر کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ جن کا واپس ہونا فطری اوریقینی طور پر حالات اور منظر نامہ کی تبدیلی سے وابستہ اور منسلک ہے۔ جیسے جیسے حالات میاں صاحب کے لیے مثبت اور بہتر ہوتے جائیں گے ممکنہ طور پر یہ فیصلے بھی ویسے ویسے واپس ہوتے جائیںگے۔اِس میں حقائق سے زیادہ ہمارے یہاں کے اُس نظام کا عمل دخل ہے جو عرصہ دراز سے اِس مملکت پاکستان کو مضبوطی سے جکڑے ہوئے ہے۔ میاں صاحب نے طاقت اور اختیار کے بلند وبالا مضبوط میناروں سے سر ٹکرایا تھا۔اُس کی سزا تو انھیں بہر حال ملنی ہی تھی۔
جیل کی چند ماہ کی قید تنہائی نے اُن کی ساری خود سری اور باغیانہ سوچ ختم کر ڈالی ہے اور وہ اب نہ کھل کر اورجی بھر کے رو سکتے ہیں اور نہ ہنس سکتے ہیں۔لہذا پر اسرار خاموشی کو انھوں نے اب اپنا ہتھیار بنالیا ہے۔''شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات'' کے مصداق اپنی اِس خاموشی سے مقتدر قوتوں کو مفاہمت اور دوستی کا کچھ پیغام دینا چاہتے ہیں جو رفتہ رفتہ پہنچ بھی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے تمام اہل خانہ اور رفقاء ایک ایک کرکے جیل سے باہر آچکے ہیں اور اب صرف وہی اندر باقی ہیں ۔آیندہ آنے والے دنوں میں بہت ممکن ہے کہ وہ بھی کسی ایسے ہی فیصلے کے ذریعے نہ صرف باعزت طور پر رہا ہو جائیں گے اور ہوسکتا ہے علاج کی غرض سے دیار غیر کو بھی کوچ کر جائیںگے ۔
رہ گیا سوال کہ خان صاحب کا وہ دعویٰ کہ میں کسی کو این آر او نہیں دونگا ، کرسی چلی جائے لیکن کسی کو چھوڑوں گا نہیں۔ ماضی میں کیے گئے اُن کے دیگر دعوؤں کی طرح یوٹرن کی عظمتوں میں جھولنے لگے گا۔ خان صاحب کے پاس توخود نہ کسی کو سزا دینے کا اختیار ہے اور نہ معاف کرنے کا ۔ وہ بے چارے تو اتنے بے بس اور مجبور ہیں کہ اپنے سب سے عزیز اور قابل سمجھے جانے والے اوپننگ بیٹس مین اسد عمرکو بھی بچا نہیں سکے وہ بھلاکسی کو کیا سزا دلوا پائیں گے ۔ وہ محض جذباتی تقریروں سے نہ صرف اپنا دل بہلایا کرتے ہیں بلکہ اپنے ساتھیوں اور ووٹروں کا بھی حوصلہ بڑھایا کرتے ہیں ۔