280 ڈی ایس پیز کی ترقی کیلیے ہونیوالے اجلاس کیخلاف حکم امتناع

خاتون ڈی ایس پی کی درخواست پر چیف سیکریٹری،سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری سروسز سمیت دیگرکو نوٹس جاری

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ انھوں نے ستمبر1979میں محکمہ پولیس میں شمولیت اختیار کی. فوٹو: فائل

سندھ ہائیکورٹ نے انسپکٹر جنرل پولیس سندھ کو 280ڈی ایس پیز کی ترقی کیلیے ڈپارٹمینٹل پروموشن کمیٹی(ڈی پی سی)کا اجلاس منعقد کرنے سے روک دیا۔

فاضل عدالت نے ڈپارٹمینٹل پروموشن کمیٹی کے آئندہ ماہ ہونے والے اجلاس کے خلاف خاتون ڈی ایس پی عذرامیمن کی درخواست پر چیف سیکریٹری،سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری سروسز سمیت دیگرکو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب داخل کرنے کی ہدایت کی ہے، ان 280ڈی ایس پیز میں وہ پولیس افسران بھی شامل ہیں جنھیں پہلے بھی ایس پی اور ایس ایس پی کے عہدے پر آوٹ آف ٹرن پروموشن دی گئی تھی لیکن سپریم کورٹ کے حکم پر ان کی تنزلی عمل میں آئی، درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ انھوں نے ستمبر1979میں محکمہ پولیس میں شمولیت اختیار کی، 15اگست 1992کو انسپکٹر کے عہدہ پر مستقل کیا گیا بعدازاں 2فروری2010کوخواتین پولیس افسران کو جنرل کیڈرمیں ضم کرلیا گیا۔




درخواست میں کہا گیا ہے کہ محکمہ داخلہ نے فروری1998میں پولیس میں خواتین پولیس کیڈر بھی قائم کردیا تھا،ڈپارٹمینٹل پروموشن کمیٹی نے 2مارچ 2010 کودرخواست گزار کوسنیارٹی اور فٹنس کی بنیادپر ڈی ایس پی کے عہدہ پر ترقی اور سندھ سول سرونٹس 1975کے رول13 کے تحت تمام مراعات کی بھی منظوری دی تھی جس کا اطلاق 13فروری2002سے کیا گیا، درخواست میں کہا گیا ہے کہ 1998میں جاری کردہ سینیارٹی لسٹ میں درخواست گزار کا نام 9ویں جبکہ ڈی ایس پی سمیعہ ظفر کا نام دسویں نمبر پر تھا۔

جبکہ15اگست2013کو جاری کردہ سینیارٹی لسٹ میں ڈی ایس پی سمعیہ ظفرکانام پہلے جبکہ درخواست گزار کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہوئے اس کا نام62ویں نمبر پررکھا گیا ہے، ڈی پی سی کا اجلاس منعقد ہونے والا ہے جس میں280ڈی ایس پیز کی ایس پی کے عہدہ پر ترقی کیلیے ناموں پرغور کیا جائے گا، اس طرح درخواست گزار کی ترقی متاثر ہوگی اور جونیئر افسران ترقی حاصل کرلیں گے جو کہ غیر قانونی ہے،درخواست گزار نے کہا ہے کہ محکمہ پولیس نے اس فہرست پراعتراض داخل کرنے کیلیے ایک ماہ کی مہلت دی ہے جو کہ 15ستمبرکو ختم ہورہی ہے،درخواست گزار کی استدعاپر غور کیا جائے اور ایس پی کے عہدہ پر ترقی کے لیے نام پر بھی غور کرنے کی ہدایت کی جائے۔
Load Next Story