اصولی سیاست کا فقدان
بلوچستان کی بی این پی مینگل کی قومی اسمبلی کی چند نشستوں کے ووٹ لینے کے لیے عمران خان نے سردار اختر سے معاہدہ کیا تھا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ ملک میں اصولی سیاست کی روایت ختم ہو چکی ہے اور ان لوگوں کو سیاست میں لایا گیا ہے جنھیں سیاست کا کوئی علم نہیں ہے۔ آج سیاست میں وعدے کر لیے جاتے ہیں مگر پورے نہیں کیے جاتے۔
انھوں نے واضح کیا کہ عمران خان نے بھی حکومت بنانے سے قبل ہم سے کچھ وعدے کیے تھے مگر ایک بھی پورا نہیں کیا گیا۔ حکومت کو 8 ماہ ہو چکے ہیں اور چار ماہ بعد ہم حکومت کے وعدوں سے انحراف کے نتیجے میں حکومت کی حمایت چھوڑ دیں گے۔
سردار اختر مینگل کا تعلق اگرچہ سب سے چھوٹے صوبے سے ہے مگر وہ ملک کے ان چند اصول پرست سیاستدانوں میں شامل ہیں جو مفادات کے لیے اپنے اصولوں کے تحت اپنے مطالبات کے لیے حکومت میں شامل ہوتے ہیں اور حکومتوں کی وعدہ خلافی پر حکومت کی حمایت ترک کرنے میں تاخیر نہیں کرتے۔سردار مینگل کے والد سردار عطا اللہ مینگل نے بھی بھٹو دور میں بلوچستان میں حکومت بنائی تھی جس میں جے یو آئی بھی شامل تھی۔
کچھ عرصے بعد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے وعدہ خلافی کر کے مینگل حکومت برطرف کر کے گورنر راج لگا کر اپنی حکومت بنوا لی تھی۔ بھٹوکی وعدہ خلافی پر اس وقت کے سرحد صوبے کے جے یو آئی کے وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمود نے استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ بلوچستان اور سرحد میں جے یو آئی اور نیشنل عوامی پارٹی کی مخلوط حکومت تھی۔ بلوچستان میں سردار اختر مینگل کی حکومت بھی بعض لوگوں سے برداشت نہیں ہوئی تھی جس کی وجہ سے اختر مینگل نے حکومت چھوڑ دی تھی۔
بلوچستان کی بی این پی مینگل کی قومی اسمبلی کی چند نشستوں کے ووٹ لینے کے لیے عمران خان نے سردار اختر سے معاہدہ کیا تھا اور بی این پی مینگل کے ووٹ لے کر وزیر اعظم بنے تھے۔ بی این پی مینگل واحد پارٹی ہے جس نے عمران خان کی حکومت میں ایم کیو ایم پاکستان اور مسلم لیگ (ق) کی طرح کوئی وزارت نہیں لی تھی اور 8 ماہ سے بی این پی عمران خان کی طرف سے اپنے کیے گئے وعدوں کے پورا ہونے کا انتظار کر رہی ہے اور چار ماہ مزید انتظار کرنا چاہتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بی این پی کی طرح ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) سے بھی وعدے کیے تھے اور وفاقی وزارتیں ایم کیو ایم کو دی تھیں۔
پنجاب میں ہر حال میں حکومت بنانے کے لیے پی ٹی آئی نے سب سے بڑی پارٹی نہ ہونے کے باعث مسلم لیگ (ق) کی حمایت مجبوری سمجھ کر چند صوبائی اور قومی نشستوں پر مسلم لیگ (ق) کو پنجاب میں اسپیکر جیسا اہم عہدہ، ایک وفاقی وزارت اور دو صوبائی وزارتیں دی تھیں اور (ق) لیگ کو ایک مزید وزارت دینے کا وعدہ بھی کیا تھا جس کے پورا نہ ہونے پر (ق) لیگ آئے دن اپنی ناراضگی کا اظہار کرتی آ رہی ہے۔ (ق) لیگ مونس الٰہی کو وفاقی وزیر تجارت بنانا چاہ رہی ہے جن پر نیب میں انکوائری چل رہی ہے جب کہ چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی خود بھی نیب میں حاضریاں بھگت رہے ہیں جب کہ سردار عطا اللہ کے اصول پرست بلوچ فرزند پر نیب میں کوئی الزام نہیں ہے مگر وہ حکومت کو بلیک میل نہیں کر رہے اور اپنے اصولوں پر حکومت کی کسی لالچ یا سیاسی مفاد کے حصول کے لیے عمران حکومت کی حمایت کر رہے ہیں۔
سردار اختر نے وفاقی حکومت سے وزارتیں نہیں مانگیں بلکہ ان کا اصولی مطالبہ ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان کے لاپتہ افراد کے لیے کمیٹی قائم کرے اور انھیں بازیاب کرائے۔ حکومت نے 8 ماہ میں اب تک بی این پی مینگل سے کمیٹی کے لیے نام مانگے ہیں جو دیے جا چکے ہیں مگر کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی اور حکومت اس سلسلے میں بی این پی سے مخلص نظر نہیں آ رہی اور اگر حکومت کا یہی حال رہا تو بی این پی مینگل کو حکومت کی حمایت جاری رکھنے پر کوئی مجبور نہیں کر سکے گا۔ سردار اختر مینگل کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت اس سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔
سابق وزیر اعلیٰ کو یہ بھی شکوہ ہے کہ ملک میں ایسے لوگوں کو سیاست میں لایا گیا ہے جنھیں سیاست کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کے وزیروں کی طرف سے خاص طور پر وہ جو پہلی بار وزیر بنائے گئے ہیں کی طرف سے عجیب و غریب بیانات دیے جا رہے ہیں اور ایسے دعوے کیے جا رہے ہیں جن پر کوئی ذی شعور یقین کرنے پر تیار نہیں ہے مگر سیاست اور اقتدار میں نئے آنے والوں کی طرف دعوے جاری ہے۔
ماضی میں متعدد بار ایسا ہوا کہ اقتدار میں آنے کے بعد حکومتوں کی طرف سے وعدے پورے نہ کیے جانے اور اپنے منشور سے ہٹ جانے پر برسر اقتدار پارٹی کے متعدد رہنماؤں نے وزارتیں چھوڑ دی تھیں اور اپنے قائد کے فیصلوں سے اختلاف کیا تھا۔ مولانا مفتی محمود نے بلوچستان کی جمہوری حکومت کی برطرفی پر صوبہ سرحد کی حکومت چھوڑ دی تھی مگر بلوچستان میں یہ بھی ہوا کہ بلوچ وزیراعلیٰ کی برطرفی پر دوسرے بلوچ سردار نے گورنر راج میں گورنر بن کر صوبے کی دیگر پارٹیوں کے ارکان اسمبلی کے دباؤ کے ذریعے وفاداریاں تبدیل کرائیں اور خود وزیر اعلیٰ بن گئے۔
بھٹو دور سے بلوچستان کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئیں ان کا اعتراف کرتے ہوئے بلوچ ہونے کے دعویدار اس وقت کے صدر مملکت نے بلوچستان آ کر معافی بھی مانگی۔ بلوچستان میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومتیں بھی رہیں اور لوگ لاپتہ ہوتے رہے مگر کچھ نہ ہو سکا اور اسی اہم مسئلے کے باعث اختر مینگل نے وزارتیں نہیں مانگیں اور صرف لاپتہ کا مسئلہ سامنے رکھا مگر یہ مسئلہ سابقہ حکومتیں حل کرا سکیں نہ اب وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت اس اہم مسئلے پر کچھ کر سکی ہے۔
صوبہ بلوچستان وہ صوبہ بھی ہے جہاں ہمیشہ سیاسی مفاد اور اقتدار کو ترجیح دی گئی۔ صوبے کی بجائے ابن الوقت سیاستدانوں نے ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور کبھی اصولی سیاست بلوچستان میں کبھی نظر نہیں آئی اور اب اپنے والد کے بعد اس کا بیٹا اختر مینگل کو بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ ملک میں اصولی سیاست کی روایت ختم ہو چکی ہے۔
چار ماہ بعد اسی صورتحال کے باعث بی این پی مینگل اگر اپنے اصولوں پر حکومت کی حمایت سے دستبردار بھی ہوئی تو دیگر نام نہاد اصول پرست وزارتوں کے لیے حکومت کی حمایت میں آگے آ جائیں گے جو خود کو اصول پرست قرار دیں گے اور وزیر اعظم کو اپنی سیاسی مجبوری اور اقتدار بچانے کے لیے اصول پرست سردار اختر کی دوری برداشت کرنا پڑے گی اور اصولوں کے نام پر نئے حلیف اپنانے پڑیں گے۔
انھوں نے واضح کیا کہ عمران خان نے بھی حکومت بنانے سے قبل ہم سے کچھ وعدے کیے تھے مگر ایک بھی پورا نہیں کیا گیا۔ حکومت کو 8 ماہ ہو چکے ہیں اور چار ماہ بعد ہم حکومت کے وعدوں سے انحراف کے نتیجے میں حکومت کی حمایت چھوڑ دیں گے۔
سردار اختر مینگل کا تعلق اگرچہ سب سے چھوٹے صوبے سے ہے مگر وہ ملک کے ان چند اصول پرست سیاستدانوں میں شامل ہیں جو مفادات کے لیے اپنے اصولوں کے تحت اپنے مطالبات کے لیے حکومت میں شامل ہوتے ہیں اور حکومتوں کی وعدہ خلافی پر حکومت کی حمایت ترک کرنے میں تاخیر نہیں کرتے۔سردار مینگل کے والد سردار عطا اللہ مینگل نے بھی بھٹو دور میں بلوچستان میں حکومت بنائی تھی جس میں جے یو آئی بھی شامل تھی۔
کچھ عرصے بعد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے وعدہ خلافی کر کے مینگل حکومت برطرف کر کے گورنر راج لگا کر اپنی حکومت بنوا لی تھی۔ بھٹوکی وعدہ خلافی پر اس وقت کے سرحد صوبے کے جے یو آئی کے وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمود نے استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ بلوچستان اور سرحد میں جے یو آئی اور نیشنل عوامی پارٹی کی مخلوط حکومت تھی۔ بلوچستان میں سردار اختر مینگل کی حکومت بھی بعض لوگوں سے برداشت نہیں ہوئی تھی جس کی وجہ سے اختر مینگل نے حکومت چھوڑ دی تھی۔
بلوچستان کی بی این پی مینگل کی قومی اسمبلی کی چند نشستوں کے ووٹ لینے کے لیے عمران خان نے سردار اختر سے معاہدہ کیا تھا اور بی این پی مینگل کے ووٹ لے کر وزیر اعظم بنے تھے۔ بی این پی مینگل واحد پارٹی ہے جس نے عمران خان کی حکومت میں ایم کیو ایم پاکستان اور مسلم لیگ (ق) کی طرح کوئی وزارت نہیں لی تھی اور 8 ماہ سے بی این پی عمران خان کی طرف سے اپنے کیے گئے وعدوں کے پورا ہونے کا انتظار کر رہی ہے اور چار ماہ مزید انتظار کرنا چاہتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بی این پی کی طرح ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) سے بھی وعدے کیے تھے اور وفاقی وزارتیں ایم کیو ایم کو دی تھیں۔
پنجاب میں ہر حال میں حکومت بنانے کے لیے پی ٹی آئی نے سب سے بڑی پارٹی نہ ہونے کے باعث مسلم لیگ (ق) کی حمایت مجبوری سمجھ کر چند صوبائی اور قومی نشستوں پر مسلم لیگ (ق) کو پنجاب میں اسپیکر جیسا اہم عہدہ، ایک وفاقی وزارت اور دو صوبائی وزارتیں دی تھیں اور (ق) لیگ کو ایک مزید وزارت دینے کا وعدہ بھی کیا تھا جس کے پورا نہ ہونے پر (ق) لیگ آئے دن اپنی ناراضگی کا اظہار کرتی آ رہی ہے۔ (ق) لیگ مونس الٰہی کو وفاقی وزیر تجارت بنانا چاہ رہی ہے جن پر نیب میں انکوائری چل رہی ہے جب کہ چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی خود بھی نیب میں حاضریاں بھگت رہے ہیں جب کہ سردار عطا اللہ کے اصول پرست بلوچ فرزند پر نیب میں کوئی الزام نہیں ہے مگر وہ حکومت کو بلیک میل نہیں کر رہے اور اپنے اصولوں پر حکومت کی کسی لالچ یا سیاسی مفاد کے حصول کے لیے عمران حکومت کی حمایت کر رہے ہیں۔
سردار اختر نے وفاقی حکومت سے وزارتیں نہیں مانگیں بلکہ ان کا اصولی مطالبہ ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان کے لاپتہ افراد کے لیے کمیٹی قائم کرے اور انھیں بازیاب کرائے۔ حکومت نے 8 ماہ میں اب تک بی این پی مینگل سے کمیٹی کے لیے نام مانگے ہیں جو دیے جا چکے ہیں مگر کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی اور حکومت اس سلسلے میں بی این پی سے مخلص نظر نہیں آ رہی اور اگر حکومت کا یہی حال رہا تو بی این پی مینگل کو حکومت کی حمایت جاری رکھنے پر کوئی مجبور نہیں کر سکے گا۔ سردار اختر مینگل کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت اس سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔
سابق وزیر اعلیٰ کو یہ بھی شکوہ ہے کہ ملک میں ایسے لوگوں کو سیاست میں لایا گیا ہے جنھیں سیاست کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کے وزیروں کی طرف سے خاص طور پر وہ جو پہلی بار وزیر بنائے گئے ہیں کی طرف سے عجیب و غریب بیانات دیے جا رہے ہیں اور ایسے دعوے کیے جا رہے ہیں جن پر کوئی ذی شعور یقین کرنے پر تیار نہیں ہے مگر سیاست اور اقتدار میں نئے آنے والوں کی طرف دعوے جاری ہے۔
ماضی میں متعدد بار ایسا ہوا کہ اقتدار میں آنے کے بعد حکومتوں کی طرف سے وعدے پورے نہ کیے جانے اور اپنے منشور سے ہٹ جانے پر برسر اقتدار پارٹی کے متعدد رہنماؤں نے وزارتیں چھوڑ دی تھیں اور اپنے قائد کے فیصلوں سے اختلاف کیا تھا۔ مولانا مفتی محمود نے بلوچستان کی جمہوری حکومت کی برطرفی پر صوبہ سرحد کی حکومت چھوڑ دی تھی مگر بلوچستان میں یہ بھی ہوا کہ بلوچ وزیراعلیٰ کی برطرفی پر دوسرے بلوچ سردار نے گورنر راج میں گورنر بن کر صوبے کی دیگر پارٹیوں کے ارکان اسمبلی کے دباؤ کے ذریعے وفاداریاں تبدیل کرائیں اور خود وزیر اعلیٰ بن گئے۔
بھٹو دور سے بلوچستان کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئیں ان کا اعتراف کرتے ہوئے بلوچ ہونے کے دعویدار اس وقت کے صدر مملکت نے بلوچستان آ کر معافی بھی مانگی۔ بلوچستان میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومتیں بھی رہیں اور لوگ لاپتہ ہوتے رہے مگر کچھ نہ ہو سکا اور اسی اہم مسئلے کے باعث اختر مینگل نے وزارتیں نہیں مانگیں اور صرف لاپتہ کا مسئلہ سامنے رکھا مگر یہ مسئلہ سابقہ حکومتیں حل کرا سکیں نہ اب وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت اس اہم مسئلے پر کچھ کر سکی ہے۔
صوبہ بلوچستان وہ صوبہ بھی ہے جہاں ہمیشہ سیاسی مفاد اور اقتدار کو ترجیح دی گئی۔ صوبے کی بجائے ابن الوقت سیاستدانوں نے ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور کبھی اصولی سیاست بلوچستان میں کبھی نظر نہیں آئی اور اب اپنے والد کے بعد اس کا بیٹا اختر مینگل کو بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ ملک میں اصولی سیاست کی روایت ختم ہو چکی ہے۔
چار ماہ بعد اسی صورتحال کے باعث بی این پی مینگل اگر اپنے اصولوں پر حکومت کی حمایت سے دستبردار بھی ہوئی تو دیگر نام نہاد اصول پرست وزارتوں کے لیے حکومت کی حمایت میں آگے آ جائیں گے جو خود کو اصول پرست قرار دیں گے اور وزیر اعظم کو اپنی سیاسی مجبوری اور اقتدار بچانے کے لیے اصول پرست سردار اختر کی دوری برداشت کرنا پڑے گی اور اصولوں کے نام پر نئے حلیف اپنانے پڑیں گے۔