پیدا ہیں کہاں ایسے پراگندہ طبع لوگ

چشم فلک نے تکبر، رعونیت اور رعب ودبدبے کو چکنا چور ہوتے بھی دیکھا، بے بس بھی دیکھا۔


شاہد سردار May 08, 2019

یہ ایک حقیقت ہے کہ جنریشن گیپ دراصل کمیونی کیشن گیپ ہوتا ہے، لیکن اگر چشم بینا ہو تو انسان قدم قدم پر نہ صرف عبرت سمیٹتا بلکہ اس سے سبق بھی حاصل کرتا ہے۔

چشم فلک نے تکبر، رعونیت اور رعب ودبدبے کو چکنا چور ہوتے بھی دیکھا، بے بس بھی دیکھا۔ اس لیے جب ہم شوبزکے مطلق العنان لوگوں، حکمرانوں، بیوروکریسی اور میڈیا سے وابستہ لوگوں کو شہرت کے تکبر میں مبتلا دیکھتے ہیں تو آفاقی سچائی یہی نظر آتی ہے کہ بڑی ذات صرف اللہ ہی کی ہے اور اپنے اپنے وقت کے آسمان بالآخر پیوند خاک ہوگئے۔ جو کل تھے وہ آج نہیں اور جو آج ہیں وہ کل نہ ہوں گے۔

گزشتہ ہفتے بیٹھے بٹھائے محمد علی، مصطفیٰ قریشی اور احمد رشدی کو تراشنے والے، اپنے دور کے نامور براڈ کاسٹر زیڈ اے بخاری یاد آگئے۔ ان میں اب سوائے مصطفیٰ قریشی کے سبھی ہماری دنیا میں نہیں ہیں۔ کسی دوسری دنیا میں چلے گئے ہیں۔ وہی حیرانی در حیرانی والا معاملہ ہے کہ یہ دنیا کیوں بنائی گئی؟ ہمیں یہاں کیوں اتارا گیا؟ اور پھر دوبارہ واپس بھی کیوں بلالیا جاتا ہے؟

بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔ ہم سبھی قطار میں کھڑے اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں کہ جانا تو ہم سبھی نے ہے۔ زیڈ اے بخاری (ذوالفقار علی بخاری) اس زمانے میں ریڈیو پاکستان کے مختار مطلق تھے۔ وہ انتہائی ہنرمند قابل اور مردم شناس آدمی تھے۔ زبان کے تلفظ اور الفاظ کی نشست و برخاست کو وہ بہت اہمیت دیتے تھے۔ نہایت خوش مزاج اور حاضر جواب انسان تھے۔ محفلوں کی جان تھے اور اپنی ذات میں خود بھی ایک انجمن تھے۔

بہت اعلیٰ درجے کے شاعر، اچھے نثرنگار، نقاد اور براڈ کاسٹنگ کے حوالے سے تو پورے برصغیر میں انھیں یکتا سمجھا جاتا تھا۔ وہ پطرس بخاری کے چھوٹے بھائی تھے جن کا نام احمد شاہ بخاری تھا مگر پطرس بخاری کے نام سے ادبی حلقوں میں زندہ جاوید ہوگئے، یہ دونوں بھائی آفتاب اور ماہتاب کی مانند تھے۔ پطرس بخاری ماہر تعلیم تھے۔ بھلے دنوں میں گورنمنٹ کالج جیسے عظیم الشان تعلیمی ادارے کے پرنسپل رہے۔ بعد میں سفارت کاری کی اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب کی حیثیت سے بہت سے کارنامے سر انجام دیے۔

جہاں احمد شاہ المعروف پطرس بخاری کی شہرت ختم ہوتی تھی وہاں سے ذوالفقار علی بخاری کی شہرت اور عظمت کا آغاز ہوتا تھا، ان دونوں بھائیوں نے مختلف شعبوں میں مختلف حوالوں سے بہت نام پیدا کیا اور جس میدان میں بھی قدم رکھا اس میں نئی روایات قائم کرکے ہی دم لیا۔ زیڈ اے بخاری خاصے طویل عرصے ریڈیو پاکستان کے کرتا دھرتا اور حاکم اعلیٰ رہے۔ دراز قد، سانولا رنگ، کلین شیو، ہلکے گھونگھریالے بال لیکن ان کے چہرے پر سب سے نمایاں ان کی خلاف معمول موٹی موٹی بھویں تھیں جن کے بارے میں ایک بار شوکت تھانوی نے کہا تھا کہ ''آنکھوں کے اوپر مونچھیں لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور نہ جانے خود کوکیا سمجھتے ہیں۔''

بخاری صاحب ہمہ صفت شخصیت تھے لیکن علم موسیقی زبان و ادب، شعر و علم اور تلفظ پر انھیں مکمل عبور حاصل تھا۔ بات بات میں مزاح پیدا کرنا ان کی نمایاں خوبی تھی شعر کی ادائیگی میں بھی انھیں کمال حاصل تھا ، تحت اللفظ میں مرثیہ انتہائی دل گداز اور پرتاثر انداز میں پڑھتے تھے۔ اب تو ایسی شخصیات نے جنم لینا ہی بند کردیا ہے۔ بقول میر تقی میرؔ:

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی

جب محمد علی کی آواز بخاری صاحب کے کانوں میں پڑی تو وہ اپنی عادت کے مطابق اس گوہر قابل کو تراش خراش کر انمول نگینہ بنانے پر تل گئے۔ زیڈ اے بخاری نے محمد علی کو اپنی سرپرستی میں لے لیا اور ان کی ذہنی، علمی اور فنی تربیت کا آغاز کیا، محمد علی کو انھوں نے اپنا بیٹا بنالیا تھا اور محمد علی نے بھی ساری زندگی اس رشتے کو نبھایا۔

ایک زمانے میں ریڈیو ہی اداکاروں، موسیقاروں اور گلوکاروں کی پناہ گاہ بلکہ چراہ گاہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی فلمی صنعت کو ریڈیو کے ذریعے ہی بہت سے موسیقار، گلوکار، نغمہ نگار، اداکار اور دوسرے شعبوں میں ہنرمند حاصل ہوئے۔ قوی خان، آغا طالش، محمد علی، مصطفیٰ قریشی اور احمد شاہ رشدی جیسے گلوکار اسی ذریعے سے پاکستان کی فلمی صنعت میں آئے اور ماہتاب و آفتاب بن کر جگمگائے۔

اب تو شاید وہ زمانے کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ زمانہ ویسے بھی آگے کی طرف ہی گامزن ہوتا ہے، اسے کیا پڑی ہے کہ پیچھے کی طرف لوٹ جائے۔ ہماری آپ کی خواہش سے کیا ہوتا ہے؟ زیڈ اے بخاری لاکھ مردم شناس سہی ان میں بہت سی خوبیاں اور محاسن تھے لیکن ان میں ایک خامی یہ تھی کہ وہ اپنی دانست میں گائیک اور لے کار بھی ہیں۔ سر تال بھی جانتے ہیں اور راگ بھی بنا لیتے ہیں۔ انھیں زعم کی حد تک گائیکی کا علم تھا۔ طرفہ تماشا یہ کہ ان کی خوشامد کرنے والے لوگ ان کو بے جا سراہتے بھی تھے۔ یہ زیڈ اے بخاری کی ایک بہت بڑی خامی تھی۔

ایک بار مشہور سازندے رمضان خان باجا بجا رہے تھے وہ بڑے گائیک بھی تھے ان سے بخاری صاحب نے کہا ''میرا سُر لگاؤ۔'' وہ بولے ''حضور میں آپ کا سُر لگا رہا ہوں۔'' بخاری صاحب پھر چلائے ''رمضان! میرا سُر لگاؤ۔'' رمضان خان نے باجے میں ہاتھ ڈالا اور ان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ''حضور! یہ رہا آپ کا سُر اسے اپنے پاس رکھ لیں اور جب جی چاہے لگاتے رہیں۔'' زیڈ اے بخاری بہت ناراض ہوئے اور ان کو معطل کردیا۔ رمضان خان انھیں ڈیڑھ دو مہینے تک مناتے رہے بالآخر ایک روز ان کی کار کے سامنے لیٹ گئے تب جاکے انھیں بخشا گیا۔

ایک بار استاد بڑے غلام علی خاں کی بھی زیڈ اے بخاری سے شکر رنجی ہوگئی۔ لیکن بڑے غلام علی خاں تو ایسا نہیں کرسکتے تھے ناں وہ زیڈ اے بخاری کے رویے سے پاکستان سے ہی دل برداشتہ ہوکر اسے چھوڑ کر بھارت چلے گئے، بعد میں ان کی فنی صلاحیتوں کے اعتراف میں بھارت نے انھیں اپنا سب سے بڑا سول اعزاز ''پدم بھوشن'' بھی دیا۔

بڑے غلام علی خاں کے بارے میں ایک روایت ہم نے یہ سن رکھی تھی کہ وہ سوتے میں بھی اس فن کا خیال رکھتے اور جاگتے میں بھی انھیں فن موسیقی کا ہی پاس تھا۔ خراٹے لیتے ہوئے بھی ان کی ایک آدھ تان نکل جاتی تھی۔ ملکہ ترنم نور جہاں بھی ان کی شاگردہ رہ چکی تھیں۔ کلکتہ کے ایک فنکشن میں خواتین نے بڑے غلام علی خاں کے پاؤں میں اپنے بال بچھا دیے تھے اور وہ ان کے اوپر سے گزر کر اسٹیج تک پہنچے تھے۔

بلاشبہ بڑے غلام علی خاں صاحب ''فنافی الفن'' تھے۔ سُر تال کے معاملے میں وہ کوئی سمجھوتہ کبھی نہ کرتے تھے اور اسی حوالے سے ان کا اختلاف زیڈ اے بخاری سے ہوا اور انھوں نے کمپرو مائز کے بجائے وطن عزیز سے نقل مکانی کو ترجیح دی، زیڈ اے بخاری نے انھیں اس حوالے سے ناراض و نالاں جوکردیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں