چاند کا ’’دیدار‘‘
ہمیں یقینا سائنسی تجربے سے استفادہ کر لینا چاہیے،اس حوالے سے علمائے کرام جو ممکن ہو سکے معاونت فراہم کریں۔
گزشتہ سال انھی دنوں 22 مئی کے کالم ''مجھے بھی رویت ہلال کمیٹی میں شامل کیا جائے''میں میں نے یہ تحریر کیا تھا کہ ''سوال یہ ہے کہ جب رویت ہلال کمیٹی کی کوئی آئینی یا قانونی حیثیت نہیں اور اسے ختم کر دینا چاہیے۔ اس قدر کروڑوں روپے لگاکر ان کمیٹیوں پر خرچ کیوں کیے جا رہے ہیں، اور پھر سال میں کئی مرتبہ الائونسز کی آڑ میں فنڈز جاری کرنا کہاں کی بچت اسکیمیں ہیں۔ لہٰذاچاند دیکھنے کا اختیارمحکمہ موسمیات کو دے دینا چاہیے کیوں کہ ہم حسابات اور جدید سیمولیشنز کے ذریعے یہ جان سکتے ہیں کہ چاند کب اور کہاں نظر آئے گا، آسمان میں کتنا اونچا ہوگا، اور اس کے نظر آنے کے امکانات کیا ہیں۔ ہم یہ حساب بھی لگا سکتے ہیں کہ غروبِ آفتاب کے بعد چاند کتنی دیر تک اُفق پر موجود رہے گا، اور دیکھا جا سکے گا۔ ہم سافٹ ویئرز اور سیمولیٹڈ تصاویر کی مدد سے پہلے سے معلوم کر سکتے ہیں کہ نظر آنے پر چاند کی شکل کیسی ہوگی۔ لہٰذاجس غریب ملک میں دوائیاں نہیں ملتیں، جہاں اسکولوں پر طلبہ کے لیے چھتیں تک نہیں ہیں ، جہاں لاکھوں لوگ سڑکوں پر بھوکے سوتے ہیں وہاں ان کمیٹیوں کی کیا ضرورت ہے۔ اگر پھر بھی تقاضا ہے کہ چاند کمیٹی کو ہونا چاہیے تو پلیز مجھے اس کمیٹی میں شامل کر کے شرف عزت بخشی جائے (ممنون رہوں گا)۔''
آج وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے وہی الفاظ دہرا کر کہ '' ہر چاند دیکھنے کے لیے 40لاکھ روپے خرچ کر دینا کہاں کی دانشمندی ہے، اور پھر یہ کہ جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ نہ کرنا کسی حماقت سے کم نہیں '' میرے موقف کی تائید کی ہے۔ یقینا ایسا کرنے سے ہم شاید دو دو عیدوں کے مسئلے سے باہر نکل آئیں گے اور ویسے بھی آج کے دور میں سائنس دانوں کی مدد سے برسوں پہلے اس بات کا تعین کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کے کس خطے میں نیا چاند کس دن دیکھا جاسکتا ہے۔لیکن وزیر موصوف نے ایک غلطی ضرور کی ہے جس کی وجہ سے انھیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے کہ اُن کے مطابق چاند کو دیکھنے کے مختلف طریقے ہیں ایک زمین پر نصب سو سال پرانی دوربینوں کی ٹیکنالوجی ہے اور ایک طریقہ ''ہبل'' دوربین کا بھی ہے۔
لیکن اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ ہبل ٹیلی اسکوپ کو پاکستانی خلائی ایجنسی اسپارکو نے خلا میں بھیجا جو کہ درست نہیں ہے۔ حالانکہ ہبل ایک خلائی دوربین ہے جسے امریکا کی خلائی ایجنسی ناسا نے 1990 میں خلا میں بھیجا تھا۔یہ خلائی دوربین زمین کے مدار میں ہی سفر کرتی ہے اور اس میں ایک ڈیجیٹل کیمرا بھی موجود ہے جس سے وہ پچھلے کئی برسوں سے خلا کی تصویریں لے کر زمین پر بھیج رہی ہے۔ہبل ایک گھنٹے میں 28ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہے لہٰذا یہ محض 95 منٹ میں زمین کے گرد اپنا چکر پورا کر لیتی ہے۔یعنی چاندسے 500گنا تیز رفتار میں سفر کر رہی ہے۔ یہ دوربین اب تک لگ بھگ 13 لاکھ مشاہدات کر چکی ہے اور ماہرین فلکیات نے 15ہزار سے زائد سائنسی مقالات لکھے چکے ہیں ۔
آج جب دنیابلیک ہول کی تصاویر لینے، ستاروں کی کھوج کرنے، کھربوں میل دور کہکشائوں کو دریافت کرنے اورمریخ پرانسانی قدم رکھنے کی باتیں کر رہی ہے تو وہ ہمیں چاند پر ''پھنسے ''دیکھ کر خوب ہنسی اُڑاتی ہے، اُن کے بقول چاند کے لیے زمین ایک پورا خطہ ہے، جسے ہم نے کم و بیش200حصوں(ممالک) میں تقسیم کر دیا ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اب تو انٹرنیٹ پر دنیابھر کے انتہائی معتبر اداروں کی ویب سائٹس پر چاند کی پل پل کی خبر نشر کی جاتی ہے، مثال کے طور پر یہ ویب سائٹ جس پر ہر مہینے کے ابتدائی دنوں کی مواصلاتی تصویریں پہلے سے ہی شائع کردی جاتی ہیں جس سے بعینہ اس بات کا تعین کیا جاسکتا ہے کہ کس مہینے کا چاند کس تاریخ کو پیدا ہوگا اور پھر کس تاریخ کو اسے دنیا کے کس حصے میں دیکھنا ممکن ہوگا۔
اس لیے سائنسدان اس سوچ میں گم ہو جاتے ہیں کہ اگر چاند پاکستان میں نظر آگیا ہے تویہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ انڈیا میں نظر نہ آئے؟ پھر اگرایران میں نظر آگیا ہے تو قریب ہی سرحد کے پار پاکستان میں کیسے نظر نہ آئے؟ـ یعنی یہ کیسا معیار ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے ایک جانب عید اور دوسری جانب روزہ، پاکستان کے شہر تفتان میں روزہ اور چند قدم دور ایران کے میر جادہ میں عید، اردن میں عید اور شام میں روزہ، سعودی عرب میں عید اور عراق میں روزہ۔برطانیہ میں دیکھ لیں جہاں ملک بھی ایک، مطلع بھی ایک، دیکھنے والے بھی ایک، لیکن کوئی دلیل لاتا ہے کہ سعودی عرب میں چاند نکل آیا ہے روزہ رکھ لو... کوئی کہتا ہے کہ چاند ایران میں نکل آیا روزہ رکھ لو، کوئی اردن اور کوئی انڈونیشیا کی مثال دیتا ہے۔
اب آجائیے اس سوال کی جانب کہ آخر چاند دیکھنے کی ذمے داری کسی ہے اور کون اس بات کا اختیار رکھتا ہے کہ وہ ملک کے لوگوں کے لیے یہ فیصلہ کرے۔ کیا یہ فیصلہ عام عوام کا ہے، حکومت وقت کا، علما کرام کا یا پھر سائنسدانوں اور فلکیات اور موسمیات کے ماہرین کا؟ ظاہر ہے کہ ''جسکا کام اسی کو ساجھے'' کے تحت یہ کام سائنسی ماہرین حکومت وقت کی نگرانی میں انجام دینگے۔ علماء کا کام ایسے کسی بھی معاملے میں صرف دینی احکام کی وضاحت کردینا ہے ۔
یعنی علماء میڈیکل سائنس کے مسائل پر دین کے احکام تو واضح کریں گے، خود ڈاکٹر بن کر مریضوں کا علاج اور سرجری کرنے نہیں نکل پڑیں گے۔ اس طرح اگر معاملہ سودی بینکاری کا ہوگا تو علما سود یا سودی تجارت کے ممکنہ صورتوں کو واضح کردیں گے یا پھر اس حوالے سے اٹھنے والے سوالات کے جواب دینگے، خود بینکار بن کر یا بینکوں کی کمیٹیوں میں تنخواہیں و مراعات لینے نہیں بیٹھ جائیں گے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے ذاتی مفادات کو دین پر ترجیح حاصل ہو جائے گی۔
اوراگر ہم اپنی بات کریں تو یہاں ایران کی طرزپر ایک ''رویت ہلال کمیٹی '' قائم کر دی گئی ہے جو پاکستان کی وفاقی حکومت کی قائم کردہ ایک کمیٹی ہے۔ اس کے تاسیسی مقاصد میں ہر ماہ چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان کرنا ہے۔ حکومت پاکستان کی قائم کردہ صوبائی اورمرکزی رویت ہلال کمیٹیوں میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں۔
محکمہ موسمیات ،نیوی اور اسپارکوکے نمائندے بھی فنی معاونت کے لیے ہراجلاس میں موجودہوتے ہیں۔ اس کمیٹی کی تاریخ میں اگر جایا جائے تویہ بات زیر مطالعہ آتی ہے کہ قومی اسمبلی نے 23جنوری 1974ء کو ایک قرارداد کے ذریعے ایک کمیٹی کی تشکیل کی جسے یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ رمضان اور عیدین کے لیے رویتِ ہلال کا فیصلہ کرے تاکہ عام طور پر ان مواقعے پر جو اختلاف پیدا ہوتا رہا اس کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس کے بعد 12 فروری 1974ء کو نو شخصیات پر مشتمل کمیٹی کا اعلان کیا گیا۔ یہ کمیٹیاںمحکمہ موسمیات سے ٹیلی اسکوپ لیتی ہیں ۔کمیٹی اراکین جو دوسرے شہروں سے آتے ہیں انھیں ٹی اے ڈی اے دیا جاتا ہے، لیکن آخر میں ہوتا وہی ہے جو محکمہ موسمیات اعلان کر چکا ہوتا ہے۔ بھارت میں بھی اسی طرح مسلمانوں میں اختلاف رائے موجود رہتا ہے، پھر ایک ''ہندو'' حکومت کو مداخلت کرکے مسئلہ حل کرانا پڑتا ہے۔
ہمیں یقینا سائنسی تجربے سے استفادہ کر لینا چاہیے،اس حوالے سے علمائے کرام جو ممکن ہو سکے معاونت فراہم کریں، بلکہ بھرپور تعاون کریں کیوں کہ یہ پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک کا مشترکہ مسئلہ ہے جس میں ہم بطور رول ماڈل کردار ادا کر سکتے ہیں!
آج وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے وہی الفاظ دہرا کر کہ '' ہر چاند دیکھنے کے لیے 40لاکھ روپے خرچ کر دینا کہاں کی دانشمندی ہے، اور پھر یہ کہ جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ نہ کرنا کسی حماقت سے کم نہیں '' میرے موقف کی تائید کی ہے۔ یقینا ایسا کرنے سے ہم شاید دو دو عیدوں کے مسئلے سے باہر نکل آئیں گے اور ویسے بھی آج کے دور میں سائنس دانوں کی مدد سے برسوں پہلے اس بات کا تعین کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کے کس خطے میں نیا چاند کس دن دیکھا جاسکتا ہے۔لیکن وزیر موصوف نے ایک غلطی ضرور کی ہے جس کی وجہ سے انھیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے کہ اُن کے مطابق چاند کو دیکھنے کے مختلف طریقے ہیں ایک زمین پر نصب سو سال پرانی دوربینوں کی ٹیکنالوجی ہے اور ایک طریقہ ''ہبل'' دوربین کا بھی ہے۔
لیکن اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ ہبل ٹیلی اسکوپ کو پاکستانی خلائی ایجنسی اسپارکو نے خلا میں بھیجا جو کہ درست نہیں ہے۔ حالانکہ ہبل ایک خلائی دوربین ہے جسے امریکا کی خلائی ایجنسی ناسا نے 1990 میں خلا میں بھیجا تھا۔یہ خلائی دوربین زمین کے مدار میں ہی سفر کرتی ہے اور اس میں ایک ڈیجیٹل کیمرا بھی موجود ہے جس سے وہ پچھلے کئی برسوں سے خلا کی تصویریں لے کر زمین پر بھیج رہی ہے۔ہبل ایک گھنٹے میں 28ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہے لہٰذا یہ محض 95 منٹ میں زمین کے گرد اپنا چکر پورا کر لیتی ہے۔یعنی چاندسے 500گنا تیز رفتار میں سفر کر رہی ہے۔ یہ دوربین اب تک لگ بھگ 13 لاکھ مشاہدات کر چکی ہے اور ماہرین فلکیات نے 15ہزار سے زائد سائنسی مقالات لکھے چکے ہیں ۔
آج جب دنیابلیک ہول کی تصاویر لینے، ستاروں کی کھوج کرنے، کھربوں میل دور کہکشائوں کو دریافت کرنے اورمریخ پرانسانی قدم رکھنے کی باتیں کر رہی ہے تو وہ ہمیں چاند پر ''پھنسے ''دیکھ کر خوب ہنسی اُڑاتی ہے، اُن کے بقول چاند کے لیے زمین ایک پورا خطہ ہے، جسے ہم نے کم و بیش200حصوں(ممالک) میں تقسیم کر دیا ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اب تو انٹرنیٹ پر دنیابھر کے انتہائی معتبر اداروں کی ویب سائٹس پر چاند کی پل پل کی خبر نشر کی جاتی ہے، مثال کے طور پر یہ ویب سائٹ جس پر ہر مہینے کے ابتدائی دنوں کی مواصلاتی تصویریں پہلے سے ہی شائع کردی جاتی ہیں جس سے بعینہ اس بات کا تعین کیا جاسکتا ہے کہ کس مہینے کا چاند کس تاریخ کو پیدا ہوگا اور پھر کس تاریخ کو اسے دنیا کے کس حصے میں دیکھنا ممکن ہوگا۔
اس لیے سائنسدان اس سوچ میں گم ہو جاتے ہیں کہ اگر چاند پاکستان میں نظر آگیا ہے تویہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ انڈیا میں نظر نہ آئے؟ پھر اگرایران میں نظر آگیا ہے تو قریب ہی سرحد کے پار پاکستان میں کیسے نظر نہ آئے؟ـ یعنی یہ کیسا معیار ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے ایک جانب عید اور دوسری جانب روزہ، پاکستان کے شہر تفتان میں روزہ اور چند قدم دور ایران کے میر جادہ میں عید، اردن میں عید اور شام میں روزہ، سعودی عرب میں عید اور عراق میں روزہ۔برطانیہ میں دیکھ لیں جہاں ملک بھی ایک، مطلع بھی ایک، دیکھنے والے بھی ایک، لیکن کوئی دلیل لاتا ہے کہ سعودی عرب میں چاند نکل آیا ہے روزہ رکھ لو... کوئی کہتا ہے کہ چاند ایران میں نکل آیا روزہ رکھ لو، کوئی اردن اور کوئی انڈونیشیا کی مثال دیتا ہے۔
اب آجائیے اس سوال کی جانب کہ آخر چاند دیکھنے کی ذمے داری کسی ہے اور کون اس بات کا اختیار رکھتا ہے کہ وہ ملک کے لوگوں کے لیے یہ فیصلہ کرے۔ کیا یہ فیصلہ عام عوام کا ہے، حکومت وقت کا، علما کرام کا یا پھر سائنسدانوں اور فلکیات اور موسمیات کے ماہرین کا؟ ظاہر ہے کہ ''جسکا کام اسی کو ساجھے'' کے تحت یہ کام سائنسی ماہرین حکومت وقت کی نگرانی میں انجام دینگے۔ علماء کا کام ایسے کسی بھی معاملے میں صرف دینی احکام کی وضاحت کردینا ہے ۔
یعنی علماء میڈیکل سائنس کے مسائل پر دین کے احکام تو واضح کریں گے، خود ڈاکٹر بن کر مریضوں کا علاج اور سرجری کرنے نہیں نکل پڑیں گے۔ اس طرح اگر معاملہ سودی بینکاری کا ہوگا تو علما سود یا سودی تجارت کے ممکنہ صورتوں کو واضح کردیں گے یا پھر اس حوالے سے اٹھنے والے سوالات کے جواب دینگے، خود بینکار بن کر یا بینکوں کی کمیٹیوں میں تنخواہیں و مراعات لینے نہیں بیٹھ جائیں گے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے ذاتی مفادات کو دین پر ترجیح حاصل ہو جائے گی۔
اوراگر ہم اپنی بات کریں تو یہاں ایران کی طرزپر ایک ''رویت ہلال کمیٹی '' قائم کر دی گئی ہے جو پاکستان کی وفاقی حکومت کی قائم کردہ ایک کمیٹی ہے۔ اس کے تاسیسی مقاصد میں ہر ماہ چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان کرنا ہے۔ حکومت پاکستان کی قائم کردہ صوبائی اورمرکزی رویت ہلال کمیٹیوں میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں۔
محکمہ موسمیات ،نیوی اور اسپارکوکے نمائندے بھی فنی معاونت کے لیے ہراجلاس میں موجودہوتے ہیں۔ اس کمیٹی کی تاریخ میں اگر جایا جائے تویہ بات زیر مطالعہ آتی ہے کہ قومی اسمبلی نے 23جنوری 1974ء کو ایک قرارداد کے ذریعے ایک کمیٹی کی تشکیل کی جسے یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ رمضان اور عیدین کے لیے رویتِ ہلال کا فیصلہ کرے تاکہ عام طور پر ان مواقعے پر جو اختلاف پیدا ہوتا رہا اس کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس کے بعد 12 فروری 1974ء کو نو شخصیات پر مشتمل کمیٹی کا اعلان کیا گیا۔ یہ کمیٹیاںمحکمہ موسمیات سے ٹیلی اسکوپ لیتی ہیں ۔کمیٹی اراکین جو دوسرے شہروں سے آتے ہیں انھیں ٹی اے ڈی اے دیا جاتا ہے، لیکن آخر میں ہوتا وہی ہے جو محکمہ موسمیات اعلان کر چکا ہوتا ہے۔ بھارت میں بھی اسی طرح مسلمانوں میں اختلاف رائے موجود رہتا ہے، پھر ایک ''ہندو'' حکومت کو مداخلت کرکے مسئلہ حل کرانا پڑتا ہے۔
ہمیں یقینا سائنسی تجربے سے استفادہ کر لینا چاہیے،اس حوالے سے علمائے کرام جو ممکن ہو سکے معاونت فراہم کریں، بلکہ بھرپور تعاون کریں کیوں کہ یہ پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک کا مشترکہ مسئلہ ہے جس میں ہم بطور رول ماڈل کردار ادا کر سکتے ہیں!