ہجرو وصال کے غم

ہمارے حکمران شکایت کیا کرتے ہیں کہ قوم اس قدر بے صبری ہو گئی ہے کہ کسی کو خدمت کا موقع ہی نہیں دیتی۔


Abdul Qadir Hassan May 08, 2019
[email protected]

مجھے معلوم نہیں کہ اخبار میں کسی کالم نویس کو ذاتی باتیں لکھنے کا حق حاصل ہے یا نہیں لیکن قارئین سے فتویٰ لیے بغیر میں ایسا کرتا رہتا ہوں اگرچہ بہت کم لیکن کبھی کبھار ایسی گستاخی ہو جاتی ہے، آج پھر یہی ہورہا ہے، میں اپنی پریشان حالی کی بات کرنے لگا ہوں۔

انگریزی کا یہ محاورہ کسی نے خبروں اور معلومات سے تنگ آکر پہلے پہل بولا ہو گا کہ سب سے اچھی خبر یہی ہے کہ کوئی خبر نہیں ہے ۔ اخبار والوں کے کسی اچھے اور شریفانہ واقعہ کی کوئی خبر نہیں بنتی تاآنکہ وہ کوئی غیر معمولی نہ ہو، اس لیے زیادہ تر خبریں ناپسندیدہ واقعات کی ہوا کرتی ہیں ۔ ویسے ایک خبر وہ بھی ہوتی ہے جسے ہمارے صوفی شاعروں نے یوں بیان کیا ہے کہ جس کو ''خبر'' ہو گئی، پھر اس کی خبر نہ ملی۔

ہر آنکہ خبر شد خبرش باز نیا مد

لیکن صوفیاء کی یہ خبر دوسری قسم کی ہوتی ہے جو نصیب والوں کو ملتی ہے، ہمیں تو قتل و خونریزی، بدحالی ، حادثات اور سیاستدانوں کی بدعنوانی کی خبر ہی ملتی ہے اور ایک اخبار نویس ہونے کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی ملتی ہے۔وہ بھی جو اخبار میں چھپ جاتی ہے اور وہ بھی جو اخبار میں نہیں چھپتی۔ جب جوانی تھی تو ایسی خبریں خودلکھتے تھے اور جسم و جاں کی توانائیوں کی وجہ سے پروا نہیں ہوتی تھی یا پھر یوں کہہ لیجیے کہ عادت سی پڑ گئی تھی اور یہ سب ایک معمول بن گیا تھا ،کسی مقتول کی لاش جب آپ نے پہلی بار دیکھی ہو گی تو آپ پر دہشت طاری ہو گئی ہو گی، مجھ پر بھی ایسا ہی ہوا تھا لیکن پھر یہ معمول بن گیا کہ ہر روزسہ پہر کے وقت میو اسپتال کے مردہ خانے کا چکر لگتا اور پوچھا جاتا کہ آج کوئی لاش تو نہیں آئی۔

یہ آج سے چالیس پینتالیس برس پہلے کی رپورٹنگ کا طریقہ تھا جب آبادی کم تھی، علماء حضرات فرقہ پرست نہیں تھے اور قتل کم ہوتے تھے ۔ آج کے حالات میں جب کوئی پرانی بات یاد آتی ہے تو حیرت ہوتی ہے، پہلی بار جب میرا لاہور کے بازار حسن سے گزر ہوا اور میں نے عورتوں کو بن سنور کر دریچوں میں بیٹھے دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے اور جب معلوم ہوا کہ کیا ہے تو مجھے دو دن بخار رہا۔ یہ منظر اور خبر میرے یعنی ایک دیہاتی کے تصور سے بھی بالاتر تھی اور اس قدر حیران کن بلکہ پریشان کن کہ مجھے بخار ہو گیا لیکن یہی بازار حسن اس وقت ایک معمول بن گیا جب اخبار میں کرائم رپورٹنگ شروع کی اور اس بازار کی گلیوں اور اس کے تھانہ میں آمدورفت ایک پیشہ وارانہ ضرورت اور مشغلہ بن گئی۔ دریچوں پر آویزاں بجلی کے بلب اور انسانی چہروں کی ملی جلی روشنی اچھی لگنے لگی۔

مگر اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب گزرے زمانوں کی باتیں وقت کے ساتھ گزر گئیں ۔ آج تو ذرا ذرا سی آہٹ پر دل دھڑکنے لگ جاتا ہے اور معمولی سے سانحہ پر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں، کوئی پرانا دوست مل جاتا ہے تو اس کے گلے لگتے ہی سینے میں سسکی سی نکلتے محسوس ہوتی ہے اور کوئی پرانا دوست بچھڑ جاتا ہے تو لگتا ہے جسم کا کوئی حصہ جدا ہو گیا ہے۔ میرے ایک دوست نے لکھا ہے کہ میرا آ ٹھ نو برس کا پرانا دوست بچھڑ گیا ہے۔ زندہ ہے مگر نہیں ہے اور کسی وقت بے تحاشہ یاد آتا ہے کہ شدید اضطراب کی کیفیت میں اپنے آپ سے بھاگ جانے کو جی چاہتا ہے، ایسی گھبراہٹ طاری ہوتی ہے کہ اس سے نجات کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہو جاتا ہوں اور اپنے آپ سے ڈر آنے لگ گیا ہے۔ دوست کے اسی خط نے مجھے وہ لوگ بھی یاد آگئے جو زندگی میں اتفاقاً آگئے تھے مگر گئے تو حادثہ بن گئے۔

مصلح الدین مر گیا اور میرا اسلام آباد اجڑ گیا ، مصلح کے برسوں بعد جب ایک دفعہ ٹی وی سینٹر جانا ہوا تو وہ پھر یاد آگیا ۔ نواز نے لاہور کو بے کیف کر دیا ۔ شکر ہے کہ دل میں اتر جانے والے دوست زیادہ نہیں بنائے ورنہ دو لفظ لکھنے سے بھی رہ جاتا۔

تو میں عرض کر رہا تھا کہ آج کے دور میں جو خبر بھی موصول ہوتی ہے وہ مزید پریشان کر دیتی ہے، یہی وہ پریشانیاں ہیں جن کی وجہ سے عام زندگی میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے اور جرائم میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے ،کوئی حکمران اور کوئی پولیس ان پر قابو نہیں پا سکتی جب تک معاشرے میں بے انصافی اور ناجائز اونچ نیچ ختم نہیں ہوتی اور یوں لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا اور ہماری دفاعی قوتیں دن بدن کمزور پڑتی جائیں گی لیکن اندر کا اضطراب بڑھتا جائے گا۔

ہمارے حکمران شکایت کیا کرتے ہیں کہ قوم اس قدر بے صبری ہو گئی ہے کہ کسی کو خدمت کا موقع ہی نہیں دیتی ،کوئی حکومت آتی نہیں کہ اس کے جانے کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں لیکن جو حکمران قوم کے اصل مرض کی تشخیص کر لے گا اور اسے وہ کچھ دینا شروع کر دے گا جو وہ چاہ رہی ہے اور جائز طور پر چاہ رہی ہے تو پھر کسی کے جانے کی باتیں نہیں ہوں گی لیکن بات تو میں نے اپنی ذات سے شروع کی تھی اور اسی کی آپ سے اجازت بھی لی تھی کہ بیچ میں حکمران آگئے مگر آپ اس سے اندازہ کریں کہ حکومتیں ہماری نجی زندگیوں پر کس قدر اثر انداز ہوتی ہیں ۔ ہجرووصال کے غم اور خوشیاںبھول جاتی ہیں ۔خوبصورت چہرے یادوں سے اتر جاتے ہیں ، لوگ غم بھلانے کے لیے نشہ کرتے ہیں، ہمارے لیے حکومتیں ہی کافی ہیں ۔ خدا ہمیں صبر عطاء کرے اور میرے اس یار کی دعا قبول ہوجائے جو کہتا ہے کہ میرے لیے صبر کی دعا کرتا رہتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں