تین بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے عوامی طاقت کا مظاہرہ

تینوں سیاسی جماعتوں کے یہ جلسے مستقبل کی سیاست پر بہت اہم اثرات کے حامل ہوں گے۔


G M Jamali May 08, 2019
تینوں سیاسی جماعتوں کے یہ جلسے مستقبل کی سیاست پر بہت اہم اثرات کے حامل ہوں گے۔ فوٹو: فائل

گزشتہ ہفتے تین بڑی سیاسی جماعتوں نے کراچی میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) پاکستان نے مزار قائد اعظم کے سامنے باغ جناح گراؤنڈ میں جلسہ عام کا انعقاد کیا۔ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) نے گلشن اقبال میں یونیورسٹی روڈ پر عوامی اجتماع منعقد کیا جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی ) نے مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر یکم مئی کو داؤد چورنگی لانڈھی میں جلسہ عام کا اہتمام کیا۔

سندھ خصوصا اس کے دارالحکومت کراچی کی کھینچا تانی والی سیاست میں تینوں سیاسی جماعتوں کے یہ جلسے مستقبل کی سیاست پر بہت اہم اثرات کے حامل ہوں گے۔ 9 جنوری 2019 ء کو شروع ہونے والا سندھ اسمبلی کا اجلاس چار ماہ بعد بھی جاری ہے۔ اس کی سیاسی منطق پر بھی لوگ پہلے سے زیادہ سوالات کرنے لگے ہیں۔

28 اپریل کو باغ جناح میں ایم کیو ایم کا جلسہ اس حوالے سے بھی اہم تھا کہ 25 جولائی 2018 ء کے عام انتخابات کے بعد ایم کیو ایم سے بڑی سیاسی طاقت کے مظاہرے کی توقع کی جا رہی تھی کیونکہ عام انتخابات میں ایم کیو ایم کی زیادہ تر قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں پی ٹی آئی کے پاس چلی گئی تھیں ۔ اس جلسہ کو ایم کیو ایم کی بحالی کے لیے ایک بڑی کوشش سے تعبیر کیا جا رہا تھا۔ کیا 28 اپریل کو ایم کیو ایم اپنی بھرپور سیاسی طاقت کا مظاہرہ کر سکی ہے اور کیا اس جلسہ عام کے بعد ایم کیو ایم کراچی شہر میں پھر بڑی طاق بن سکے گی؟

ان سوالوں پر مختلف حلقوں کی مختلف آراء ہیں لیکن ایم کیو ایم کے مخالفین اس جلسہ کو ناکام قرار دیتے ہیں جبکہ غیر جانبدار حلقے بھی یہ نہیں کہتے کہ ایم کیو ایم نے بھرپور سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا۔اس جلسہ عام سے ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، کنور نوید جمیل اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا اور انہوں نے سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ مبینہ زیادتیوں کا ازالہ کرنے کے لیے سندھ میں الگ صوبہ بنانے کی جدوجہد تیز کرنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان پر پیپلز پارٹی اور سندھ کی دیگر سیاسی جماعتوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ سندھ تقسیم نہیں ہو سکتا ہے۔

سندھ ہمیشہ سے ایک وحدت رہا ہے اور ہمیشہ وحدت رہے گا ۔ 29 اپریل کو وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے سندھ اسمبلی میں پری بجٹ بحث کو سمیٹتے ہوئے اپنے خطاب کے دوران ارکان اسمبلی سے کہا کہ جو ارکان سندھ کی تقسیم کے خلاف ہیں ، وہ کھڑے ہو جائیں۔ ایم کیو ایم کے سوا باقی تمام ارکان نے کھڑے ہو کر سندھ کی تقسیم کی مخالفت کی۔ پی ٹی آئی اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس ( جی ڈی اے ) کے ارکان نے بھی پیپلز پارٹی کے ارکان کا ساتھ دیا۔ ایم کیو ایم کے جلسے کے ایک دن بعد کراچی کے علاقے گلشن اقبال کے یونیورسٹی روڈ پر منگل بازار گراؤنڈ میں پی ٹی آئی نے اپنے یوم تاسیس کے حوالے سے جلسہ عام کا انعقاد کیا۔

پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر حلیم عادل شیخ کی تقریر کے دوران پی ٹی آئی کے کارکن آپس میں لڑ پڑے۔ جھگڑا اس قدر بڑھا کہ جلسہ ہی ختم کرنا پڑا۔ جلسہ میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی، پی ٹی آئی کراچی کے صدر خرم شیر زمان اور دیگر رہنما خطاب کیے بغیر وہاں سے چلے گئے۔ کراچی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی تحریک انصاف کا یہ سیاسی شو نہ صرف ناکام ہوا بلکہ کراچی میں پی ٹی آئی کے اندر دھڑے بندی کھل کر سامنے آگئی۔ پارٹی قیادت نے اس واقعہ کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

یکم مئی کو کراچی کے صنعتی علاقے داؤد چورنگی پر مزدوروں کے عالمی دن کے حوالے سے جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا، جس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔ یہ جلسہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے جلسوں کے مقابلے میں نہ صرف منظم تھا بلکہ اس میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی ۔ اگر چہ پیپلز پارٹی کا جلسہ ان دونوں جماعتوں کی کراچی کی سیاست میں کھینچا تانی کے لیے نہیں تھا لیکن اس کے سندھ کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور اس جلسے سے لوگوں کو ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے جلسوں سے موازنہ کرنے کا موقع ملا ۔

9 جنوری 2019 ء کو شروع ہونے والا سندھ اسمبلی کا اجلاس جاری ہے۔ کچھ دن ملتوی ہونے کے بعد اجلاس دوبارہ 15 مئی کو ہو گا۔ اس اجلاس کو طول کیوں دیا جا رہا ہے۔ یہ سوال پہلے سے زیادہ ہونے لگا ہے۔ گذشتہ ہفتے سندھ کابینہ نے پولیس ایکٹ 1861 ء کو ختم کرنے اور پولیس آرڈر 2002 ء کو بحال کرنے کے لیے مسودہ قانون کی منظوری دی۔ یہ مسودہ قانون ( بل ) سندھ اسمبلی میں متعارف کرا دیا گیا ہے۔ اس بل کو سندھ اسمبلی کی سلیکٹ کمیٹی کے حوالے کیا گیا ہے۔

کمیٹی کی سفارشات کے بعد یہ بل دوبارہ اسمبلی میں حتمی منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ بل منظور ہونے کے بعد سندھ میں جنرل پرویز مشرف کے دور والا پولیس کا نظام بحال ہو جائے گا۔ سندھ حکومت نے ایسا کیوں کیا؟ اس کے پس پردہ اسباب سامنے آنے میں وقت لگے گا لیکن اس قانون سے حکومت سندھ کو فائدہ ضرور ہو گا کہ گریڈ 19 اور اس سے اوپر کے پولیس افسروں کے تبادلوں اور تقرریوں کا اختیار وزیر اعلی کو حاصل ہو جائے گا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں