متحدہ اپوزیشن کا حکومت کیخلاف آئینی اور قانونی جنگ لڑنے کا اعلان
متحدہ اپوزیشن پہلے ہی جام حکومت کے خلاف عید کے بعد تحریک چلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن نے صوبائی مخلوط حکومت کو نااہل حکومت قرار دیتے ہوئے اُس کے خلاف آئینی اور قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔
متحدہ اپوزیشن کا لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کے حکومتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ30 جنوری کو اس ایوان نے لیویز کو پولیس میں ضم نہ کرنے کی ایک قرار داد منظور کی تھی یہ قرار داد حکومتی اتحادی جماعت اے این پی اور متحدہ اپوزیشن کے ارکان نے مشترکہ طور پر ایوان میں پیش کی تھی لیکن اس کے باوجود حکومت نے بلوچستان کے تین اضلاع میں لیویز کو پولیس میں ضم کر کے اپنی نا اہلی کا ثبوت دیا ہے اور خود کا مذاق اُڑایا ہے۔
صوبائی پی ایس ڈی پی کے معاملے پر بھی حکومت توہین عدالت کی مرتکب ہوئی ہے اور صوبے کے عوام کو 82ارب روپے سے بھی محروم کردیا ہے اور یہ رقم لیپس ہوگئی ہے۔ حکومت کا یہ عمل قابل سزا ہے اُسے اس کی سزا ملنی چاہیے۔ متحدہ اپوزیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ صوبائی مخلوط حکومت نے صوبے کے بعض اہم ایشوز سے بھی راہ فرار اختیار کی ہے بلوچستان اسمبلی کے سیشن میں دو دو گھنٹے تک اجلاس کا کورم پورا کرنے میں حکومت کو ناکامی ہوئی اور گذشتہ دو سیشن اپوزیشن جماعتوں نے چلائے۔ حکومتی ارکان کی عدم دلچسپی سے یہ ظاہر ہوگیا کہ موجودہ مخلوط حکومت کو بلوچستان کے عوام کی فلاح و بہبود اور اہم ایشوز سے کوئی سروکار نہیں جب حکومت کا ایسا رویہ ہو تو پھر ایسی اسمبلی کوتوڑ دینا ہی بہتر ہے۔
متحدہ اپوزیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسمبلی فلور پر حکومت اپوزیشن ارکان کو اہم ایشوز زیر بحث لانے سے روک رہی ہے تو اگر ہم ان مسائل کو سڑکوں پر لائیں تو کہا جائے گا کہ شرپسند ہیں اگر جلوس میں لائیں تو بدامنی پھیلانے والوں میں شامل ہونگے ۔اپوزیشن ارکان کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں ہم نے لیویز کو پولیس میں ضم کرنے اور پی ایس ڈی پی کے82 ارب روپے لیپس ہونے کے معاملے کے خلاف آئینی اور قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق متحدہ اپوزیشن پہلے ہی جام حکومت کے خلاف عید کے بعد تحریک چلانے کا ارادہ رکھتی ہے تاہم موجودہ حالات میں یوں محسوس ہو رہا ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن اس تحریک کا آغاز شاید رمضان المبارک میں ہی کردے اور پہلے مرحلے میں حکومت کے بعض فیصلوں کے خلاف اپوزیشن جماعتیں عدالت سے رجوع کریں کیونکہ بجٹ2019-20ء بھی آنے والا ہے جس کی تیاریاں شروع ہیں۔
ان سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق صوبائی مخلوط حکومت کے اندر بھی اتحادی جماعتیں بعض فیصلوں پر اپنے تحفظات رکھتی ہیں جبکہ یہ باتیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی گروپ میں بھی بعض معاملات میں اختلافات ہیں اور حال ہی میںبلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزراء کے محکموں کے قلمدان میں بھی ردوبدل کیا گیا ہے جبکہ دو ارکان اسمبلی جنہیں پارلیمانی سیکرٹری کے عہدے تفویض کئے گئے تھے وہ بھی شاید یہ عہدے چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ لیکن اس حوالے سے ابھی تک کوئی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
بعض سیاسی حلقوں کے مطابق گذشتہ دنوں اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی افواہیں بھی گردش کرتی رہی ہیں جس کی وضاحت بالآخر خود اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے میڈیا سے بات چیت کے دوران کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ میرے خلاف کوئی عدم اعتماد نہیں ہو رہی اور نہ ہی عدم اعتماد لانے کی ضرورت ہے۔ پارٹی اگر اسپیکر شپ لینا چاہتی ہے تو خوشی سے واپس دے دوں گا مجھے کرسی سے زیادہ پارٹی عزیز ہے۔ اسپیکر شپ ایک بڑی ذمہ داری ہے اپنے حلقے کو وقت نہیں دے پا رہا ہوں۔
سیاسی حلقے اُن کے اس وضاحتی بیان کو بھی بہت اہمیت دے رہے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے ورنہ میر عبدالقدوس بزنجو کو ایسا ڈپلومیٹک وضاحتی بیان دینے کی کیوں ضرورت پیش آئی۔ اگر ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے تو وہ صاف الفاظ میں اس کی تردید کرسکتے تھے لیکن اُن کے اس بیان میں بھی بہت سے اشارے مل رہے ہیں؟۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان کی سیاست میں آنے والے دن بہت اہم ہیں اس حوالے سے پارلیمانی سیاست کرنے والی جماعتیں خواہ وہ اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں موجودہ سیاسی تناظر کو مدنظر رکھ کر ہوم ورک شروع کئے ہوئے ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کی حکومت کے خلاف ایوان اور ایوان کے باہر تحریک اور آئینی و قانونی جنگ لڑنے کا اعلان بھی اس کی ایک کڑی ہو سکتی ہے تاکہ صوبے کی سیاست کو گرمایا جائے اور''تبدیلی'' کے عمل سے اسے جوڑ دیا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصے سے بلوچستان کی موجودہ مخلوط حکومت کے حوالے سے بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل، جے یو آئی (ف) کے حافظ حسین احمد سمیت دیگر رہنماؤں کے تند و تیز بیانات آرہے ہیں جس میں اس بات کا عندیہ دیا جارہا ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت کو رخصت کیا جارہا ہے لیکن حکومتی حلقوں کا ایسی باتوں کو افواہوں سے تعبیر کرتے ہوئے کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو ایسے خواب آتے رہتے ہیں حکومت مضبوط ہے اتحادیوں سمیت حکمران جماعت میں کوئی اختلاف نہیں جام کمال کی سربراہی میں موجودہ حکومت اپنی معیاد پوری کرے گی اور صوبے کے عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئے موجودہ حکومت ہر ممکن اقدام اُٹھا رہی ہے اور اُٹھاتی رہے گی۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ حکومتی یا اپوزیشن بنچوں پر بیٹھیں کیونکہ حکومت کا حصہ ہو کر تنقید کرنے سے مسائل حل نہیں ہونگے۔ اُنہوں نے جو چھ نکات پیش کئے ہیں اس میں اُن میں زیادہ تر نکات جائز ہیں جس پر ہماری صوبائی حکومت بھی گامزن ہے۔ سردار اختر مینگل حکومت سے علیحدہ ہو کر کھل کر حکومت پر تنقید کریں یا تو پھر حکومت میں شامل ہوکر بلوچستان کے مسائل حل کرانے میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ بلوچستان کے لوگ ترقی و خوشحالی چاہتے ہیں۔
متحدہ اپوزیشن کا لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کے حکومتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ30 جنوری کو اس ایوان نے لیویز کو پولیس میں ضم نہ کرنے کی ایک قرار داد منظور کی تھی یہ قرار داد حکومتی اتحادی جماعت اے این پی اور متحدہ اپوزیشن کے ارکان نے مشترکہ طور پر ایوان میں پیش کی تھی لیکن اس کے باوجود حکومت نے بلوچستان کے تین اضلاع میں لیویز کو پولیس میں ضم کر کے اپنی نا اہلی کا ثبوت دیا ہے اور خود کا مذاق اُڑایا ہے۔
صوبائی پی ایس ڈی پی کے معاملے پر بھی حکومت توہین عدالت کی مرتکب ہوئی ہے اور صوبے کے عوام کو 82ارب روپے سے بھی محروم کردیا ہے اور یہ رقم لیپس ہوگئی ہے۔ حکومت کا یہ عمل قابل سزا ہے اُسے اس کی سزا ملنی چاہیے۔ متحدہ اپوزیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ صوبائی مخلوط حکومت نے صوبے کے بعض اہم ایشوز سے بھی راہ فرار اختیار کی ہے بلوچستان اسمبلی کے سیشن میں دو دو گھنٹے تک اجلاس کا کورم پورا کرنے میں حکومت کو ناکامی ہوئی اور گذشتہ دو سیشن اپوزیشن جماعتوں نے چلائے۔ حکومتی ارکان کی عدم دلچسپی سے یہ ظاہر ہوگیا کہ موجودہ مخلوط حکومت کو بلوچستان کے عوام کی فلاح و بہبود اور اہم ایشوز سے کوئی سروکار نہیں جب حکومت کا ایسا رویہ ہو تو پھر ایسی اسمبلی کوتوڑ دینا ہی بہتر ہے۔
متحدہ اپوزیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسمبلی فلور پر حکومت اپوزیشن ارکان کو اہم ایشوز زیر بحث لانے سے روک رہی ہے تو اگر ہم ان مسائل کو سڑکوں پر لائیں تو کہا جائے گا کہ شرپسند ہیں اگر جلوس میں لائیں تو بدامنی پھیلانے والوں میں شامل ہونگے ۔اپوزیشن ارکان کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں ہم نے لیویز کو پولیس میں ضم کرنے اور پی ایس ڈی پی کے82 ارب روپے لیپس ہونے کے معاملے کے خلاف آئینی اور قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق متحدہ اپوزیشن پہلے ہی جام حکومت کے خلاف عید کے بعد تحریک چلانے کا ارادہ رکھتی ہے تاہم موجودہ حالات میں یوں محسوس ہو رہا ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن اس تحریک کا آغاز شاید رمضان المبارک میں ہی کردے اور پہلے مرحلے میں حکومت کے بعض فیصلوں کے خلاف اپوزیشن جماعتیں عدالت سے رجوع کریں کیونکہ بجٹ2019-20ء بھی آنے والا ہے جس کی تیاریاں شروع ہیں۔
ان سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق صوبائی مخلوط حکومت کے اندر بھی اتحادی جماعتیں بعض فیصلوں پر اپنے تحفظات رکھتی ہیں جبکہ یہ باتیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی گروپ میں بھی بعض معاملات میں اختلافات ہیں اور حال ہی میںبلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزراء کے محکموں کے قلمدان میں بھی ردوبدل کیا گیا ہے جبکہ دو ارکان اسمبلی جنہیں پارلیمانی سیکرٹری کے عہدے تفویض کئے گئے تھے وہ بھی شاید یہ عہدے چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ لیکن اس حوالے سے ابھی تک کوئی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
بعض سیاسی حلقوں کے مطابق گذشتہ دنوں اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی افواہیں بھی گردش کرتی رہی ہیں جس کی وضاحت بالآخر خود اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے میڈیا سے بات چیت کے دوران کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ میرے خلاف کوئی عدم اعتماد نہیں ہو رہی اور نہ ہی عدم اعتماد لانے کی ضرورت ہے۔ پارٹی اگر اسپیکر شپ لینا چاہتی ہے تو خوشی سے واپس دے دوں گا مجھے کرسی سے زیادہ پارٹی عزیز ہے۔ اسپیکر شپ ایک بڑی ذمہ داری ہے اپنے حلقے کو وقت نہیں دے پا رہا ہوں۔
سیاسی حلقے اُن کے اس وضاحتی بیان کو بھی بہت اہمیت دے رہے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے ورنہ میر عبدالقدوس بزنجو کو ایسا ڈپلومیٹک وضاحتی بیان دینے کی کیوں ضرورت پیش آئی۔ اگر ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے تو وہ صاف الفاظ میں اس کی تردید کرسکتے تھے لیکن اُن کے اس بیان میں بھی بہت سے اشارے مل رہے ہیں؟۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان کی سیاست میں آنے والے دن بہت اہم ہیں اس حوالے سے پارلیمانی سیاست کرنے والی جماعتیں خواہ وہ اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں موجودہ سیاسی تناظر کو مدنظر رکھ کر ہوم ورک شروع کئے ہوئے ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کی حکومت کے خلاف ایوان اور ایوان کے باہر تحریک اور آئینی و قانونی جنگ لڑنے کا اعلان بھی اس کی ایک کڑی ہو سکتی ہے تاکہ صوبے کی سیاست کو گرمایا جائے اور''تبدیلی'' کے عمل سے اسے جوڑ دیا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصے سے بلوچستان کی موجودہ مخلوط حکومت کے حوالے سے بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل، جے یو آئی (ف) کے حافظ حسین احمد سمیت دیگر رہنماؤں کے تند و تیز بیانات آرہے ہیں جس میں اس بات کا عندیہ دیا جارہا ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت کو رخصت کیا جارہا ہے لیکن حکومتی حلقوں کا ایسی باتوں کو افواہوں سے تعبیر کرتے ہوئے کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو ایسے خواب آتے رہتے ہیں حکومت مضبوط ہے اتحادیوں سمیت حکمران جماعت میں کوئی اختلاف نہیں جام کمال کی سربراہی میں موجودہ حکومت اپنی معیاد پوری کرے گی اور صوبے کے عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئے موجودہ حکومت ہر ممکن اقدام اُٹھا رہی ہے اور اُٹھاتی رہے گی۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ حکومتی یا اپوزیشن بنچوں پر بیٹھیں کیونکہ حکومت کا حصہ ہو کر تنقید کرنے سے مسائل حل نہیں ہونگے۔ اُنہوں نے جو چھ نکات پیش کئے ہیں اس میں اُن میں زیادہ تر نکات جائز ہیں جس پر ہماری صوبائی حکومت بھی گامزن ہے۔ سردار اختر مینگل حکومت سے علیحدہ ہو کر کھل کر حکومت پر تنقید کریں یا تو پھر حکومت میں شامل ہوکر بلوچستان کے مسائل حل کرانے میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ بلوچستان کے لوگ ترقی و خوشحالی چاہتے ہیں۔