سیاست کا مقبول ترین اور مسلسل ڈرامہ
پاکستانی سیاست بھی ڈرامے کی مانند ہے، جس میں ایسی حقیقت پیدا کی جاتی ہے کہ واقعات ارتقائی عمل کا حصہ معلوم ہوتے ہیں
پاکستانی سیاست بھی اسکرین پر چلنے والے ڈرامے کی مانند ہے۔ (فوٹو: فائل)
ٹی وی اسکرین پر ڈرامہ دیکھنے والے اس میں اتنا کھو جاتے ہیں کہ انہیں اس پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے، اس میں کسی حد تک اسکرپٹ، ڈائریکشن اور اداکاروں کی اداکاری کا بھی عمل دخل ہوتا ہے، جو اسکرپٹ میں اس طرح حقیقت کے رنگ بھرتے ہیں کہ ہر شخص اسے اپنے سامنے ہونے والے سچے واقعات کا مجموعہ سمجھتا ہے۔
پاکستانی سیاست بھی اسکرین پر چلنے والے ڈرامے کی مانند ہے، جس میں حقیقت کی ایسی شباہت پیدا کی جاتی ہے کہ دیکھنے والے کو واقعات ارتقائی عمل کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ جبکہ اسکرین کے پیچھے لکھے گئے اسکرپٹ اور ڈائریکٹر کا نہ انہیں ادراک ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی دسترس اور عملم و شعور اتنا ہوتا ہے کہ وہ سیاست کی باریکیوں کو سمجھ سکیں۔ اسی وجہ سے وہ حالات و واقعات کو اپنی تقدیر سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں۔
کچھ خواص ایسے بھی ہیں جو اسکرین کے پیچھے دیکھنے کی سکت رکھتے ہیں اور ہونے والے واقعات کا تسلسل سمجھ بھی رہے ہوتے ہیں، لیکن وہ اس پر خاموشی اختیار کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کے ذاتی مفاد کا معاملہ ہوتا ہے یا پھر وہ حقیقت سے دامن بچا رہے ہوتے ہیں اور اس کا سامنا نہیں کرسکتے۔
ہمارے ادارے بالخصوص سیکیورٹی سے متعلقہ ملک کی سرحدوں کے پاسبان ہیں اور اس محاذ پر بہت اچھے انداز میں اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں ادا کررہے ہیں۔ سیاست دانوں اور سول اداروں کی ناکامی، کرپشن، نااہلی اور اپنے مقام کا ادراک نہ ہونے کی وجہ سے عسکری ادارے کو سیاسی اور دیگر ریاستی معاملات میں دخل اندازی کرنا پڑتی ہے؛ اور یہ جو سلسلہ شروع ہوا تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ عسکری ادارے براہ راست بھی ملک پر حکمرانی کرتے رہے ہیں اور وہ دور سیاسی حکومتوں کی نسبت ترقی، خوشحالی، استحکام اور پالیسی کے تسلسل کے اعتبار سے اچھا رہا، جس نے عوام میں بھی اس ادارے کے اضافی کردار کےلیے نرم گوشہ اور قبولیت پیدا کی۔
اس میں زیادہ قصور ہمارے سیاستدانوں کا ہے جو اب تک ذاتی آمریت سے باہر نہیں نکل سکے اور انہوں نے نہ اپنی جماعت اور نہ ہی ملک میں جمہوریت کو پروان چڑھایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج سیاست پر صرف چند خاندانوں کی حکمرانی ہے۔
اگر ہم ماضی کے حالات و واقعات پر نظر دوڑائیں اور اس کا گہرائی سے جائزہ لیں تو ہمیں سیاسی کھیل اور اس کے محرکات سمجھ میں آنا شروع ہوجائیں گے۔ ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ کیسے 70 اور 80 کی دہائیوں میں سیاسی قیادتیں پیدا کی گئیں جو اپنی صلاحیت اور تجربے کے اعتبار سے کسی طور بھی اس مقام کے قابل نہیں تھیں۔ خود ساختہ تجزیے کے تحت کسی کو ریاست مخالف سمجھا گیا، پھر اس کا مقابلہ کرنے کےلیے بہت سے کردار پیدا کیے گئے۔ مختلف شہروں اور صوبوں میں انہیں ابھرنے کے مواقع فراہم کیے گئے تاکہ ان سےمخصوص وقت اور حالات میں ریاست کے وسیع تر مفاد میں کام لیا جاسکے۔ وہ فیصلے کچھ جگہوں پر ریاست کے حق میں معروضی حالات اور مخصوص وقت میں سودمند بھی ثابت ہوئے لیکن مستقبل میں ان کے اثرات آج تک ریاست بھگت رہی ہے۔
جہاں سندھ کے حالات کو دیکھتے ہوئے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کو ابھارا اور بار بار موقع دیا گیا، ویسے ہی اپنے مقاصد کےلیے پروان چڑھائے گئے سیاستدانوں کو اقتدار میں لانے کےلیے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا، جس کی فنڈنگ کے واقعات حال ہی میں عدالت میں زیرسماعت رہے اور میڈیا کی بھی زینت بنے۔ یہ عمل تسلسل کے ساتھ جاری ہے جس میں ایک خاص وقت تک بے نظیر بھٹو کی جگہ نواز شریف کو سپورٹ کیا گیا اور ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ یہ گروپ برسر اقتدار آئے اور ریاستی پالیسی کو آگے بڑھائے۔ پھر ایک وقت آیا کہ پیپلز پارٹی بھی گڈ بُک میں شامل ہوگئی اور اقتدار میں شراکت داری کا فارمولا اختیار کیا۔
کئی سیاسی اداکار آئے اور اپنے حصے کا کردار ادا کرکے چلے گئے۔ کبھی ایم ایم اے بنائی گئی جس میں وہ جماعتیں بھی شیر و شکر ہوگئیں جو ایک دوسرے کو مسلمان ماننے کےلیے بھی تیار نہ تھیں۔ اس ڈرامے میں ایسا کراماتی رنگ بھرا گیا کہ اپنی سیٹ بھی نہ جیتنے والے، دو صوبوں میں حکومت اور مرکز میں اپوزیشن لیڈر بن گئے۔ پانچ سال بعد جب اس جنتر منتر کا اثر ختم ہوا تو سب طلسم ٹوٹ گیا۔
لیکن اکثر ایسا ہوا کہ جس گروپ کو ایک ذمے داری دی گئی، اس نے اپنے کردار اور حیثیت سے زیادہ کا مطالبہ اور جستجو شروع کردی، کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ قناعت پسند نہیں اور ہمیشہ اوپر کی جانب دیکھتا ہے اور اپنی ذات میں فرعون بن جاتا ہے۔ پنجاب میں شریف خاندان نے امور حکومت میں خود مختاری اور عوام کی فلاح و بہبود سے ہٹ کر اپنی کرپشن اور خاندانی آمریت کے قیام کےلیے جدوجہد شروع کردی تو راستے جدا ہوگئے۔ مسلم لیگ کے بطن سے ق لیگ نے جنم لے لیا، یہی حال سندھ کے شہری علاقوں کی جماعت ایم کیو ایم کا بھی ہوا۔ جب دو بڑی جماعتوں کی آمریت اور کرپشن حد سے بڑھی اور انہیں زیادہ حصہ اور بنا کسی روک ٹوک کرپشن کرنے کی لت لگ گئی تو لامحالہ سیاست کے ڈرامے میں ایک اور کردار کی انٹری کرائی گئی۔
طلسماتی ہاتھ لگنے کی دیر تھی کہ بےجان جسم میں نئی روح پیدا ہوگئی، لوگوں کی آمد شروع ہوئی اور سیاست میں ایک بڑا فریق پیدا ہوگیا۔ اسے تبدیلی کا نیا نعرہ دے دیا گیا۔ لیکن اس کردار کی آمد پہلے کرداروں کو ایک آنکھ نہیں بھائی اور ڈرامے میں نیا ایڈونچر پیدا ہوگیا۔ عوامی رجحان بڑھا اور ان کےلیے تفریح کا سامان بھی پیدا ہوگیا۔ حالیہ الیکشن میں ہیرو کا کردار نئے اداکار کو دینا مشکل تھا، اس لیے پھر سے توڑ پھوڑ کا عمل شروع ہوا۔ معاون اداکاروں نے نئے ہیرو کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ پھر ایک نئے حادثاتی مولا جٹ کردار کی انٹری کروائی گئی جو نواز شریف کےلیے مشکلات کھڑی کرے۔ مخصوص مسلک کے ووٹ توڑنے کےلیے، ان کا نمائندہ بنوانے کے حالات پیدا کیے گئے۔
اسکرپٹ اتنا جاندار تھا کہ اس قسط نے بھی کامیابی حاصل کی اور اقتدار پر عمران خان براجمان ہوئے؛ اور نیا کردار اب جیل میں آرام کررہا ہے۔
ریاستی ادارے جہاں ملکی سالمیت اور خودمختاری کے ایجنڈے پر کام کرواتے ہیں، وہیں زیادہ طاقت کے نشے میں مبتلا کرداروں کو نئے سے بدلنے کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔ یہ کھیل کئی دہائیوں سے جاری ہے، اور کب تک جاری رہے گا؟ کسی کو خبر نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔