آزادی صحافت ایک کمٹمنٹ

آج انعام درانی صاحب اس دنیا میں نہیں ہیں مگر آزادی صحافت کا عالمی دن پوری دنیا میں منایا گیا۔

1975-76 کی بات ہے۔ دشت صحافت میں تجربات کی ابتدائی مسافت کا سلسلہ جاری تھا۔ ایک سینئر صحافی نے غیر رسمی صحافتی تربیت کے دوران بتایا تھا کہ عورت کی عصمت اور اخبارکی لوح اگر ایک بار ''پِٹ'' جائے تو اس کی بحالی پھر مشکل ہے۔اس قول زریں کی صداقت اہل کراچی اپنی آنکھوں سے اخلاقی زوال اوراخبار کی موت کی شکل میں دیکھ چکے ہیں۔اس پس منظر میں ماضی کے روزنامہ ''انجام'' کی ایک بار پھر کراچی سے شایع ہونے کی تیاریاں اشتیاق و دلچسپی کا سبب بنی ہوئی تھیں۔

اس بار اس کی اشاعت کا بیڑا ممتاز کالم نویس اور منفرد طنز نگار انعام درانی نے اٹھایا تھا۔کراچی کی اخباری صنعت پر اجارہ داری کی کشمکش زوروں پر تھی، مشہور تھا کہ کوئی نیا اخبار چاہے کراچی کا مقامی مالک نکالے یا پاکستان کے دوسرے شہر سے کوئی مستند و معتبر روزنامہ یہاں سے اپنی اشاعت کا آغاز کرے اس کی مرگ ناگہانی یقینی سمجھی جاتی تھی،کچھ نایدیدہ ہاتھ سلیمانی ٹوپی پہن کر نئے اخبار کو بک اسٹالوں اور ڈپوؤں سے منٹوں میں غائب کرا دیتے ۔ان ہی حوالوں سے شہر قائد کو ''اخبار کُش'' شہر بھی کہا جاتا تھا۔ ''انجام'' تقسیم ہند سے قبل ہندوستان کا موقر روزنامہ تھا ،عثمان آزاد اس کے مالک ومدیر اعلیٰ تھے، انجام نے روزنامہ ''مشرق'' سے پہلے کراچی کے سیف ڈپازٹ چیمبرز سے اشاعت کا آغاز کیا اور بڑے جید و نامور صحافی اس سے وابستہ تھے۔ پھر اسے مشرق میں ضم کیا گیا۔

انعام درانی کی زیر ادارت انجام کی کہانی بے حد ڈرامائی،سنسنی خیز اور کسی سائنس فکشن سے کم نہ تھی۔ایک دن سینئر صحافی ذاکر نسیم اور میں انجام سے وابستہ ہونے کے لیے روانہ ہوئے ۔ اخبار کا دفتر ایم اے جناح روڈ پر سندھی اخبار ''ہلال پاکستان'' کی بلڈنگ میں قائم تھا ۔ان دنوں ہلال پاکستان کا طوطی بولتا تھا، سراج الحق میمن اس کے دبنگ ایڈیٹر تھے،جب کہ مساوات کراچی کی ادارت ''خدا کی بستی'' کے مصنف اور نامور صحافی شوکت صدیقی کے سپرد تھی۔ اختر پگاں والا کا قسطوں پر ٹیکسی اور دیگرگاڑیاں دینے کا دفتر بھی اسی عمارت میں تھا۔

انعام درانی نے ہم دونوں کی درخواستیں قبول کیں، ذاکر نسیم نے سٹی پیچ سنبھال لیا اور میں نے نیوز ایڈیٹر نیئر علوی اور ایگزیکٹو ایڈیٹر اختر عالم کے کہنے پر اسٹاف رپورٹر کے طور پر کام شروع کردیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ کل پہلا شمارہ مارکیٹ میں آرہا ہے ، اس لیے موسٹ ایکسکلوسیو اسٹوری فائل کریں۔ میں نے اپنی خبر فائل کی اور گھر چلا گیا۔ صبح دم اخبارکی تلاش میں نکلا اور سیدھا نگار سنیما کے بک اسٹال پر پہنچا، تجسس اور انتظار تھا کہ پہلا شمارہ دفتر جانے سے پہلے دیکھ لوں ۔ بک اسٹال والا جان پہچان کا تھا ، جب میں نے اس سے روزنامہ انجام مانگا تو اس نے پہلے تو مجھے دزدیدہ نظروں سے دیکھا پھرکہنے لگا آپ کو شاید خبر نہیں کہ انجام بند ہوگیا۔ وہ کیسے؟ میں مجسم سوال بن گیا۔وہ کہنے لگا میرے پاس ایک اعزازی شمارہ ہے جسے آپ صرف دیکھ سکتے ہیں۔

میرے تو پاؤں تلے زمین نکل گئی تھی ۔میں نے اخبارکی سرخی پر نظر ڈالی جو لسانیت کے رنگ میں ڈوبی ہوئی اور انتہائی نفرت انگیز تھی۔صفحہ اول پر اعتذار کا ایک باکس لگا تھا جس پر انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا تھا کہ بعض کالی بھیڑوں کی سازش کی وجہ سے اخبار بند کرنا پڑا۔ تاہم اندر کی بات بہت خوفناک تھی کیونکہ جب ہم نے ڈیوٹی جوائن کی تو میگزین کے صفحے تیار ہو رہے تھے،اور اشاعت کے لیے پریس بھی جا چکے تھے ۔ان صفحات کی کہانی پریس مین کالے خان کی زبانی سنی گئی ۔ ان کا کہنا تھا کہ رات کے کسی پہر وہ چھپا ہوا کوئی فرما دیکھنے لگے تو یہ دیکھ کر ان کی حالت غیر ہوئی کہ سارا میٹر اینٹی سٹبلشمنٹ تھا، احمد فراز کی طویل باغیانہ نظمیں اور دیگر شعرا کا کلام اور مضامین میگزین کا حصہ تھے۔ ذرایع کا کہنا تھا کہ کالے خان نے پرنٹر کو جگایا صورتحال سے آگاہ کیا جو اپنے کمرے میں آرام کر رہے تھے، پرنٹر نے جلدی سے شٹر گرادیے اور میگزین کا سارا پرنٹڈاخبار جلادیا۔یوں روزنامہ ''انجام'' اپنے انجام کو پہنچا۔


میں اور نسیم ذاکر شام کو دفتر پہنچے تو نائب قاصد نے کہا کہ انعام درانی صاحب اپنے کمرے میں موجود ہیں۔ ہمیں دیکھ کر وہ سوچ میں پڑگئے، میں دل گرفتہ اور چپ تھا مگر نسیم ذاکر نے کہا ، ڈیڈی کیا ہوا؟ یاد رہے انعام درانی کو پیار سے لوگ ڈیڈی کہا کرتے تھے۔ درانی صاحب نے کسی توقف کے بغیر کہا '' ارے بھائی ہونا کیا تھا ،کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ میں مولانا حسرت موہانی کا پیروکار ہوں اور میری آزاد صحافت کا انداز یہی ہے۔ '' اس کے بعد ان کی مزید گفتگو سننے کی ہم میں تاب نہ تھی ہم خدا حافظ کرکے کمرے سے باہر نکل آئے۔

آج انعام درانی صاحب اس دنیا میں نہیں ہیں مگر آزادی صحافت کا عالمی دن پوری دنیا میں منایا گیا۔ پاکستان میں آزادی صحافت کی جدوجہد کی اپنی ایک لازوال تاریخ ہے ، ہم جب نوواردان صحافت تھے تو ہمیں بزرگ صحافیوں نے ہمیشہ یہی کہا کہ صحافی ضمیر کا قیدی ہوتا ہے۔ چنڈو خانے کی خبریں نہیں دیتا اور ہر قسم کی ترغیبات سے دامن بچاتے ہوئے سچ کی کھوج لگاتا ہے،کبھی جھکتا اور بکتا نہیں،اس کی پیشہ ورانہ کمٹمنٹ غیرمشروط ہوتی ہے، احفاظ الرحمان صاحب نے مساوات میں میری اور ناصر بیگ چغتائی کی رہنمائی کی ، سمجھایا کہ فیچر رائٹنگ کے لیے اسلوب اور مطالعہ کی کتنی اہمیت ہوتی ہے وہ خبر کے لیے سچ کی بنیاد کو صحافی کے ایمان سے جڑا ہوا سمجھتے تھے۔

یہ وہ دور تھا جب آزادی صحافت نعرہ یا کلیشئے نہ تھا بلکہ صحافت شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے کا نام تھا۔ صحافی کے قلم کی اصل روح ایک بیمار، رجعت پسند اور آمریت کے ڈسے ہوئے بے سمت سماج کو عوام کی امنگوں سے ہم آہنگ کرنا تھا۔ابو کہا کرتے تھے کہ صحافت کی ڈگری اہم نہیں پیشہ صحافت کی آبرو کو متاع عزیزسمجھو۔ کسی عہدہ کی تمنا مت رکھو، بس بے داغ ورکنگ جرنلسٹ رہو اسی میں قلبی اطمینان اور ضمیر کی خوشی پنہاں ہے۔ وہ کہتے تھے کہ صحافت کی عملی ، فکری اور نظریاتی تاریخ کے بارے میں مطالعہ کا باب بند مت کرو۔

یوں ہم نے صحافت کے نشیب وفراز، معاشرے میں جمہوری عمل اور ریاستی ستونوں میںچوتھے ستون کی اہمیت پر غور وفکر کی راہ اپنائی، سینئرز سے سیکھا، مشنری صحافت تو ہماری جوانی ہی میں رخصت ہوچکی تھی ، جرنلزم ایک انڈسٹری تھی، الیکٹرانک میڈیا کے ایڈیٹ باکس کا دور دورہ نہ تھا، صحافت میں طبقاتی تقسیم نہ تھی ، اردو اور انگریزی جرنلزم سے وابستہ لوگوں میں وضع داری تھی، کوئی سینئر صحافی خدائی لہجے میں نہیں بولتا تھا، کراچی پریس کلب میں سینئرز جب مل بیٹھتے تو ہماری کوشش ہوتی کہ ان کے قریب کسی میز پر جگہ مل جائے تاکہ ان کی گفتگو سنی جائے، کیا بات تھی کہ جب پروفیسر لطیف احمد خان اور محمد میاں پیار سے بلاتے تو اس روز ہماری فکر اور وژن کو سونے کا پانی چڑھا دیتے، ان سے ملاقات ریفریشر کورس کے برابر تھی، ان کی جونیئر کو نصیحت کرنا افضل ترین رضاکارانہ صحافتی ذمے داری تھی، یہ وہ زمانہ تھا جب سیل فون بھی نہ تھے، نئے صحافیوں کے لیے APP-PPI کی کریڈ سے ترجمہ کرنا ناگزیر تھا، نیٹ بھی نہ تھا ، سوشل میڈیا کی لہر نہ تھی ۔

شام کے اخبار بھی شایع ہوتے تھے، ان کی اپنی ریڈرشپ تھی، ییلو جرنلزم کا طعنہ اس وقت بھی سنتے تھے، باور کرایا جاتا تھا کہ خبر ڈبل چیک ہو تاکہ کوئی اسے چیلنج نہ کرے، سنی سنائی باتوں کی فیک نیوز کا چلن تھا بھی تو ڈمی اخبارات تک محدود تھا، بحیثیت مجموعی کوئی آئیڈیل سچویشن نہ تھی ، مگر نیوز ڈیسک ، میگزین اور دیگر بیٹس پر کام کرنے کے لیے بنیادی صلاحیت رپورٹر یا سب ایڈیٹر کی اردو اور انگریزی سے اچھی شدھ بدھ لازمی تھی۔

اس لیے بڑے اور موقر اخبارات سے وابستہ نئے صحافیوں کے لیے good and bad صحافت کا راستہ کسی جامعہ سے کنیکٹ ہونے سے کم نہ تھا، بڑوں کی صحبت میں چھوٹوں کی پذیرائی کا ماحول تخلیقی صحافت کو مہمیزکرنے کا وسیلہ بنتا تھا، مجھے تو عمر رسیدہ کاتبوں نے اردو کی املا، تلفظ اور ہجے سے روشناس کرایا، ہم جیسے نوجوانوں کی خوش نصیبی تھی کہ جنھیں شہزاد منظر، شوکت صدیقی، طاہر احمر، ابراہیم جلیس، فرہاد زیدی ، نذیر ناجی ، یونس ریاض، خالد علیگ ، ہمایوں عزیز، نسیم شاد، عبدالوحید خان (صاحب) اے آر ممتاز،آفتاب سید، افسر آذر،نعیم آروی ، سجاد میر، ہمایوں ادیب، ہارون رشید اور دیگر سینئرز کی سرپرستی اور تحریریں پڑھنے کوملیں اور ان کی انفرادی رہنمائی نصیب ہوئی، باقی باتیں آیندہ ہونگی۔
Load Next Story