قاتل تھیلیاں

میڈیکل اسٹور سے ادویات کے لیے بھی میں ٹوکری استعمال کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ میرا یہ عمل بہت ناکافی ہے۔

جو تبدیلی عوام لا سکتے ہیں وہ تبدیلی تو عوام کو لانا چاہیے ، اگر عوام پلاسٹک کی '' قاتل تھیلیاں '' استعمال کرنا چھوڑ دیں تو پاکستان کا آدھا گند اور آدھی بیماریاں ختم ہو سکتی ہیں۔ میں نے یہ کالم شروع کر دیا ہے اور ٹوکری اٹھا لی ہے، دودھ اور دہی کے لیے گھر سے برتن لے کر بازار جاتا ہوں، سبزی والے سے آلو ، ٹماٹر ، ہری مرچ ، دھنیا اور سبزیاں اپنی ٹوکری میں ڈلواتا ہوں۔ بیکری سے انڈے کہہ کر کاغذ کی تھیلی میں ڈلواتا ہوں۔ جنرل اسٹور سے دالیں، گھی، تیل، صابن، یہ سب چیزیں میں ٹوکری میں ڈال کر گھر لاتا ہوں ۔

میڈیکل اسٹور سے ادویات کے لیے بھی میں ٹوکری استعمال کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ میرا یہ عمل بہت ناکافی ہے۔ مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے اس عمل کے نتیجے میں کم از کم بیس پچیس '' قاتل تھیلیاں'' میری زندگی سے خارج ہو گئی ہیں اور یہ روزانہ کا حساب ہے۔ اس طرح مہینے میں 600 سے 700 '' قاتل تھیلیوں'' سے میں نے معاشرے کو محفوظ کر لیا ہے۔ اب میری طرح سارے عوام ان '' قاتل تھیلیوں'' کا بائیکاٹ کر دیں تو بات کروڑوں تھیلیوں تک جا پہنچتی ہے۔ کم از کم یہ تبدیلی تو ہم عوام کو اپنی زندگیوں میں لے آنی چاہیے۔

بعض اوقات تو یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم گھر میں داخل ہونے سے پہلے ہی دوا، شیونگ کریم یا ٹوتھ برش نکال کر تھیلی پھینک دیتے ہیں اور پھر یہ قاتل تھیلیاں ہماری گلیوں، بازاروں میں آوارہ گھومتی پھرتی نظر آتی ہیں۔ پورے ملک کے چھوٹے بڑے شہروں، قصبوں، گاؤں گوٹھوں میں ان قاتل تھیلیوں کا راج ہے۔ کراچی سے ریل میں بیٹھیں اور پشاور تک چلے جائیں، پٹری کے دونوں جانب یہ قاتل تھیلیاں گند کے ڈھیروں کی شکل میں نظر آتی ہیں۔ ادھر کوئٹہ تک بھی ریل کے سفر میں یہی مناظر نظر آئیں گے۔ یہ تھیلیاں ہمارے ندی نالوں سے دریاؤں میں بہتی ہوئی سمندر میں جا کر سمندر کو بھی خراب کرتی ہیں۔ ہماری مچھلیوں کو تباہ برباد کرتی ہیں۔ یہ جو شہر شہر گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ یہ جو ہمارے سیوریج نظام برباد ہیں۔ یہ سب انھی قاتل تھیلیوں کا کیا دھرا ہے۔ جس گٹر کی صفائی کرواؤ اندر سے یہی تھیلیاں نکلتی ہیں۔

میری عوام سے دست بستہ التجا ہے کہ ان تھیلیوں کا بائیکاٹ کر دیں۔ یہ ہمارے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے بہت ضروری عمل ہے۔ فائدہ حاصل کرنے کے لیے کچھ تکلیف تو اٹھانا ہی پڑتی ہے اور یہ ذرا سی تکلیف ہمارے بچوں کا بہترین مفاد ہے۔ مجھے خوب اچھی طرح سے یاد ہے کہ ہمارے گھروں میں دودھ والا دودھ دینے آتا تھا تو ہم برتن لے کر دروازے پر جاتے تھے اور دودھ والا اس برتن میں دودھ ڈال دیتا تھا۔ ہم جنرل اسٹور پر جاتے تھے تو دالیں، لال مرچ، پسا ہوا دھنیا، ہلدی، نمک، چاول، یہ سارا سامان ہمیں کاغذ کے لفافوں میں دیا جاتا تھا اور ہم سب جانتے ہیں کہ کاغذ فوراً گل جاتا ہے جب کہ یہ قاتل تھیلیاں پانچ سو سال بعد گلتی ہیں۔ ان تھیلیوں کی وجہ سے محض ذرا سی سہولت کی خاطر ہم اپنے بچوں کے مستقبل کو داؤ پر لگائے بیٹھے ہیں۔

کئی بار حکومتوں نے ان قاتل تھیلیوں پر پابندی لگائی مگر تھوڑا عرصہ پابندی کے بعد رشوت کھلا کر یہ تھیلیاں پھر آزاد ہو جاتی ہیں اور انسانوں کی زندگیوں میں زہر گھولنا شروع کر دیتی ہیں۔ ان تھیلیوں کا خاتمہ صرف اور صرف عوام ہی کر سکتے ہیں۔ خدارا گھروں سے کپڑے کے تھیلے یا ٹوکریاں لے کر نکلیں اور دودھ دہی کے لیے برتن لے کر جائیں۔ یہ ذرا سی تکلیف ہمیں اور ہمارے بچوں کو مہلک ترین بیماریوں سے بچا سکتی ہے۔ یہ ہیپاٹائٹس اے، بی، سی ، یہ جلدی امراض، کینسر، ٹی بی، ذہنی خلفشار، نظام ہضم کی خرابی، جگر، گردے، پھیپھڑے، سانس کی تکلیف سب انھی تھیلیوں کا کیا دھرا ہے۔ روانڈا ایک چھوٹا سا افریقی ملک ہے۔ بیس پچیس سال پہلے اس ملک میں کوئی قانون کی پاسداری نہیں کرتا تھا، مگر آج روانڈا کا یہ حال ہے کہ ایئر پورٹ پر آپ کے سامان سے پلاسٹک بیگ نکل آئے تو وہ اسے نکال کر ضبط کر لیتے ہیں۔ آج روانڈا صفائی ستھرائی کے اعتبار سے مثالی ملک بن چکا ہے۔ دیگر ترقی یافتہ ممالک کا تو کیا کہنا، وہاں تو آپ چاکلیٹ کا ریپر سڑک پر نہیں پھینک سکتے۔


ذرا غور کیجیے صفائی ہم مسلمانوں کا نصف ایمان ہے اور اس اسلامی اصول پر عمل غیر مسلم کر رہے ہیں اور ہمارا نصف ایمان گلیوں، سڑکوں، بازاروں میں رسوا ہو رہا ہے۔ کہیں گندا پانی بہہ رہا ہے، کہیں گندگی کے ڈھیر پڑے ہیں، بدبوکے بھبکے پھیل رہے ہیں اور ہم عوام خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ بہت سے مسائل میں ہم عوام مبتلا ہیں، گھرے ہوئے ہیں، وہ گمبھیر مسائل تو کوئی اللہ کا طاقتور مضبوط بندہ ہی حل کرے گا۔ مگر یہ چھوٹا سا معمولی سا عمل تو ہم عوام کے بس میں ہے کہ ہم ان قاتل تھیلیوں کا بائیکاٹ کر دیں۔

آخر میں ایک واقعہ سن لیں۔ میں ایک دوست کے والد کو قبرستان دفنانے کے لیے گیا تھا۔ قبر چار فٹ گہری تیار کی گئی اور سب دیکھ رہے تھے کہ اس چار فٹ گہری قبر کے اطراف پلاسٹک کی تھیلیاں نظر آرہی تھیں اور والد محترم کو انھی تھیلیوں کے ساتھ دفنا دیا گیا۔ ہم کتنے بے حس ہو چکے ہیں۔ ''کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں!''

اس امید کے ساتھ ''شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات'' اور ہم اپنے نصف ایمان کو بچا لیں، حضرت علامہ اقبال کا شعر اور اجازت:

زباں سے کہہ بھی دیا لاالا تو کیا حاصل

دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
Load Next Story