سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام تشخیص کے آلات و ادویہ سے محروم
ملازمین کو4ماہ سے تنخواہ نہیں ملی، منظور نظر این جی او کوسالانہ 8کروڑمیں آگاہی کاٹھیکہ
لاڑکانہ میں ایچ آئی وی ایڈز وائرس نے دہشت پھیلادی ہے لیکن اب تک 125سے زائد افرادمیں ایچ آئی وی اور ایڈزکے مرض کی تشخیص ہونے کے باوجود سندھ ایڈزکنٹرول پروگرام کے پاس ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص کیلیے کٹ دستیاب نہیں۔
سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے ملازمین نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام نے ایک منظور نظر این جی او کو سالانہ 8کروڑ روپے میںآگاہی کا ٹھیکہ دے رکھا ہے اور رواں سال ایچ آئی وی ایڈز کے خلاف آگاہی مہم بھی نہیں چلائی جاسکی جس کی وجہ سے لاڑکانہ میں ایچ آئی وی ایڈز وبائی صورت اختیار کررہا ہے، ایچ آئی وی ایڈز جان لیوا مرض ہے جس کا علاج اب تک دریافت نہیں کیا جاسکا۔ یہ مرض ایک وائرس کے ذریعے پھیلتا ہے جو انسانی مدافعتی نظام کو تباہ کردیتا ہے۔
ایڈز کا مرض1920 کی دہائی میں جمہوریہ کانگوکے شہر کنشاسا میں رپورٹ ہواتھا۔ وہاں سے یہ وائرس افریقی ممالک میں پھیلتاچلا گیا۔
اقوام متحدہ کے ایڈز سے متعلق پروگرام کے مطابق دنیا بھر میں اس بیماری سے متاثرہ افراد کی تعداد37 ملین ہے۔ ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص کے بعد علاج نہ کرایا جائے تو تپ دق، بیکٹیریل انفیکشن، کینسر سیمت دیگر امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایڈز ایک لاعلاج مرض ہے مگر اس وائرس کوکنٹرول کرکے مریض صحت مند زندگی گزار سکتا ہے۔
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ایچ آئی وی کے مرض میں رپورٹ ہوچکے ہیں سندھ میں60ہزار سے زائد افراد اس مرض کا شکار ہیں، اس مرض کے روک تھام کیلیے1632ملین کاپی ون تیار کیا جاچکا ہے جبکہ محکمہ صحت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ پی سی ون سرد خانے کی نذر ہے۔ پی ون میں صوبے میں 9 ضلعی صحت مراکرز کا قیام، 24ضلعی خاندانی مراکز کے قیام، 300 خاندانی کاؤنٹرزکا قیام اور تیکنیکی افراد کی بھرتی شامل ہے۔
سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق کراچی میں سب سے زیادہ ایچ آئی وی/ایڈ ز کے مریض پائے جاتے ہیں۔ 2015 تک کراچی میں ایڈزکیمریضوں کی تعداد 8085تھی لیکن اب سندھ میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سندھ میں ان مریضوں کی شرح 8.3فیصد سے تجاوزکرکے 17.7فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
صوبہ سندھ میں کراچی اور لاڑکانہ میں اس مرض کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ کراچی اور لاڑکانہ میں منشیات کے عادی افراد اور خواجہ سراؤں میں یہ مرض بہت زیادہ ہے۔ صرف کراچی میں منشیات کے عادی 42فیصد افراد جبکہ خواجہ سراؤں میں20 فیصد وائرس موجود ہے جو اس مرض کے پھیلاؤکا سبب بن رہے ہیں۔
ایچ آئی وی /ایڈز کنٹرول پروگرام کے مارچ2019کے اعدادوشمار کے مطابق سندھ میں15876 افراد اس مرض میں متبلا ہیں جس میں سے کراچی میں 11282، لاڑکانہ میں2016، سکھر میں581، میرپورخاص میں157، دادو میں123، جیکب آباد میں43، سانگھر میں199، شہید بے نظیرآباد میں84، جام شورو میں 17، شکاپور میں57 ، قنبرشہدادکوٹ میں112، ٹھٹھہ میں66، مٹیاری میں4، کشمور میں16، خیرپور میں60، تھرپارکر میں 2، گھوٹکی میں18، بدین میں81، نوشہروفیروز میں14، ٹنڈوالہ یار میں7، سجاول میں2، عمرکورٹ میں2، ٹنڈومحمد خان میں 3، نصیرآباد میں2 اور دیگرمقامات377مریض موجود ہیں۔ اس طرح بلوچستان میں142، پنجاب میں86، کے پی کے میں 73، آزاد کشمیر میں4، گلگت بلتستان میںایک جبکہ فاٹا میں5افراد اس مرض میں متبلا پائے گئے ہیں۔ حکومت پاکستان کو اس مرض کے خلاف سنجیدگی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے ملازمین نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام نے ایک منظور نظر این جی او کو سالانہ 8کروڑ روپے میںآگاہی کا ٹھیکہ دے رکھا ہے اور رواں سال ایچ آئی وی ایڈز کے خلاف آگاہی مہم بھی نہیں چلائی جاسکی جس کی وجہ سے لاڑکانہ میں ایچ آئی وی ایڈز وبائی صورت اختیار کررہا ہے، ایچ آئی وی ایڈز جان لیوا مرض ہے جس کا علاج اب تک دریافت نہیں کیا جاسکا۔ یہ مرض ایک وائرس کے ذریعے پھیلتا ہے جو انسانی مدافعتی نظام کو تباہ کردیتا ہے۔
ایڈز کا مرض1920 کی دہائی میں جمہوریہ کانگوکے شہر کنشاسا میں رپورٹ ہواتھا۔ وہاں سے یہ وائرس افریقی ممالک میں پھیلتاچلا گیا۔
اقوام متحدہ کے ایڈز سے متعلق پروگرام کے مطابق دنیا بھر میں اس بیماری سے متاثرہ افراد کی تعداد37 ملین ہے۔ ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص کے بعد علاج نہ کرایا جائے تو تپ دق، بیکٹیریل انفیکشن، کینسر سیمت دیگر امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایڈز ایک لاعلاج مرض ہے مگر اس وائرس کوکنٹرول کرکے مریض صحت مند زندگی گزار سکتا ہے۔
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ایچ آئی وی کے مرض میں رپورٹ ہوچکے ہیں سندھ میں60ہزار سے زائد افراد اس مرض کا شکار ہیں، اس مرض کے روک تھام کیلیے1632ملین کاپی ون تیار کیا جاچکا ہے جبکہ محکمہ صحت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ پی سی ون سرد خانے کی نذر ہے۔ پی ون میں صوبے میں 9 ضلعی صحت مراکرز کا قیام، 24ضلعی خاندانی مراکز کے قیام، 300 خاندانی کاؤنٹرزکا قیام اور تیکنیکی افراد کی بھرتی شامل ہے۔
سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق کراچی میں سب سے زیادہ ایچ آئی وی/ایڈ ز کے مریض پائے جاتے ہیں۔ 2015 تک کراچی میں ایڈزکیمریضوں کی تعداد 8085تھی لیکن اب سندھ میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سندھ میں ان مریضوں کی شرح 8.3فیصد سے تجاوزکرکے 17.7فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
صوبہ سندھ میں کراچی اور لاڑکانہ میں اس مرض کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ کراچی اور لاڑکانہ میں منشیات کے عادی افراد اور خواجہ سراؤں میں یہ مرض بہت زیادہ ہے۔ صرف کراچی میں منشیات کے عادی 42فیصد افراد جبکہ خواجہ سراؤں میں20 فیصد وائرس موجود ہے جو اس مرض کے پھیلاؤکا سبب بن رہے ہیں۔
ایچ آئی وی /ایڈز کنٹرول پروگرام کے مارچ2019کے اعدادوشمار کے مطابق سندھ میں15876 افراد اس مرض میں متبلا ہیں جس میں سے کراچی میں 11282، لاڑکانہ میں2016، سکھر میں581، میرپورخاص میں157، دادو میں123، جیکب آباد میں43، سانگھر میں199، شہید بے نظیرآباد میں84، جام شورو میں 17، شکاپور میں57 ، قنبرشہدادکوٹ میں112، ٹھٹھہ میں66، مٹیاری میں4، کشمور میں16، خیرپور میں60، تھرپارکر میں 2، گھوٹکی میں18، بدین میں81، نوشہروفیروز میں14، ٹنڈوالہ یار میں7، سجاول میں2، عمرکورٹ میں2، ٹنڈومحمد خان میں 3، نصیرآباد میں2 اور دیگرمقامات377مریض موجود ہیں۔ اس طرح بلوچستان میں142، پنجاب میں86، کے پی کے میں 73، آزاد کشمیر میں4، گلگت بلتستان میںایک جبکہ فاٹا میں5افراد اس مرض میں متبلا پائے گئے ہیں۔ حکومت پاکستان کو اس مرض کے خلاف سنجیدگی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔