قابلِ ستائش بِل
قابلِ ستائش بِل
صدر کے پریس سیکریٹری اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے عسکری خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (ISI) کے اختیارات میں کمی کا بل ایوان بالا یعنی سینیٹ میں جمع کرایا ہے۔ جس میں آئی ایس آئی کے اسٹرکچر میں تبدیلی، ایجنسی کے سربراہ کی حیثیت کے طریقہ کار اور ایجنسی کو سول حکومت کے ماتحت کرنے کے ساتھ ساتھ امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی طرز کی ایجنسی بنانا شامل ہے۔ اس بل میں کہا گیا ہے کہ ایجنسی کا سربراہ حاضر فوجی افسر کے بجائے کوئی ریٹائرڈ سول افسر بھی ہو سکتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سینیٹر بابر نے اپنی ذاتی حیثیت میں یہ بل جمع کرایا ہے۔ سینیٹر بابر کا یہ بل ملکی صورتحال میں خاصی اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستان کی سیاست میں خفیہ ایجنسیوں کا کردار ہمیشہ موضوعِ بحث رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاستدان فوجی اور سول حکومتوں میں خفیہ ایجنسیوں کے کردار کا تذکرہ کرتے رہے۔جب جنرل ایوب خان نے مارشل لاء کے خاتمے کا فیصلہ کیا تو مسلم لیگ کے رہنما اور قائد اعظم کے ساتھی چوہدری خلیق الزماں نے انھیں مسلم لیگ کی صدارت کی پیشکش کی۔ جس میں ممتاز دولتانہ، شوکت حیات خان، عبدالقیوم خان جیسے اکابرین شامل تھے۔ ایوب خان نے ان رہنمائوں کے مقابلے میں مسلم لیگ کی قیادت پر قبضہ کیا اور مسلم لیگی رہنمائوں کو اپنی قیادت میں متحد کرنے کے لیے خفیہ ایجنسیوں کو استعمال کیا اور خفیہ ایجنسیوںنے صدارتی انتخاب میں فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کو کامیاب کرا دیا۔
جب 1970ء میں جنرل یحییٰ خان نے عام انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کیا تو پہلے انتخابات کے ممکنہ نتائج کے بارے میں خفیہ ایجنسیوں سے رپورٹ طلب کی تو ایجنسیوں نے اپنی رپورٹوں میں بتایا کہ انتخابات میں کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی۔ مگر انتخابی نتائج الٹ گئے اور جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی واضح کامیابی کو تسلیم نہیں کیا۔ مشرقی پاکستان کے عوام نے اس صورتحال میں بہتر راستہ بنگلہ دیش کے قیام کا جانا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو انھوں نے آئی ایس آئی میں پولیٹیکل سیل قائم کیا۔ آئی ایس آئی کی رپورٹوں کی بنیاد پر بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت برطرف کی گئی اور بلوچ قوم پرستوں کی بغاوت کو روکنے کے لیے فوجی آپریشن کیا گیا۔ 1972ء میں سندھ میں ہونے والے لسانی فسادات کے پیچھے بھی خفیہ ایجنسیوں کا کردار تھا۔
ڈاکٹر مبشر حسن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ خفیہ ایجنسی ان کے ٹیلی فون کو ''بَگ'' کرتی تھی۔ جب انھوں نے اپنے ٹیلی فون میں لگے ہوئے چھوٹے سے ٹرانسمیٹر بھٹو صاحب اور نصرت بھٹو کو دکھائے تو نصرت بھٹو نے کہا کہ میرے اور شاہنواز بھٹو کے ٹیلی فون میں بھی یہ آلہ لگا ہوا ہے۔ انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ رائو رشید نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جولائی 1977ء میں پی این اے کی تحریک کے دوران جنرل ضیاء الحق نے وزارت خارجہ کی اجازت کے بغیر امریکی سفیر کی دعوت کی تو انھوں نے بھٹو صاحب کو جنرل ضیاء الحق کے ممکنہ عزائم سے آگاہ کیا مگر اس وقت کی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی نے بھٹو صاحب کو مکمل وثوق سے کہا کہ جنرل ضیاء الحق بغاوت کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔جنرل ضیاء کے دور میں آئی ایس آئی کراچی کے سربراہ بریگیڈیئر امتیاز بلا تھے۔
ان کی نگرانی میں بہت سے سیاسی کارکنوں، صحافیوں، خواتین، شعراء، اساتذہ اور طلباء کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے انعقاد میں خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے اہم کردار ادا کیا۔ جب 1988ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی زیر قیادت پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت قائم ہوئی تو انھوں نے ایک ریٹائرڈ جنرل کلو کو آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا مگر جنرل کلو ایجنسی کی سرگرمیوں پر کنٹرول نہ کرسکے۔ ایجنسی کے اہم رکن بریگیڈیئر امتیاز بلا نے میجر عامر کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کی سازش کی جو بعض نامعلوم وجوہات کی بناء پر ناکام ہوگئی۔
بریگیڈیئر امتیاز نے گزشتہ برس اپنے متعدد ٹی وی انٹرویوز میں اقرار کیا کہ انھوں نے پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے دائیں بازو کی جماعتوں کو اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل کرایا۔ تحریک استقلال کے سربراہ ایئر مارشل اصغر خان کی ایک پٹیشن جو گزشتہ 20 برس سے سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اس پٹیشن میں آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی نے اپنے حلف نامے میں اقرار کیا ہے کہ فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ کی ہدایت پر بہت سے سیاسی جماعتوں کے قائدین کو رقوم فراہم کی گئی تھیں۔
فوج کے سربراہ جنرل آصف نواز کی ہدایت پر عسکری ایجنسیوں نے کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا۔ ایم کیو ایم کے بہت سے کارکن اس آپریشن میں لاپتہ ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب پاکستان، امریکا اور نیٹو افواج کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف اتحاد کا حصہ بنا تو پھر خفیہ ایجنسیوں کا ایک کردار ابھر کر سامنے آیا۔ ان ایجنسیوں نے القاعدہ سے تعلق رکھنے کے الزام میں کالعدم مذہبی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد کو گرفتار کیا۔ ان میں سے کچھ کو تو اتحادی افواج کے حوالے کردیا گیا ان میں بیشتر القاعدہ کے اہم عہدیدار شامل تھے۔ ان کے ساتھ ہی بلوچستان سے قوم پرست سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔
یوں اخبارات کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا پر آئی ایس آئی کے خلاف لاپتہ افراد کے معاملے میں ملوث ہونے کے بارے میں بحث شروع ہوگئی۔ کہا جاتا ہے کہ 2002ء کے انتخابات کا نقشہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احسان اور ان کے نائب میجر جنرل احتشام ضمیر نے تیار کیا تھا۔ تحریک انصاف کے سابق سیکریٹری جنرل معراج محمد خان کا کہنا ہے کہ عمران خان کو جنرل مشرف نے انتخابات کے بارے میں بات چیت کے لیے آئی ایس آئی کے سربراہ کے پاس بھیجا تھا جنہوں نے چارٹ دیکھ کر عمران کو بتایا تھا کہ مختلف جماعتوں کے لیے کتنی سیٹیں مختص کی گئی ہیں۔ عمران خان چوہدری شجاعت حسین کی قیادت تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے اس لیے وہ جنرل مشرف سے ناراض ہوگئے۔
پیپلز پارٹی میں مخدوم فیصل صالح حیات کی قیادت میں ایک گروپ بنانے میں ایک عسکری تنظیم ملوث تھی، یوں پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں اکثریت سے محروم ہوگئی۔ 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کی کوششوں سے بہت سے لاپتہ افراد اپنے گھروں کو پہنچ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ خفیہ ایجنسی کی تحویل میں تھے، مگر پھر سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ تیز ہوا۔ بلوچستان میں لاپتہ افردا کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہونے لگیں۔ سپریم کورٹ نے جن افراد کو پیش کرنے کا حکم دیا ان میں سے کئی قتل ہوگئے۔ گزشتہ سال ایک صحافی سلیم شہزاد کے اغواء اور قتل میں خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کے ملوث ہونے کے الزام لگے۔ صحافیوں کے مطالبے پر سپریم کورٹ کے سینئر جج کی قیاد ت میں ایک کمیشن نے سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کیں۔
عدالتی کمیشن نے سلیم کے قتل کی ذمے داری کسی فرد یا خفیہ ایجنسی پر تو عائد نہیں کی مگر خفیہ ایجنسیوں کے احتساب کے مختلف طریقے تجویز کیے جن میں اندرونی احتساب کے علاوہ ایجنسیوں کی غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے قانون سازی بھی شامل تھے۔ اگرچہ کئی سینئر افسران کہتے ہیں کہ سیاسی تاریخ میں رونما ہونے والے بہت سے واقعات میں دوسری ایجنسی ملوث تھی مگر بدنامی آئی ایس آئی کی ہوئی۔ اس صورتحال میں فرحت اﷲ بابر نے ایک انتہائی مناسب بل سینیٹ میں پیش کیا ہے۔ گوکہ یہ ان کی ذاتی کوشش ہے مگر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور دوسری جماعتیں ایجنسیوں کا نشانہ بنتی رہی ہیں، اس لیے وہ سب اس بارے میں قانون سازی میں دلچسپی لیں گی۔
پاکستان کی سیاست میں خفیہ ایجنسیوں کا کردار ہمیشہ موضوعِ بحث رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاستدان فوجی اور سول حکومتوں میں خفیہ ایجنسیوں کے کردار کا تذکرہ کرتے رہے۔جب جنرل ایوب خان نے مارشل لاء کے خاتمے کا فیصلہ کیا تو مسلم لیگ کے رہنما اور قائد اعظم کے ساتھی چوہدری خلیق الزماں نے انھیں مسلم لیگ کی صدارت کی پیشکش کی۔ جس میں ممتاز دولتانہ، شوکت حیات خان، عبدالقیوم خان جیسے اکابرین شامل تھے۔ ایوب خان نے ان رہنمائوں کے مقابلے میں مسلم لیگ کی قیادت پر قبضہ کیا اور مسلم لیگی رہنمائوں کو اپنی قیادت میں متحد کرنے کے لیے خفیہ ایجنسیوں کو استعمال کیا اور خفیہ ایجنسیوںنے صدارتی انتخاب میں فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کو کامیاب کرا دیا۔
جب 1970ء میں جنرل یحییٰ خان نے عام انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کیا تو پہلے انتخابات کے ممکنہ نتائج کے بارے میں خفیہ ایجنسیوں سے رپورٹ طلب کی تو ایجنسیوں نے اپنی رپورٹوں میں بتایا کہ انتخابات میں کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی۔ مگر انتخابی نتائج الٹ گئے اور جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی واضح کامیابی کو تسلیم نہیں کیا۔ مشرقی پاکستان کے عوام نے اس صورتحال میں بہتر راستہ بنگلہ دیش کے قیام کا جانا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو انھوں نے آئی ایس آئی میں پولیٹیکل سیل قائم کیا۔ آئی ایس آئی کی رپورٹوں کی بنیاد پر بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت برطرف کی گئی اور بلوچ قوم پرستوں کی بغاوت کو روکنے کے لیے فوجی آپریشن کیا گیا۔ 1972ء میں سندھ میں ہونے والے لسانی فسادات کے پیچھے بھی خفیہ ایجنسیوں کا کردار تھا۔
ڈاکٹر مبشر حسن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ خفیہ ایجنسی ان کے ٹیلی فون کو ''بَگ'' کرتی تھی۔ جب انھوں نے اپنے ٹیلی فون میں لگے ہوئے چھوٹے سے ٹرانسمیٹر بھٹو صاحب اور نصرت بھٹو کو دکھائے تو نصرت بھٹو نے کہا کہ میرے اور شاہنواز بھٹو کے ٹیلی فون میں بھی یہ آلہ لگا ہوا ہے۔ انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ رائو رشید نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جولائی 1977ء میں پی این اے کی تحریک کے دوران جنرل ضیاء الحق نے وزارت خارجہ کی اجازت کے بغیر امریکی سفیر کی دعوت کی تو انھوں نے بھٹو صاحب کو جنرل ضیاء الحق کے ممکنہ عزائم سے آگاہ کیا مگر اس وقت کی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی نے بھٹو صاحب کو مکمل وثوق سے کہا کہ جنرل ضیاء الحق بغاوت کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔جنرل ضیاء کے دور میں آئی ایس آئی کراچی کے سربراہ بریگیڈیئر امتیاز بلا تھے۔
ان کی نگرانی میں بہت سے سیاسی کارکنوں، صحافیوں، خواتین، شعراء، اساتذہ اور طلباء کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے انعقاد میں خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے اہم کردار ادا کیا۔ جب 1988ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی زیر قیادت پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت قائم ہوئی تو انھوں نے ایک ریٹائرڈ جنرل کلو کو آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا مگر جنرل کلو ایجنسی کی سرگرمیوں پر کنٹرول نہ کرسکے۔ ایجنسی کے اہم رکن بریگیڈیئر امتیاز بلا نے میجر عامر کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کی سازش کی جو بعض نامعلوم وجوہات کی بناء پر ناکام ہوگئی۔
بریگیڈیئر امتیاز نے گزشتہ برس اپنے متعدد ٹی وی انٹرویوز میں اقرار کیا کہ انھوں نے پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے دائیں بازو کی جماعتوں کو اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل کرایا۔ تحریک استقلال کے سربراہ ایئر مارشل اصغر خان کی ایک پٹیشن جو گزشتہ 20 برس سے سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اس پٹیشن میں آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی نے اپنے حلف نامے میں اقرار کیا ہے کہ فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ کی ہدایت پر بہت سے سیاسی جماعتوں کے قائدین کو رقوم فراہم کی گئی تھیں۔
فوج کے سربراہ جنرل آصف نواز کی ہدایت پر عسکری ایجنسیوں نے کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا۔ ایم کیو ایم کے بہت سے کارکن اس آپریشن میں لاپتہ ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب پاکستان، امریکا اور نیٹو افواج کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف اتحاد کا حصہ بنا تو پھر خفیہ ایجنسیوں کا ایک کردار ابھر کر سامنے آیا۔ ان ایجنسیوں نے القاعدہ سے تعلق رکھنے کے الزام میں کالعدم مذہبی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد کو گرفتار کیا۔ ان میں سے کچھ کو تو اتحادی افواج کے حوالے کردیا گیا ان میں بیشتر القاعدہ کے اہم عہدیدار شامل تھے۔ ان کے ساتھ ہی بلوچستان سے قوم پرست سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔
یوں اخبارات کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا پر آئی ایس آئی کے خلاف لاپتہ افراد کے معاملے میں ملوث ہونے کے بارے میں بحث شروع ہوگئی۔ کہا جاتا ہے کہ 2002ء کے انتخابات کا نقشہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احسان اور ان کے نائب میجر جنرل احتشام ضمیر نے تیار کیا تھا۔ تحریک انصاف کے سابق سیکریٹری جنرل معراج محمد خان کا کہنا ہے کہ عمران خان کو جنرل مشرف نے انتخابات کے بارے میں بات چیت کے لیے آئی ایس آئی کے سربراہ کے پاس بھیجا تھا جنہوں نے چارٹ دیکھ کر عمران کو بتایا تھا کہ مختلف جماعتوں کے لیے کتنی سیٹیں مختص کی گئی ہیں۔ عمران خان چوہدری شجاعت حسین کی قیادت تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے اس لیے وہ جنرل مشرف سے ناراض ہوگئے۔
پیپلز پارٹی میں مخدوم فیصل صالح حیات کی قیادت میں ایک گروپ بنانے میں ایک عسکری تنظیم ملوث تھی، یوں پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں اکثریت سے محروم ہوگئی۔ 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کی کوششوں سے بہت سے لاپتہ افراد اپنے گھروں کو پہنچ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ خفیہ ایجنسی کی تحویل میں تھے، مگر پھر سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ تیز ہوا۔ بلوچستان میں لاپتہ افردا کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہونے لگیں۔ سپریم کورٹ نے جن افراد کو پیش کرنے کا حکم دیا ان میں سے کئی قتل ہوگئے۔ گزشتہ سال ایک صحافی سلیم شہزاد کے اغواء اور قتل میں خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کے ملوث ہونے کے الزام لگے۔ صحافیوں کے مطالبے پر سپریم کورٹ کے سینئر جج کی قیاد ت میں ایک کمیشن نے سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کیں۔
عدالتی کمیشن نے سلیم کے قتل کی ذمے داری کسی فرد یا خفیہ ایجنسی پر تو عائد نہیں کی مگر خفیہ ایجنسیوں کے احتساب کے مختلف طریقے تجویز کیے جن میں اندرونی احتساب کے علاوہ ایجنسیوں کی غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے قانون سازی بھی شامل تھے۔ اگرچہ کئی سینئر افسران کہتے ہیں کہ سیاسی تاریخ میں رونما ہونے والے بہت سے واقعات میں دوسری ایجنسی ملوث تھی مگر بدنامی آئی ایس آئی کی ہوئی۔ اس صورتحال میں فرحت اﷲ بابر نے ایک انتہائی مناسب بل سینیٹ میں پیش کیا ہے۔ گوکہ یہ ان کی ذاتی کوشش ہے مگر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور دوسری جماعتیں ایجنسیوں کا نشانہ بنتی رہی ہیں، اس لیے وہ سب اس بارے میں قانون سازی میں دلچسپی لیں گی۔