موسمیاتی تغیرات کے باعث آم کی پیداوار میں 30 فیصد کمی
سندھ میں آم کی فصل کو 10فیصد جبکہ پنجاب میں 35فیصد تک نقصان پہنچا ہے
پاکستان سے آم کی برآمدات کے سیزن کا آغاز 20مئی سے کیا جائے گا جبکہ رواں سال آم کی برآمد کے لیے ایک لاکھ ٹن کا ہدف مقرر کیا گیا ہے،دوسری جانب موسمی تغیرات کے باعث اس برس آم کی پیداوار میں6لاکھ ٹن کی کمی واقع ہوئی ہے ۔
آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد کے مطابق ملک میں آم کی پیداوار 18لاکھ ٹن رہتی ہے، تاہم اس سال موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیداوار میں 30فیصد کمی کا سامنا ہے۔ موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے سندھ اور پنجاب میں تیز آندھی ، بارشوں اور ژالہ باری سے آم کی پیداوار 12لاکھ ٹن تک محدود رہنے کا امکان ہے۔ موسمیاتی اثرات کی وجہ سے سندھ کی فصل کو 10فیصد جبکہ پنجاب کی فصل کو 35فیصد تک نقصان پہنچا ہے۔ برآمدات کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے موسم کے سازگار رہنے کے ساتھ شپنگ لائنز، قرنطینہ،اے این ایف، کسٹم اور دیگر متعلقہ محکموں کا تعاون بھی ناگزیر ہوگا۔
وحید احمد کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے ڈومیسٹک ٹرانسپورٹ اور لاجسٹک کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے وہیں روپے کی قدر میں کمی سے فضائی اور سمندری راستوں کے کرائے بھی مہنگے ہوگئے ہیں جس سے ایکسپورٹرز کے لیے مسابقت مزید مشکل ہوگئی ہے۔ گزشتہ سال75ہزار ٹن آم برآمد کیا گیا، رواں سیزن ایک لاکھ ٹن آم کی ایکسپورٹ سے 80ملین ڈالر تک کا زرمبادلہ حاصل ہوگا۔ رواں سیزن چین اور امریکا کو ایکسپورٹ میں اضافہ پر توجہ دی جائے گی جبکہ یورپی ملکوں میں پاکستانی آم کی تشہیر کے لیے خصوصی شوز بھی منعقد کیے جائیں گے۔
وحید احمد نے کہا کہ پاکستان سے زیادہ تر آم سمندری راستے سے برآمد کیا جاتا ہے، زمینی راستے سے آم کی برآمد کا حصہ 15فیصد، فضائی راستے سے ایکسپورٹ کا حصہ 15فیصد جبکہ سمندری راستے سے ایکسپورٹ کا تناسب 70فیصد کے لگ بھگ ہے ۔ اس سال امارات ایئرلائن کی جانب سے پاکستان کے لیے پروازیں کم کیے جانے سے آم کی برآمد کے لیے مشکلات کا خدشہ ہے۔ پاکستان کی زراعت اور ہارٹی کلچر پیداوار کے لیے موسمیاتی تغیرات سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے، آم کی پیداوار کا 30فیصد متاثر ہونا اس کا ایک ثبوت ہے تاہم تاحال فصلوں اور زرعی شعبہ کو موسمیاتی اثرات سے محفوظ بنانے کے لیے پالیسی وضع نہیں کی گئی۔ زرعی ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار اور برآمدات میں زراعت کا حصہ نمایاں ہے تاہم ملک میںزراعت کی بہتری کے لیے کوئی پالیسی نہیں دی گئی۔
آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد کے مطابق ملک میں آم کی پیداوار 18لاکھ ٹن رہتی ہے، تاہم اس سال موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیداوار میں 30فیصد کمی کا سامنا ہے۔ موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے سندھ اور پنجاب میں تیز آندھی ، بارشوں اور ژالہ باری سے آم کی پیداوار 12لاکھ ٹن تک محدود رہنے کا امکان ہے۔ موسمیاتی اثرات کی وجہ سے سندھ کی فصل کو 10فیصد جبکہ پنجاب کی فصل کو 35فیصد تک نقصان پہنچا ہے۔ برآمدات کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے موسم کے سازگار رہنے کے ساتھ شپنگ لائنز، قرنطینہ،اے این ایف، کسٹم اور دیگر متعلقہ محکموں کا تعاون بھی ناگزیر ہوگا۔
وحید احمد کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے ڈومیسٹک ٹرانسپورٹ اور لاجسٹک کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے وہیں روپے کی قدر میں کمی سے فضائی اور سمندری راستوں کے کرائے بھی مہنگے ہوگئے ہیں جس سے ایکسپورٹرز کے لیے مسابقت مزید مشکل ہوگئی ہے۔ گزشتہ سال75ہزار ٹن آم برآمد کیا گیا، رواں سیزن ایک لاکھ ٹن آم کی ایکسپورٹ سے 80ملین ڈالر تک کا زرمبادلہ حاصل ہوگا۔ رواں سیزن چین اور امریکا کو ایکسپورٹ میں اضافہ پر توجہ دی جائے گی جبکہ یورپی ملکوں میں پاکستانی آم کی تشہیر کے لیے خصوصی شوز بھی منعقد کیے جائیں گے۔
وحید احمد نے کہا کہ پاکستان سے زیادہ تر آم سمندری راستے سے برآمد کیا جاتا ہے، زمینی راستے سے آم کی برآمد کا حصہ 15فیصد، فضائی راستے سے ایکسپورٹ کا حصہ 15فیصد جبکہ سمندری راستے سے ایکسپورٹ کا تناسب 70فیصد کے لگ بھگ ہے ۔ اس سال امارات ایئرلائن کی جانب سے پاکستان کے لیے پروازیں کم کیے جانے سے آم کی برآمد کے لیے مشکلات کا خدشہ ہے۔ پاکستان کی زراعت اور ہارٹی کلچر پیداوار کے لیے موسمیاتی تغیرات سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے، آم کی پیداوار کا 30فیصد متاثر ہونا اس کا ایک ثبوت ہے تاہم تاحال فصلوں اور زرعی شعبہ کو موسمیاتی اثرات سے محفوظ بنانے کے لیے پالیسی وضع نہیں کی گئی۔ زرعی ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار اور برآمدات میں زراعت کا حصہ نمایاں ہے تاہم ملک میںزراعت کی بہتری کے لیے کوئی پالیسی نہیں دی گئی۔