کیا دوسرے شمسی نظام موجود ہیں

اب سائنس دانوں کو یقین ہوچلا ہے کہ کائنات میں ہمارے جیسے دوسرے شمسی نظام بھی اپنے سیاروں کے ہمراہ موجود ہیں۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

'' میری پالیسی یہ ہے کہ صرف بنیادی اور بڑے بڑے سوالوں کے جوابات تلاش کروں ۔ زمین کی سائنس ارضیات (جیالوجی) سے متعلق کسی بھی فرد کے لیے واقعی یہی بہتر ہے۔سیارے کیسے بنتے ہیں؟ ہمارے لیے یہی مرکزی سوال ہے۔'' یہ الفاظ جارج ویدرل کے ہیں۔ آپ کارنیگی انسٹیٹیوٹ واشنگٹن میں ڈائریکٹر کا عہدہ رکھتے ہیں۔ سیارے کیسے بنے تھے؟ واقعی ایک اہم سوال ہے۔ خواہ کوئی انسان، ارضیات دان ہو یا نہ ہو لیکن غوروفکر کی قدرتی صلاحیت سے محروم نہ ہو تو فطرتاً اس سوال کا جواب جاننا چاہے گا۔

موجود نظریات کے مطابق ابتدا میں یہ سب ایک ایسا بادل سا تھا جوگیس اور گرد وغبار کا مجموعہ تھا بے حد طویل مدتوں تک یہ بادل اپنی ہی جگہ پر دھیرے دھیرے محوگردش رہا۔ یہ ایک ایسی کیفیت تھی کہ قوت اتحاد اور قوت انتشار میں توازن قائم تھا۔ پھر یکایک یہ بھی توازن بگڑگیا۔ شاید اس کی وجہ قریب سے گزرتے کسی ستارے کا اثر تھا زیادہ گمان ہے کہ کوئی ستارہ پھٹ پڑا تھا اور اس سے جو لرزش پیدا ہوئی وہ اسے بھی تہہ و بالا کرگئی بادل کا ٹکڑا اس قدرکثیف تھا کہ اس کے اجزائے ترکیبی میں قوت تجاذب موجود تھی۔ ابتداً یہ قوت دھیمے دھیمے انداز میں کام کرنے لگی اور پھر تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئی۔

قانون بقائے زاویاتی مومنٹم کی مکمل اطاعت کرتے ہوئے بادل کے ٹکڑوں نے یوں گردشی رفتار اختیارکی کہ تجاذب کی وجہ سے بھنچ جانے کا عمل نہ ہو پایا۔ ایک ٹکڑے نے پہلے توکروی شکل اختیارکی نسبتاً چپٹی صورت بنی اور بالآخر ایک توے کی سی ساخت بن گئی۔ بادل کے کثیف مرکزکی قوت تجاذب نے گھومتے توے کی قوت انتشار کو توازن بخشا۔ مرکزی حصے میں ''فیوزن'' بھڑک اٹھا اور وہاں سورج بن گیا۔اسی دوران توے نما بادل میں تہیں بننے لگیں۔ ہلکے عناصر، ہائیڈروجن وغیرہ اس نظام کے بیرونی حصے میں جمع ہونے لگے۔

بھاری بھرکم گرد جو دھاتوں اور چٹانی اشیا سے بنی ہوئی تھیں ایک دوسرے کے قریب رہیں۔ گیسوں نے باہم مل کر مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون کی تشکیل کی۔ گرد و غبار کے بار بار پگھلنے اور باہم مربوط ہونے سے مریخ، زحل، زہرا، زمین اور عطارد بن گئے۔ ''تقریباً ہرکوئی جو اس مسئلے پر کام کررہا ہے یہی سمجھتا ہے کہ سیارے یوں بنے ہوں گے۔'' جارج ویدرل کہتے ہیں۔ایک دوسرے قابل ذکر سائنس دان لیوی (ڈائریکٹر فلکیاتی لیبارٹری۔اریزونا یونیورسٹی) بھی ویدرل کے خیالات سے اتفاق رکھتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ:

''ہمارا نظام شمسی واقعی ایک سادہ ساخت ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی تشکیل قدرتی انداز سے ہوئی ہے۔ لگتا ہے کہ اس تشکیل کرنے والا انداز تمام کائنات میں ایک سا ہے۔تمام کہکشاؤں میں اس طرح کے نظام شمسی موجود ہیں اور ان میں بہت سے ہمارے نظام شمسی سے تھوڑی یا زیادہ مشابہت ضرور رکھتے ہیں ان نظاموں میں بھی چھ، آٹھ یا درجن بھر اجسام موجود ہوسکتے ہیں۔ میں اور میرے ساتھی اس بات پر کبھی حیران نہیں ہوسکتے کہ ایسے نظام موجود ہیں۔ لیکن ہم اس بات پر ضرور حیرت کا اظہار کریں گے ایسے نظاموں کی موجودگی سے انکار کردیا جائے۔''


2017 اور 2018 کے دوران سائنس دانوں کو ایسے کئی ثبوت ملے جن کی مدد سے وہ نظاموں کی موجودگی ثابت کرسکیں۔ 2018 میں اِرآس مصنوعی سیارے نے بالائے سرخ اشعاع کی بھاری مقدار شناخت کی۔ ان شعاع کی موجودگی اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ گرد و غبار کے بادل اب بھی موجود ہیں اور یہ شعاعیں قریبی ستاروں کے پاس سے آرہی ہیں۔ ان قریبی ستاروں کی تعداد کوئی 50 کے لگ بھگ ہے۔براڈ فورڈ اسمتھ نے جو ایریزونا یونیورسٹی کا فلکیات دان ہے، ایک ایسے ستارے ''بیٹا پکیٹوریس'' پر دوربینی توجہ مرکوز کی۔ یہ ستارہ زمین سے 50 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ اسمتھ نے جو کچھ دیکھا اس نے کچھ نئے اشارے دیے ہیں۔

بادل بڑا مدھم نظر آرہا تھا اور اسمتھ نے خیال کیا کہ اس کی شکل توے نما ہی ہوگی۔ اسمتھ اپنے مشاہدات کا بیان ان الفاظ میں کرتا ہے۔''توے کی شکل اور سیارہ نظاموں کے متعلق ہماری معلومات کی مدد سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بیٹاپکیٹوریس کے گرد موجود مادوں میں ارتباط کا عمل شروع ہوچکا ہے اور اب ہم اس ارتباط کے نتیجے میں بننے والی ''اینٹوں'' کی بات کر رہے ہیں ناکہ گرد و غبار کی۔ میں شرط لگاتا ہوں کہ ستارے کے قریب سیارہ نما جسم موجود ہیں لیکن وہ اس قدر قریب ہیں کہ اتنے زیادہ فاصلے سے ان کو دیکھنا ممکن نہیں۔

اسمتھ کے اعتماد کو مزید تقویت 2018 اس وقت پہنچی جب ڈونالڈ میکارتھی (ایریزونا یونیورسٹی) نے ایک ستارے دان ہشتم van-blesbroeck-8 کے گرد ایک جسم دریافت کیا۔ اس فلکیاتی جسم کی کمیت کا اندازہ مشتری سے دس گنا زیادہ لگایا گیا ۔ لیوی اس کے باوجود مختلف خیالات رکھتا ہے اس کا کہنا ہے کہ ''میرے خیال میں دہرے ستارے اور نظام ہائے شمسی بنیادی طور پر الگ الگ طریقوں سے بنتے ہیں۔ بہرحال ان تمام باتوں کا تصفیہ کرنے کے لیے ہمیں خلائی دوربین عظیم اور وسیع تر استعمال میں ستاروں کی حرکت صحیح پس منظر میں دیکھ سکے گی اور بتا سکے گی کہ کس کے اثرات کس پر اور کس طرح پڑ رہے ہیں۔ ''

لیوی اس سے آگے بڑھ کر جو کچھ کہتا ہے وہ بہرحال اس بات کا مستحق ہے کہ حرف آخر قرار پائے۔ چنانچہ لیوی کے الفاظ یوں ہیں کہ:''ہم دریافت کرلیں گے کہ زمین جیسے دوسرے سیاروں کی موجودگی حیران کن نہیں۔ یا پھر ہمیں اس بات کا ثبوت مل جائے گا کہ اس بھری کائنات میں ہم اکیلے ہیں ہمیں جو بھی جواب ملے ، بہرحال اس کا اثر انسان اور کائنات کے تعلقات پر ضرور پڑے گا۔''

ابھی تازہ ترین خبر جو 21 اپریل بروز اتوار کے روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہوئی ۔ اس کے مطابق امریکی خلائی ادارے ناسا (NASA) نے زمین کی جسامت کے برابر پہلا سیارہ دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے، خلائی سائنس کے جریدے آسٹروفزیکل جرنل لیٹر کے مطابق ناسا کی سیاروں پر نظر رکھنے والی ٹیلی اسکوپ نے زمین کی جسامت کے برابر ایک سیارہ (Exo Planet) ڈھونڈ نکالا ہے۔ یہ سیارہ سب نیپچون کا ساتھی سیارہ ہے جسے پہلی مرتبہ رواں برس جنوری میں دیکھا گیا تھا ، تاہم مسلسل مشاہدے اور دیگر تفصیلات جاننے کے بعد باقاعدہ تصدیق کردی گئی ہے۔ خلائی سائنس دانوں نے دو سال قبلTransiting Exo Planet Survey Satellite کی مدد سے نظام شمسی سے دور اور چمکدار ستاروں کے نزدیک پائے جانے والے سیاروں کے مشاہدے کا فیصلہ کیا تاکہ ان کی جسامت، ساخت اور سطح کا بغور جائزہ لیا جاسکے۔ سائنس دانوں نے انکشاف کیا ان دو برسوں میں Tess نے زمین کی جسامت کے برابر یا اس سے بڑے سائز والے تقریباً 300 سیاروں کا مشاہدہ کیا جن میں ایک سیارے کا بغور جائزہ کیا گیا جو زمین سے 13 نوری سال کی مسافت پر زردی مائل سیارے ایچ ڈی 21749 کے گرد مدار میں گھوم رہا ہے۔ سائنس دانوں نے اس دریافت کی ٹیلی اسکوپ مگیلین دوم کی مدد سے بھی تصدیق کی جو اپنے پلانٹ فائنڈر اسپیکٹروگراف یعنی PFS کی مدد سے سیارے کی جسامت اور ساخت کے مطالعے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا، PFS نے بھی اس سیارے کی جسامت زمین کے برابر ہونے کی تصدیق کردی۔

سائنس دانوں نے اس دریافت کو اہم کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے نہ صرف ہماری کہکشاں بلکہ خلاکے رموز و اسرار جاننے کا موقع ملے گا اور اس مشاہدے سے کائنات میں چھپے رازوں سے پردہ اٹھنے کی بھی قوی امید ہے اب سائنس دانوں کو یقین ہوچلا ہے کہ کائنات میں ہمارے جیسے دوسرے شمسی نظام بھی اپنے سیاروں کے ہمراہ موجود ہیں۔
Load Next Story