آبنائے ہرمز کی انقلابی فارس ریاست
فارس حکمران سائرس اعظم نے میڈیوں کو شکست دینے کے بعد فارس سلطنت قائم کی۔
سترکی دہائی میں جب یہ ناچیز راقم السطورشہر لاہور میں سیکنڈری اسکول کا طالب علم تھا تو ہمارے سالانہ مطالعاتی سلیبس میں لسانیات کی مد میں ایک لازمی مضمون شامل ہوا کرتا تھا ، وہ تھا ''فارسی ''۔ اس زمانے میں یہ کہاوت بہت مشہور ہوا کرتی تھی '' پڑھو فارسی بیچو تیل، دیکھو قدرت کے کھیل''۔
یہ بات ہماری سمجھ میں قطعا نہ آتی تھی کہ کہاوت کے پس منظر میں کیا دلائل اور حقائق پوشیدہ ہیں ۔سمجھ نہ آنے کی بنیادی وجہ شاید یہ ہوکہ اس وقت ہم اپنی کمسنی کے ساتھ ساتھ کم علم بھی تھے ۔ یہ وہ دور تھا کہ جب عام آدمی کا روزمرہ کا رہن سہن اور معاشرتی طرز زندگی نہایت سادہ تھی۔ لوگ زیادہ سے زیادہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی پیدل، سائیکل، تانگہ (گھوڑا گاڑی جس کوکوچوان چلاتا تھا)کیا کرتے تھے اور نہ ہی پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کا اتنا رواج تھا۔
ہاں ریاستی سرپرستی میں مخصوص روٹ پر چلنے والی اومنی بسیں ضرور تھیں اور وہ بھی ڈبل ڈیکرکی شکل میں۔ سادہ مزاجی کی زندہ مثال ہمیں ایک پاکستانی اردو فیچر فلم ''بدنام '' میں ملتی ہے۔ اداکار علاوالدین کا فلم میں کوچوان کا کردار تھا اور فلم میں اس کی بیٹی کو یونیورسٹی میں جغرافیہ میں داخلہ مل جاتا ہے تو یہ خوشخبری اپنے کوچوان باپ کو سناتی ہے تو باپ بڑے خوش ہوکر بیٹی کوکہتا ہے''جغرافیہ تو میں بھی تمھیں پڑھا دوں گا''۔
بہرحال لفظ ''تیل '' کی بات ہوتی تو لوگ اس تیل کو سرسوں کا تیل یا ناریل کا تیل سمجھا کرتے تھے اور اس کا استعمال عام تھا۔ مائیں بچوں کے سرکے بالوں میں سرسوں یا ناریل کے تیل کی مالش کیا کرتی تھیں۔کہا جاتا تھا کہ تیل کی مالش سے بچے کی دماغی اور ذہنی صلاحیتیں تیز ترہوتی ہیں۔ اسی مناسبت سے لوگ فارسی پڑھنے والوں کو '' تیلیا '' یا ''تیلی'' کہتے تھے۔ میرے معززقارئین !آپ حیران ہونگے کہ یہ وہ دور تھا کہ جب انگریزی ہماری زندگی میں اتنی داخل نہیں ہوئی تھی جتنی کہ آج ہے۔ بلکہ پنجابیانہ کلچر میں خالصتا اردو ادب کا ماحول تھا۔ ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ تیل کو انگریزی میں پیٹرولیم کہتے ہیں۔
فارسی ہمارے ہمسایہ اور قریبی دوست ایران کی قومی زبان ہے جس کو قدرت نے تیل جیسی نعمت سے مالا مال کیا ہوا ہے۔ فارسی ایران کی عام فہم شیرینی سرکاری اور نجی سطح کی قومی زبان ہے۔ یہاں انگریزی زبان کا قطع رواج نہیں ہے خواہ وہ سائنس وٹیکنالوجی کا شعبہ ہو یا انجینئرنگ یا طب کا شعبہ ہو، ایران میں انگریزی کی بجائے فارسی ہی میں صدیوں سے تعلیم و تربیت کا رواج ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نیازی کے حالیہ مختصر دورہ ایران کے دارالخلافہ تہران میں ایران کے صدر حسن روحانی کے ساتھ گفتگو میں فارسی زبان کی کئی ہزار سالہ تاریخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ '' اگر انگریزوں کی اس خطہ میں مداخلت نہ ہوتی تو آج ہم آپس میں فارسی میں گفتگوکررہے ہوتے'' فارسی زبان کی تاریخ کی ابتدا اور اس کی ہیت کسی حد تک ہمیں ایک مستند قدیمی انسائیکلوپیڈیا سے ملتی ہے، وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ 500قبل مسیح تک اس علاقہ پر جہاں آج ایران واقع ہے، میڈی اور فارس لوگ آباد تھے اور ان کی بولنے والی عام فہم شیرینی زبان '' فارسی '' تھی۔
فارس حکمران سائرس اعظم نے میڈیوں کو شکست دینے کے بعد فارس سلطنت قائم کی۔ پہلی جنگ عظیم میں فارس پر برطانوی اور روسی افواج نے قبضہ کر لیا۔ 1921میں فارس افواج کے ایک افسر رضا خاں نے دونوں قابض اتحادی افواج کو شکست دیکر خود اقتدار سنبھال لیا ۔ بعد ازاں 1941-46کے دوران اتحادیوں نے فارس پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کی تو رضا خاں نے اقتدار اپنے بیٹے رضا شاہ پہلوی کو منتقل کرکے خود کو اس حق سے دستبردارکر لیا اور یوں 1935میںملک کا نام ''فارس '' سے تبدیل کرکے '' ایران '' رکھ دیا گیا۔
شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی امریکہ نواز پالیسیوں اور لبرل پالیسی اپنانے، مغربی ثقافت کی یلغار ، معاشی تنگدستی ، طبقاتی خلیج اور دیگر ناپسندیدہ ظالمانہ وجوہات نے ایرانی عوام میں بے چینی پیدا کردی اور یوں 8 197 کے اوائل میں شاہ ایران کے خلاف ایک انقلابی تحریک نے جنم لیا۔ ایرانی عوام کے 78 سالہ روحانی پیشوا آیت اللہ روح اللہ امام خمینی جو پندرہ برس سے فرانس میں جلا وطنی کی زندگی بسرکررہے تھے، عوام کی لاکھوں تعداد نے ایران کے دارالخلافہ تہران میں ان کا ولولہ انگیز استقبال کیا اور امام خمینی کی روح پرور قیادت کے زیر سایہ اسلامی انقلاب کی بنیاد رکھی اور ایران کا نام بدل کر نیا نام ''اسلامی جمہوریہ ایران '' رکھا گیا۔ اس انقلاب کے نتیجہ میں امریکا اور برطانیہ اور اس کے اتحادیوں سے نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز ہوگیا جوگزشتہ چالیس برس کا طویل عرصہ گذرنے کے باوجود اب تک جار ی و ساری ہے۔ امریکا کے بغل بچہ اسرائیل سے اب تک محاذ آرائی میں لاکھوں جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے۔
دنیا میں جو ملک بھی ترقی کی بلندیوں تک پہنچتا ہے وہ ہی سپر طاقت کہلاتا ہے اور اس کی پوزیشن ایک ''انٹرنیشنل ایمپائر''کی سی ہوتی ہے ، وہ چاہتا ہے کہ دنیا میں دوسرے ممالک اس کی مرضی ومنشا کے مطابق اس کی کٹھ پتلی رہیں۔ اس وقت امریکہ کی نظر میں ایران اور لاطینی امریکہ کا ملک وینزویلا بہت کھٹک رہے ہیں۔ موجودہ عالمی تناظر میں مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ پرانے خیالات کے آدمی ہیں وہ ایران میں اسلامی حکومت کو گرانے کے درپے ہیں اور مرضی کی حکومت بنانا چاہتے ہیں جب کہ امریکا کے سابقہ صدر بارک اوباما جن کا عرصہ صدارت آٹھ برس رہا،ان کی کوشش رہی کہ ایران بشمول کیوبا سے دوستانہ تعلقات استوارکیے جائیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا دوسرے ممالک کی حکومتوں کی تبدیلی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ دور حاضر اپنی زندگی کے معاملات چلانے کے لیے اسی تیل کا محتاج ہے اور اس تیل کا دنیا میں کوئی نعم البد ل بھی نہیں ہے۔ تیل ہر ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بن چکا ہے۔ دنیا کے بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں تیل کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں مگر وہ خام کی شکل میں ہے۔ خام تیل کی کثافت کے لیے ریفائنریزکی ضرورت ناگزیر ہے۔
سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کے دو ایسے ممالک ہیں جن کو قدرت نے کثافت شدہ تیل کی دولت سے مالا مال کیا ہوا ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ایران دنیا میں وہ واحد ملک ہے جو جغرافیائی اعتبار سے نہ صرف تیل کی دولت سے مالا مال ہے بلکہ اس کی یہ خصوصیت سعودی عرب سے نمایاں امتیاز کرتی ہے کہ یہ خلیج فارس کی بحری پٹی ''آبنائے ہر مز'' کے اہم دہانے پر واقع ہے جو دنیا کے چالیس فیصد تیل کی آسان اور براہ راست رسدکا یہی ایک واحد راستہ ہے۔ اگر ایران تیل کی رسد کے راستے مسدودکردے تو عالمی معیشت کو شدید جھٹکا لگ سکتا ہے۔ اسی لیے امریکی سامراجی بحری بیڑے اس علاقے میں ڈیرے ڈالے ہوئے رہتے ہیں تاکہ ایران کی طرف سے کسی ممکنہ مہم سے بچایا جا سکے۔ یہ جنگی بیڑے ایران کے لیے مستقل خطرہ اور چیلینج ہیں۔
حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے تیل کے بڑے خریدار ممالک بھارت ، چین اور ترکی کو پابندیوں سے حاصل استثنیٰ مئی سے ختم کرنے کے فیصلہ کا عندیا دیا ہے کہ اب امریکا ان کے خلاف بھی جون میں ایران سے تیل خریدنے کی صورت میں پابندیاں عائدکردے گا۔'' ایران کی مسلح افواج کے سپہ سالار جنرل محمد حسین باقری نے امریکی صدر کے حالیہ بیان پر اپنا جوابی رد عمل ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ ا یران پر اقتصادی پابندیاں نہ ہٹانے کی صورت میں خلیجی ممالک سے دنیا کو تیل کی رسد کرنیوالی دنیا کی واحد اور اہم آبی گزرگاہ ''آبنائے ہرمز'' کو بندکردیا جائے گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ''ہم آبنائے ہر مزکو بندکرنا نہیں چاہتے لیکن اگر دشمنوں کے مخالفانہ اقدامات میں شدت آتی ہے تو ہم اس کو بند کردیں گے۔'' اگر ایران کے تیل کو آبنائے ہرمز سے نہیں گذرنے دیا جاتا تو پھر یقینی طور پر دوسرے ممالک کے تیل کا راستہ بھی مسدود کردیا جائے گا۔ انھوں نے مزید کہا '' یہ ہمارے قومی سلامتی کے وسیع تر مفاد میں ہے کہ خلیج فارس کھلی رہے اور آبنائے ہرمز بھی کھلی رہے۔ ہم نے ماضی میں بھی ایسا کیا ہے اور مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔''ایرانیوں کا دعوی ہے '' کہ ہم شیر کی طرح چلتے ہیں اور سورج کی طرح چمکتے ہیں '' ۔
بوعلی سینا ، جابر بن حیان ، ابن سینا ، الخوارزمی ، جلال الدین رومی اور فردوسی جیسے مایہ ناز عالمی شہرت یافتہ سائینس دان اور تاریخ دان اسی سر زمین فارس کی پیداوار ہیں۔ جغرافیائی عا لمی محل و وقوع کے اعتبار سے اس کے ہمسایہ سرحدی ممالک میں عراق، ترکی، رشین فیڈرییشن یعنی روس ( سابقہ سوویت یونین (USSR)کی نو آزاد ریاستیں آذربائیجان ، آرمینیا ، ترکمانستان ، افغانستان، پاکستان شامل ہیں۔ کویٹہ کے ضلع چاغی میں واقع ایرانی سرحد تفتان ہے جو کو ئٹہ سے لگ بھگ 650 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔
یہ بات ہماری سمجھ میں قطعا نہ آتی تھی کہ کہاوت کے پس منظر میں کیا دلائل اور حقائق پوشیدہ ہیں ۔سمجھ نہ آنے کی بنیادی وجہ شاید یہ ہوکہ اس وقت ہم اپنی کمسنی کے ساتھ ساتھ کم علم بھی تھے ۔ یہ وہ دور تھا کہ جب عام آدمی کا روزمرہ کا رہن سہن اور معاشرتی طرز زندگی نہایت سادہ تھی۔ لوگ زیادہ سے زیادہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی پیدل، سائیکل، تانگہ (گھوڑا گاڑی جس کوکوچوان چلاتا تھا)کیا کرتے تھے اور نہ ہی پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کا اتنا رواج تھا۔
ہاں ریاستی سرپرستی میں مخصوص روٹ پر چلنے والی اومنی بسیں ضرور تھیں اور وہ بھی ڈبل ڈیکرکی شکل میں۔ سادہ مزاجی کی زندہ مثال ہمیں ایک پاکستانی اردو فیچر فلم ''بدنام '' میں ملتی ہے۔ اداکار علاوالدین کا فلم میں کوچوان کا کردار تھا اور فلم میں اس کی بیٹی کو یونیورسٹی میں جغرافیہ میں داخلہ مل جاتا ہے تو یہ خوشخبری اپنے کوچوان باپ کو سناتی ہے تو باپ بڑے خوش ہوکر بیٹی کوکہتا ہے''جغرافیہ تو میں بھی تمھیں پڑھا دوں گا''۔
بہرحال لفظ ''تیل '' کی بات ہوتی تو لوگ اس تیل کو سرسوں کا تیل یا ناریل کا تیل سمجھا کرتے تھے اور اس کا استعمال عام تھا۔ مائیں بچوں کے سرکے بالوں میں سرسوں یا ناریل کے تیل کی مالش کیا کرتی تھیں۔کہا جاتا تھا کہ تیل کی مالش سے بچے کی دماغی اور ذہنی صلاحیتیں تیز ترہوتی ہیں۔ اسی مناسبت سے لوگ فارسی پڑھنے والوں کو '' تیلیا '' یا ''تیلی'' کہتے تھے۔ میرے معززقارئین !آپ حیران ہونگے کہ یہ وہ دور تھا کہ جب انگریزی ہماری زندگی میں اتنی داخل نہیں ہوئی تھی جتنی کہ آج ہے۔ بلکہ پنجابیانہ کلچر میں خالصتا اردو ادب کا ماحول تھا۔ ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ تیل کو انگریزی میں پیٹرولیم کہتے ہیں۔
فارسی ہمارے ہمسایہ اور قریبی دوست ایران کی قومی زبان ہے جس کو قدرت نے تیل جیسی نعمت سے مالا مال کیا ہوا ہے۔ فارسی ایران کی عام فہم شیرینی سرکاری اور نجی سطح کی قومی زبان ہے۔ یہاں انگریزی زبان کا قطع رواج نہیں ہے خواہ وہ سائنس وٹیکنالوجی کا شعبہ ہو یا انجینئرنگ یا طب کا شعبہ ہو، ایران میں انگریزی کی بجائے فارسی ہی میں صدیوں سے تعلیم و تربیت کا رواج ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نیازی کے حالیہ مختصر دورہ ایران کے دارالخلافہ تہران میں ایران کے صدر حسن روحانی کے ساتھ گفتگو میں فارسی زبان کی کئی ہزار سالہ تاریخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ '' اگر انگریزوں کی اس خطہ میں مداخلت نہ ہوتی تو آج ہم آپس میں فارسی میں گفتگوکررہے ہوتے'' فارسی زبان کی تاریخ کی ابتدا اور اس کی ہیت کسی حد تک ہمیں ایک مستند قدیمی انسائیکلوپیڈیا سے ملتی ہے، وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ 500قبل مسیح تک اس علاقہ پر جہاں آج ایران واقع ہے، میڈی اور فارس لوگ آباد تھے اور ان کی بولنے والی عام فہم شیرینی زبان '' فارسی '' تھی۔
فارس حکمران سائرس اعظم نے میڈیوں کو شکست دینے کے بعد فارس سلطنت قائم کی۔ پہلی جنگ عظیم میں فارس پر برطانوی اور روسی افواج نے قبضہ کر لیا۔ 1921میں فارس افواج کے ایک افسر رضا خاں نے دونوں قابض اتحادی افواج کو شکست دیکر خود اقتدار سنبھال لیا ۔ بعد ازاں 1941-46کے دوران اتحادیوں نے فارس پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کی تو رضا خاں نے اقتدار اپنے بیٹے رضا شاہ پہلوی کو منتقل کرکے خود کو اس حق سے دستبردارکر لیا اور یوں 1935میںملک کا نام ''فارس '' سے تبدیل کرکے '' ایران '' رکھ دیا گیا۔
شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی امریکہ نواز پالیسیوں اور لبرل پالیسی اپنانے، مغربی ثقافت کی یلغار ، معاشی تنگدستی ، طبقاتی خلیج اور دیگر ناپسندیدہ ظالمانہ وجوہات نے ایرانی عوام میں بے چینی پیدا کردی اور یوں 8 197 کے اوائل میں شاہ ایران کے خلاف ایک انقلابی تحریک نے جنم لیا۔ ایرانی عوام کے 78 سالہ روحانی پیشوا آیت اللہ روح اللہ امام خمینی جو پندرہ برس سے فرانس میں جلا وطنی کی زندگی بسرکررہے تھے، عوام کی لاکھوں تعداد نے ایران کے دارالخلافہ تہران میں ان کا ولولہ انگیز استقبال کیا اور امام خمینی کی روح پرور قیادت کے زیر سایہ اسلامی انقلاب کی بنیاد رکھی اور ایران کا نام بدل کر نیا نام ''اسلامی جمہوریہ ایران '' رکھا گیا۔ اس انقلاب کے نتیجہ میں امریکا اور برطانیہ اور اس کے اتحادیوں سے نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز ہوگیا جوگزشتہ چالیس برس کا طویل عرصہ گذرنے کے باوجود اب تک جار ی و ساری ہے۔ امریکا کے بغل بچہ اسرائیل سے اب تک محاذ آرائی میں لاکھوں جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے۔
دنیا میں جو ملک بھی ترقی کی بلندیوں تک پہنچتا ہے وہ ہی سپر طاقت کہلاتا ہے اور اس کی پوزیشن ایک ''انٹرنیشنل ایمپائر''کی سی ہوتی ہے ، وہ چاہتا ہے کہ دنیا میں دوسرے ممالک اس کی مرضی ومنشا کے مطابق اس کی کٹھ پتلی رہیں۔ اس وقت امریکہ کی نظر میں ایران اور لاطینی امریکہ کا ملک وینزویلا بہت کھٹک رہے ہیں۔ موجودہ عالمی تناظر میں مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ پرانے خیالات کے آدمی ہیں وہ ایران میں اسلامی حکومت کو گرانے کے درپے ہیں اور مرضی کی حکومت بنانا چاہتے ہیں جب کہ امریکا کے سابقہ صدر بارک اوباما جن کا عرصہ صدارت آٹھ برس رہا،ان کی کوشش رہی کہ ایران بشمول کیوبا سے دوستانہ تعلقات استوارکیے جائیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا دوسرے ممالک کی حکومتوں کی تبدیلی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ دور حاضر اپنی زندگی کے معاملات چلانے کے لیے اسی تیل کا محتاج ہے اور اس تیل کا دنیا میں کوئی نعم البد ل بھی نہیں ہے۔ تیل ہر ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بن چکا ہے۔ دنیا کے بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں تیل کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں مگر وہ خام کی شکل میں ہے۔ خام تیل کی کثافت کے لیے ریفائنریزکی ضرورت ناگزیر ہے۔
سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کے دو ایسے ممالک ہیں جن کو قدرت نے کثافت شدہ تیل کی دولت سے مالا مال کیا ہوا ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ایران دنیا میں وہ واحد ملک ہے جو جغرافیائی اعتبار سے نہ صرف تیل کی دولت سے مالا مال ہے بلکہ اس کی یہ خصوصیت سعودی عرب سے نمایاں امتیاز کرتی ہے کہ یہ خلیج فارس کی بحری پٹی ''آبنائے ہر مز'' کے اہم دہانے پر واقع ہے جو دنیا کے چالیس فیصد تیل کی آسان اور براہ راست رسدکا یہی ایک واحد راستہ ہے۔ اگر ایران تیل کی رسد کے راستے مسدودکردے تو عالمی معیشت کو شدید جھٹکا لگ سکتا ہے۔ اسی لیے امریکی سامراجی بحری بیڑے اس علاقے میں ڈیرے ڈالے ہوئے رہتے ہیں تاکہ ایران کی طرف سے کسی ممکنہ مہم سے بچایا جا سکے۔ یہ جنگی بیڑے ایران کے لیے مستقل خطرہ اور چیلینج ہیں۔
حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے تیل کے بڑے خریدار ممالک بھارت ، چین اور ترکی کو پابندیوں سے حاصل استثنیٰ مئی سے ختم کرنے کے فیصلہ کا عندیا دیا ہے کہ اب امریکا ان کے خلاف بھی جون میں ایران سے تیل خریدنے کی صورت میں پابندیاں عائدکردے گا۔'' ایران کی مسلح افواج کے سپہ سالار جنرل محمد حسین باقری نے امریکی صدر کے حالیہ بیان پر اپنا جوابی رد عمل ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ ا یران پر اقتصادی پابندیاں نہ ہٹانے کی صورت میں خلیجی ممالک سے دنیا کو تیل کی رسد کرنیوالی دنیا کی واحد اور اہم آبی گزرگاہ ''آبنائے ہرمز'' کو بندکردیا جائے گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ''ہم آبنائے ہر مزکو بندکرنا نہیں چاہتے لیکن اگر دشمنوں کے مخالفانہ اقدامات میں شدت آتی ہے تو ہم اس کو بند کردیں گے۔'' اگر ایران کے تیل کو آبنائے ہرمز سے نہیں گذرنے دیا جاتا تو پھر یقینی طور پر دوسرے ممالک کے تیل کا راستہ بھی مسدود کردیا جائے گا۔ انھوں نے مزید کہا '' یہ ہمارے قومی سلامتی کے وسیع تر مفاد میں ہے کہ خلیج فارس کھلی رہے اور آبنائے ہرمز بھی کھلی رہے۔ ہم نے ماضی میں بھی ایسا کیا ہے اور مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔''ایرانیوں کا دعوی ہے '' کہ ہم شیر کی طرح چلتے ہیں اور سورج کی طرح چمکتے ہیں '' ۔
بوعلی سینا ، جابر بن حیان ، ابن سینا ، الخوارزمی ، جلال الدین رومی اور فردوسی جیسے مایہ ناز عالمی شہرت یافتہ سائینس دان اور تاریخ دان اسی سر زمین فارس کی پیداوار ہیں۔ جغرافیائی عا لمی محل و وقوع کے اعتبار سے اس کے ہمسایہ سرحدی ممالک میں عراق، ترکی، رشین فیڈرییشن یعنی روس ( سابقہ سوویت یونین (USSR)کی نو آزاد ریاستیں آذربائیجان ، آرمینیا ، ترکمانستان ، افغانستان، پاکستان شامل ہیں۔ کویٹہ کے ضلع چاغی میں واقع ایرانی سرحد تفتان ہے جو کو ئٹہ سے لگ بھگ 650 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔