شاید کہ اُتر جائے تیرے دل میں میری بات

ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمیشہ درست اور صحیح فیصلے ہوئے۔ ’’ نظریہ ضرورت‘‘ بھی کبھی مؤثر ہتھیار اور اُصول ہوا کرتا تھا۔

mnoorani08@gmail.com

ہماری قوم اور ہمارے لوگوں کی یہ عادت سی بن گئی ہے کہ ہماری عدالتیں جب کسی مقدمے میں ایک فریق کوکچھ ریلیف دینے لگتی ہے تو وہ اُن ہی عدالتوں کے خلاف دشنام طرازی اورہرزہ سرائی کرنے لگتے ہیں جن کے فیصلوں کی وہ ابھی کچھ ماہ قبل ہی تعریف وتوصیف زمین وآسمان کے قلابے ملا رہے ہوتے تھے۔

عدالتوں کے فیصلوں پر تنقید یقینا کی جاسکتی ہے لیکن اُن کا تمسخر ہرگز اُڑایا نہیں جاسکتا۔ اُن عدالتوں کے منصف بھی بہرحال ہماری طرح کے انسان ہوا کرتے ہیں اُن سے بھی کچھ معاملات میں غلطی ہوسکتی ہے۔ وہ بھی کسی انجانے نادیدہ خوف کا شکار ہوسکتے ہیں یا پھر اُن کے اپنے بھی کچھ ذاتی خیالات اور احساسات ہوسکتے ہیں۔ اُن کے بھی کچھ سیاسی نظریات اور وابستگیاں ہو سکتی ہیں۔اُن کی بھی کچھ مصلحتیں اور مجبوریاں ہوسکتی ہیں۔ایسا قطعاً نہیں ہوسکتا کہ اُن کا ہر فیصلہ دونوں فریق کے لیے قابل قبول ہے۔کسی نہ کسی فریق کو اُن فیصلوں پر اعتراض یقینی اور فطری ہے۔

میاں نواز شریف کے خلاف جب فیصلے آنا شروع ہوئے تو اُن کے بارے میں بھی بہت سے لوگوں کو تحفظات تھے، لیکن بہرحال اُن پر من و عن عملدرآمد بھی ہوا۔ مگر آج جب انھیں اُن کی اپیلوں پر عدالتیں نظر ثانی کرتے ہوئے اُن کی سزاؤں میں کچھ نرمی برت رہی ہے تو فریق ثانی کی جانب سے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ایک طوفان بد تمیزی برپا ہونے لگا ۔ ہمارے لوگوں کی فطرت ہے کہ وہ ہر اُس معاملے میں اپنی ٹانگ ضرور اڑایا کرتے ہیں جن کے بارے میںوہ ایک لفظ بھی نہیں جانتے۔کرکٹ ہی کو لے لیجیے۔کسی بھی بڑے ایونٹ کے میچوں پر ہمارے لوگوں کا تبصرہ ایک ضروری فرض اور ذمے داری بن چکا ہے۔

جن نے زندگی بھر کرکٹ نہیں کھیلی وہ اپنے قیمتی خیالات کے اظہار اور تبصرہ نگاری میں کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا، وہ گرچہ کرکٹ کے بارے میں الف ب تک نہیں جانتا مگر تبصرہ کرتے ہوئے وہ ماہر کرکٹ اور بہت بڑا دانشور بناہوا ہوتا ہے۔اِسی طرح عدل وانصاف اور قانون کے بارے میں جس نے ایک کتاب بھی پڑھی نہیں ہوتی وہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں پر تنقید کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور تو اور اُس نے اِس ملک کے دستور اور آئین کی کسی ایک شق کا بھی کبھی مطالعہ نہیں کیا ہوتا ہے اور باتیں بڑی بڑی کر رہا ہوتا ہے۔

عدالتوں پر تنقید کرتے ہوئے اُسے لمحہ بھر کے لیے احساس نہیں ہوتا کہ وہ یہ کہہ کر گندی سوچ اور گندی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود بے لباس ہو رہا ہوتا ہے۔سوشل میڈیا لوگوں کو اگر اظہار کی آزادی کاموقعہ فراہم کرتا ہے تو اُسے نعمت غیر مترقبہ سمجھتے ہوئے مثبت طریقے سے استعمال کرنا چاہیے نہ کہ اُسے اپنے پراگندہ خیالات سے متعفن اور بدبودار کردینا چاہیے۔


ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمیشہ درست اور صحیح فیصلے ہوئے۔ '' نظریہ ضرورت'' بھی کبھی مؤثر ہتھیار اور اُصول ہوا کرتا تھا۔ مشہور زمانہ نواب محمد خان کیس جس میں ایک وزیر اعظم کو پھانسی کے تختہ پر لٹکا دیا گیا، پر آج بھی تنقید کی جاتی ہے۔ ہر عدالت کے فیصلوں پر اعتراضات کیے جاتے رہے۔ اُن کی حمایت اور مخالفت میں نظائر اوردلائل کے انبار لگائے جا رہے ہیں مگر کوئی اِنہیں رد اور مسترد نہیں کرسکا۔ اِنہیں اگر رد کرسکتی ہے تو وہ خود عدلیہ ہی ہے۔ عدلیہ چاہے تو نظر ثانی کرتے ہوئے اپنے فیصلوں کو تبدیل یا مکمل رد بھی کرسکتی ہے۔

ابھی ہماری حالیہ عدالت عظمیٰ نے سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں کیے گئے پانچ فیصلوں کو اب تک بدل ڈالا ہے یا یکسر UNDOکرڈالا ہے۔ جس میں سے ایک فیصلہ موبائل فون کارڈز پر ختم کیاجانے والا وہ ٹیکس ہے جسے اب واپس لاگو کردیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کو اِس فیصلے سے ٹیکس کی مد میں اربوں روپے کی اضافی آمدنی ہونے لگی ہے ۔ یہی وہ ٹیکس ہے جسے وہ پچھلے حکمرانوں پر تنقید کرتے ہوئے اُسے عوام کی جیبوں میں ڈاکہ ڈالنے کے مترادف قرار دیاکرتے تھے مگر اب خود بڑے اطمینان سے اِن فیصلوں کے ثمرات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف آئین کی شق 62 اور3 6کے تحت نااہلی کو بعض حلقے متنازعہ فیصلہ سمجھتے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے رہنما کہتے ہیں کہ جے آئی ٹی کی دوماہ کی انتھک مشقت کے بعد دس جلدوں پر مبنی شواہد اور ثبوتوں کی طویل فہرست میں سے اگر قابل تعزیر کوئی مواد ملا بھی تو وہ صرف دبئی کا اقامہ ملا ۔اُن پرکرپشن کے بے تحاشہ الزامات تو ضرور لگائے گئے لیکن انھیں اِس کا مجرم قرار دیکر کوئی سزا سنائی نہیں گئی۔ اِس میں حقائق سے زیادہ ہمارے یہاں کے اُس نظام کا عمل دخل ہے جو عرصہ دراز سے اِس مملکت پاکستان کو مضبوطی سے جکڑ ے ہوئے ہے۔میاں صاحب نے طاقت اور اختیار کے بلند وبالا مضبوط میناروں سے سر ٹکرایا تھا۔اُس کی سزا تو انھیں بہر حال ملنی ہی تھی ۔

جیل کی چند ماہ کی قید تنہائی نے اُن کی ساری خود سری اور باغیانہ سوچ ختم کرڈالی ہے اور وہ اب نہ کھل کر اورجی بھر کے رو سکتے ہیں اور نہ ہنس سکتے ہیں۔لہذا پر اسرار خاموشی کو انھوں نے اب اپنا ہتھیار بنالیا ہے۔'' شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات'' کے مصداق اپنی اِس خاموشی سے مقتدر قوتوں کومفاہمت اور دوستی کا کچھ پیغام دینا چاہتے ہیں جو رفتہ رفتہ پہنچ بھی رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اُن کے تمام اہل خانہ اور رفقاء ایک ایک کرکے جیل سے باہر آچکے ہیں او ر اب صرف وہی اندر باقی ہیں ۔آیندہ آنے والے دنوں میں بہت ممکن ہے کہ وہ بھی کسی ایسے ہی فیصلے کے ذریعے نہ صرف باعزت طور پر رہا ہو جائیں گے اور ہوسکتا ہے علاج کی غرض سے دیار غیر کو بھی کوچ کر جائیں گے ۔ رہ گیا سوال کہ خان صاحب کا وہ دعویٰ کہ میں کسی کو این آر او نہیں دونگا ،کرسی چلی جائے لیکن کسی کو چھوڑوں گا نہیں۔ ماضی میں کیے گئے اُن کے دیگر دعوؤں کی طرح یوٹرن کی عظمتوں میں جھولنے لگے گا۔ خان صاحب کے پاس توخود نہ کسی کو سزا دینے کا اختیار ہے اور نہ معاف کرنے کا ۔
Load Next Story