حقیقت پسند سعادت حسن منٹو
حساس ترین طبیعت کے مالک منٹو سماج میں پھیلی ناہمواریوں و جبر و استحصال دیکھتے تو تڑپ اٹھتے۔
سقراط کو موت کی نیند سلانے والوں کا خیال تھا اب چونکہ سقراط اس دنیا میں نہیں رہا چنانچہ اب تمام جانب مکر وفریب و جھوٹ و کذب کا راج ہوگا مگر یہ ان کا خیال تھا جوکہ خام خیال ثابت ہوا کیونکہ آج بھی سقراط سچائی کی علامت ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔
آج بھی سقراط کے نظریاتی شاگرد موجود ہیں جیسے کہ سقراط کی ظاہری زندگی میں موجود تھے اور یہ تاقیامت پیدا ہوتے رہیں گے یہ بھی ایک زندہ حقیقت ہے کہ سچائی پر ایمان رکھنے والوں پر ہر دور میں عرصہ حیات تنگ کیا گیا مگر انھوں نے سچائی سے منہ نہ موڑا بالخصوص ادبا کے بارے میں اگر ہم بات کریں تو حقیقی ادیب وہی ہوتا ہے جو کسی بھی کیفیت میں سچائی کا دامن نہ چھوڑے۔ چنانچہ حقیقی ادیب کا یہ بھی وصف ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں ڈکٹیشن نہیں لیتا اور سماج کی حقیقی تصویر پوری ایمانداری سے پیش کرنا اپنا فرض اولین سمجھتا ہے یہی وصف اس کا جرم تصور کرلیا جاتا ہے۔
ایسے ہی ادبا میں ایک نمایاں ترین نام ہے سعادت حسن منٹو کا۔ جس کا کارنامہ تو یہ ہے کہ اس نے اپنی تحریروں میں زندگی کی حقیقی تصویر پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ، یہ کوشش اس کا جرم قرار پائی۔ البتہ اگر منٹو کی زیست پر سرسری نظر ڈالیں تو کیفیت یہ بنتی ہے کہ انھوں نے 11 مئی 1912 کو سمبرالہ لدھیانہ میں مولوی غلام حسن کے گھرانے میں آنکھ کھولی اور سعادت حسن منٹو ان کا نام تجویز ہوا ۔ بعد ازاں یہ نام ان کا قلمی نام قرار پایا ۔ منٹو نے اپنے تعلیمی سلسلے کا آغاز امرتسر سے کیا اور میٹرک کے درجے تک تعلیم امرتسر ہی میں حاصل کی۔ بعدازاں اعلیٰ ترین حصول تعلیم کے لیے علی گڑھ تشریف لے گئے اور سرسید احمد خان کی قائم کردہ علمی درسگاہ میں داخلہ لے لیا۔ یہ ذکر ہے 1931 کا دوران حصول تعلیم منٹو کی ملاقات باری علیگ سے ہوئی جن سے اول دوستی ہوئی۔
بعدازاں انھی کی رہنمائی میں ادبی وصحافتی سفرکا آغاز کیا۔ منٹو کو مطالعے کا بے حد شوق تھا یہ باعث تھا کہ انتہائی قلیل وقت میں انھوں نے ہندوستانی ادب کے ساتھ ساتھ غیر ملکی زبانوں میں تخلیق کردہ ادب بھی پڑھ ڈالا ۔ جن نامور ترین ادبا کا ادب انھوں نے پڑھا ان میں چیخوف، میکسم گورکی، گوگول، پشکن وکٹر، ہیگو لارڈ لٹن، آسکر وائلڈ وموپساں البتہ منٹو نے اپنے صحافتی سفرکا آغاز لاہور سے جاری ہونے والے ایک فلمی رسالے پارس سے کیا جہاں انھیں اس رسالے کی ادارت کی ذمے داریاں سونپی گئیں۔
یہ ذکر ہے 1940 کا کہ جب وہ بمبئی گئے اور 28 سال کی عمر میں فلمیں، کہانیاں و مکالمے لکھنے کا آغاز کیا اور ساتھ میں صحافتی سفر بھی جاری رکھا اور اپنی صحافتی خدمات مصور سماج و کارواں میں انجام دیتے رہے ان کا اولین افسانہ تماشہ تھا جوکہ ہفت روزہ خلق امرتسر سے شایع ہوا۔ یہ ضرور تھا کہ افسانہ تماشہ فرضی نام کے ساتھ شایع ہوا البتہ یہ اولین افسانہ خوب پسند کیا گیا جس کے باعث حوصلہ پاکر منٹو نے افسانے تخلیق کرنے کا آغاز کردیا اور ان افسانوں کے مجموعے پھندے، چند، ٹھنڈا گوشت، یزید، سرکنڈوں کے پیچھے، لذت، سنگ، خالی ڈبے، سڑک کنارے، خالی بوتلیں، برقعے اوپر نیچے، درمیان، آتش پارے، رتی تولہ ماشا، منٹو کے افسانے لاؤڈ اسپیکر ، تلخ ترش و شیریں و گنجے فرشتے، منظر عام پر آئے بعدازاں افسانے منٹو نامہ، منٹو راما و منٹو نما کے نام سے کلیات کی شکل میں چھاپے گئے۔
تاہم منٹو نے بہت سارے غیر ملکی ادبا کے تخلیق کردہ ادب کے اردو میں تراجم کرکے اس ادب سے اپنے ہم وطنوں کو روشناس کرایا۔ پہلا ترجمہ جوکہ اسیر سرگزشت کے نام سے منظر عام پر آیا جب کہ اشتراکیت پر مکمل یقین رکھنے والے سعادت حسن منٹو نے آسکر وائلڈ کے اشتراکی ڈرامہ ویر کا اردو میں ترجمہ کیا اور کیا خوب کیا جب کہ منٹو کے تراجم شدہ مضامین رسالہ ہمایوں میں تواتر کے ساتھ چھپتے رہے جب کہ انھوں نے روسی ادب سے تحریروں کو اردو کے قالب میں ڈھالا اور ہمایوں عالمگیر کے روسی افسانوں کے نمبرز بھی شایع کیے۔
منٹو نے خاکہ نگاری بھی کی اور خوب نام پیدا کیا۔ حالانکہ خاکہ نگاری ایک مشکل صنف ہے اور بے حد تحقیق طلب مگر مشکل پسند منٹو نے تمام تر مصروفیات کے باوجود ادب کی اس صنف سے پورا پورا انصاف کیا جب کہ منٹو نے طنزیہ مضامین بھی لکھے اور اس شعبے میں بھی ممتاز ترین مقام حاصل کیا۔ منٹو پر یہ الزام بھی تواتر کے ساتھ لگایا گیا کہ ان کی تحریروں میں فحاشی کا عنصر پایا جاتا ہے اور ان کی تحریروں سے سماج میں بے راہ روی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے مگر یہ الزام فقط الزام ہی تھا۔ سچائی تو یہ ہے کہ وہ ایک حقیقت پسند انسان تھے اور یہ حقیقت پسندی ان کی تحریروں میں بھی نمایاں تھی گویا منٹو کی تحریروں میں حقیقت پسندی کا اظہار ہوتا تھا مگر ان کے مخالفین کے نزدیک یہ حقیقت پسندی فحاشی کے زمرے میں آتی تھی۔ چنانچہ مخالفین کی اسی روش کے باعث منٹو پر مقدمات بھی قائم ہوتے رہے مگر منٹو کو یہ مقدمات حقیقت پسندی سے نہ روک سکے اور وہ بے خوفی سے لکھتے رہے ۔
حساس ترین طبیعت کے مالک منٹو سماج میں پھیلی ناہمواریوں و جبر و استحصال دیکھتے تو تڑپ اٹھتے اور اس عمر میں جب کہ وہ عمر ان کے ادبی کام کرنے کی عمر تھی یعنی فقط 42 برس کی عمر میں منٹو نے دنیا فانی سے کوچ کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اپنی موت کا سامان بھی منٹو نے خود ہی کرلیا تھا گویا انھیں گوارا نہ تھا کہ جن مخالفین نے ان کی تمام تر ادبی زندگی میں ان پر الزام تراشی کی ہے ان الزام تراشی کرنے والوں پر میری موت کا الزام بھی آئے جب کہ صداقت تو یہ ہے کہ جب منٹو نے دنیا کو الوداع کہا اس وقت بھی منٹو کی ضرورت تھی آج بھی ہے اور آیندہ نسلوں کو بھی منٹو کی ضرورت رہے گی۔
البتہ 18 اگست 1954 کو منٹو نے اپنی قبر کے لیے کتبہ خود تحریر کر ڈالا جس پر تحریر ہے کہ یہ سعادت حسن منٹو کی قبر ہے جو اب بھی سمجھتا ہے کہ اس کا نام لوح جہاں پر حرف مکرر نہیں تھا، اس تحریر کے ٹھیک پانچ ماہ بعد منٹو کی وفات ہوگئی۔ وفات کے وقت ان کی عمر عزیز تھی فقط 42 برس 8 ماہ و سات یوم۔ منٹو نے 18 جنوری 1955 کو وفات پائی۔ 2017 کو منٹو کے صد سالہ یوم پیدائش پر انھیں بعد ازمرگ اس وقت کی حکومت نے منٹو کو پاکستان کا اعلیٰ ترین اعزاز نشان پاکستان عطا کیا گویا منٹو کی وفات کے 57 برس بعد ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔ بہرکیف ہم منٹو کو ان کی 107 ویں سالگرہ پر زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اس عزم کے ساتھ کہ سچائی کا سفر جاری رہے گا۔