جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم…
ایک دن ہم سب بھی اسی حسرت کے ساتھ قبروں میں اتر جائیں گے۔
معروف شاعر ریاض الرحمن ساغر تو یہ حسرت لیے اس دنیا سے چلے گئے، اور ایک دن ہم سب بھی اسی حسرت کے ساتھ قبروں میں اتر جائیں گے کیوں کہ آج کی بے مہر دنیا میں خوشیوں کے مواقع کم اور غم زیادہ ہیں۔ سوچنے کی بات تو مگر یہ ہے کہ کیا ہر نئے غم، ہر نئی بلا، ہر نئی آفت نے صرف مسلمانوںکے گھر دیکھ لیے ہیں۔ ہر روز صبح اپنے جلو میں ایک نئی قیامت لیے طلوع ہوتی ہے، اور یوں لگتا ہے کہ یہ ساری قیامتیں مسلم امہ پر ہی اترتی ہیں۔ کس کس کا دکھڑا رویا جائے، شام ہو یا مصر دونوں ممالک میں درندگی و بہیمیت کے ریکارڈ بنائے جارہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ دونوں ممالک کی افواج ظلم و بربریت میں ایک دوسرے سے مقابلے میں ہیں۔
نہتے مرد و خواتین ہی نہیں بلکہ معصوم بچے بھی زندہ جلائے جارہے ہیں۔ آج کل انٹرنیٹ پر ان مظالم کی منہ بولتی ایسی ایسی انسانیت سوز تصویریں اور ویڈیوز آرہی ہیں کہ پتھر دل آدمی بھی برداشت نہ کرسکے، مگر انسانی حقوق اور جانوروں کے حقوق کے چیمپئن رسمی مذمت کے سوا کچھ نہیں کررہے۔ شام میں فوج کے ہاتھوں درندگی کے ہزاروں واقعات میں سے صرف دو خبریں ملاحظہ فرمائیے۔ ایک کا تعلق شام کے نواحی شہر حمص سے ہے جس کا شامی فوج نے پچھلے ایک سال سے محاصرہ کیا ہوا ہے۔ فوج کی فائرنگ سے روزانہ بیسیوں شہادتیں اپنی جگہ لیکن خبر کے مطابق صرف بھوک سے وہاں روزانہ کئی افراد شہید ہورہے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مقامی علماء نے اس حالت میں بلی اور دوسرے حرام جانوروں کا گوشت کھانے کی اجازت دے دی ہے۔
درندگی کا دوسرا مظہر چند دن پہلے واقعہ ہوا جس نے یقیناً ابلیس کو بھی شرمندہ کردیا ہوگا۔ فوج نے عام مسلمانوں پر مہلک گیس کا کیمیائی حملہ کیا جس نے آنِ واحد میں ہزاروں شہریوں کو شہید اور زخمی کردیا۔ ان شہید اور زخمی ہونے والوں میں بڑی تعداد معصوم بچوں اور خواتین کی تھی۔ اس واقعے کی تفصیلات اتنی دردناک تھیں کہ اگر قیامت کا ایک دن معین نہ ہوتا تو ضرور آسمان پھٹ پڑتا۔ اسلام میں نوحہ اور سینہ کوبی کی اجازت ہوتی تو حق تھا کہ مسلمان اس بہیمیت پر اپنا سینہ فگار کر لیتے۔ العربیہ نیوز ایجنسی کی جاری کردہ ایک ویڈیو میں اس زہریلی گیس سے متاثرہ معصوم بچوں کو دکھایا گیا ہے جو بری طرح تڑپ رہے ہیں اور تڑپتے تڑپتے جان دے رہے ہیں۔ اس دلخراش ویڈیو کو دیکھ کر کوئی سخت سے سخت دل شخص بھی اپنے ہوش میں نہیں رہ سکتا۔
مصر میں جنرل سیسی اور اس کی فوج بھی بشارالاسد فوج سے کسی طرح پیچھے نہیں۔ قاہرہ کے میدان رابعہ العدویہ اور نہضہ اسکوائر میں خون کی ندیاں بہانے کے بعد اب فرعون کی وارث مصری فوج نے فرعون کے نام سے موسوم ساحۃ رمسیس (رمسیس اسکوائر) میں بھی رب موسیٰ اور اس کے دین کی حقانیت پر ایمان رکھنے والوں کو خون میں نہلانا شروع کردیا ہے۔ عرب اسرائیل جنگ میں بدترین اور شرم ناک شکست اٹھانے والی فوج نہتے مرد، عورتوں اور بچوں کو بلاتخصیص مار رہی ہے۔ پچھلے ہفتے ایک ایک دن میںایک سے تین ہزار تک لوگوں کو شہید کیا گیا ہے۔ اخوان کے 38 قیدی زندہ جلائے گئے، 300 سے زائد معصوم بچوں اور خواتین کو خیموں میں زندہ جلادیا گیا۔ یہ وہ مقتول تھے جن کے ہاتھ میں اسلحہ تو کیا ایک پتھر بھی نہیں تھا، انھوں نے مساجد میں پناہ لے رکھی تھی لیکن سیسی بھی اس جنون میں مبتلا ہو گیا کہ نہ اسے تباہ ہوتی مساجد نظر آرہی ہیں، نہ قرآن کریم کے جلتے نسخے۔
بیسویں صدی معلوم تاریخ میں خونریزی اور قتل و غارت کی صدی کے نام سے جانی جاتی ہے، جس میں دو عالمی جنگیں انسانیت نے بھگتیں، ان جنگوں میں بلامبالغہ کروڑوں انسان بلا قصور قتل ہوئے، اسی صدی میں ویت نام کی جنگ میں امریکیوں کے ہاتھوں لاکھوں ویت نامی مارے گئے، اسی صدی میں جاپانیوں پر ایٹم بم برسایا گیا اور لاکھوںجیتے جاگتے انسان یک لخت سوختہ ہوگئے، اسی صدی میں برصغیر کی تقسیم کے وقت لاکھوں انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی، اسی صدی میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد لاکھوں مسلمان شہید ہوئے، ان تمام خونی واقعات کی وجہ سے بیسیویں صدی کو تاریخ کی سب سے خونی صدی کہا گیا لیکن ... اکیسویں صدی کے صرف تیرہ سال میں اچھی طرح واضح ہو گیا ہے کہ آنے والا مورخ رواں صدی کی خونریزی کے سامنے بیسویں صدی کے انتشار اور فساد کو کچھ اہمیت نہ دے گا۔
فرق صرف یہ پڑا ہے کہ جنگیں اور انتشار اب مغرب سے مشرق منتقل ہوگیا ہے اور مشرق میں بھی خاص مسلم ممالک میں... پاکستان میں روز بروز خراب ہوتے ہوئے حالات ہوں یا تباہ حال افغانستان اور عراق ہوں، تیونس، لیبیا، الجزائراور یمن کے جلتے در و دیوار ہوں یا برما میں مسلمانوں کا قتل عام، اور اب شام و مصر، صرف اسلامی دنیا میں بیسیوں آتش فشاں ہیں جو خون اگل رہے ہیں۔ برما میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہوا، عالمی ضمیر خاموش رہا، مصر اور شام میں اس وقت فوج کے ہاتھوں نہتے شہریوں پر بدترین درندگی کے مظاہر عام ہیں مگر اقوام متحدہ سمیت کسی عالمی فورم پراس مسئلے کے حل کے لیے کچھ نہیں کیا جارہا۔ مغرب کو تو چھوڑیے خود ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے کہ یوں لگتا ہے کہ ہم نے ان مظلوموں کو جانوروں سے بھی کسی نچلی سطح پر سمجھ لیا ہے۔ ترکی کے علاوہ کسی مسلم ملک نے رسماً بھی اس فرعونیت کی مذمت نہیں کی جو اس وقت مصر و شام میں رقصاں ہے۔ پاکستان میں بھی یہ بے حسی عام ہے۔ آپ کسی سے بات کیجیے، کوئی آپ کو ان مظلوموں کے لیے پریشان نظر نہیں آئے گا۔ جب کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مشہور ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، ایک عضو کو تکلیف ہو تو سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے۔
ہمارا میڈیا بھی ظاہری بات ہے وہی دکھائے گا جو عوام کو پسند ہو۔ بے شک ہمارے میڈیا میں چند آوازیں ہیں جو شام و مصر کے مظلوموں کا نوحہ پڑھ رہی ہیں، لیکن ان کی دبی دبی آوازیں نقارخانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ اس کے برعکس مغرب کے چند انصاف پسند صحافی اس ظلم و بربریت کے خلاف نہایت قوت سے اور تواتر سے آواز اٹھا رہے ہیں اور ان کی آواز پوری دنیا کے عوام میں سنی بھی جا رہی ہے۔ ان میں سب سے نمایاں رابرٹ فسک ہیں جو ایک نامور برطانوی جریدے ''دی انڈی پینڈیٹ''کے نمائندے ہیں۔ انھوں نے خود مصر جا کر مصری عوام پر ہونے والے ظلم کا مشاہدہ کیا اور پھر اپنے اخبار کے لیے ایک معرکۃ الآرا مضمون لکھا ہے۔
وہ مصر کی حالیہ بغاوت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ شاید دنیا کی واحد ''فوجی بغاوت'' ہے جو امریکا کے نزدیک فوجی بغاوت نہیں۔ وہ اپنے اس مضمون میں لکھتے ہیں کہ کیا اب بھی مغرب مسلمانوںسے یہ امید لگائے گا کہ وہ مسلح مزاحمت کے بجائے بیلٹ بکس کے ذریعے تبدیلی لائیں۔ اس نے لکھا ہے کہ القاعدہ کی بنیاد چند سابق ناراض اخوانیوں نے ہی رکھی تھی جنھوں نے ہر حال میں پرامن رہنے کی پالیسی سے مایوس ہو کر القاعدہ بنائی اور پوری دنیا کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ اخوان المسلمون تو مسلمانوں کی وہ عالمی جماعت ہے جس نے کبھی کسی حال میںبھی اسلحہ نہیں اٹھایا لیکن اگر جمہوریت کے علمبرداروں نے ان پر جمہوریت کا راستہ بند کردیا تو پھر کب تک کروڑوں اخوان کارکن خود کو القاعدہ کے راستے پر چلنے سے روک سکیں گے، کب تک؟