آئوٹ آف کنٹرول لائن آف کنٹرول
اہل مغرب انڈیا پاکستان کے تعلقات کو ’’ٹام اینڈ جیری‘‘ کی دوستی سے تشبیہ دیتے ہیں۔
اہل مغرب انڈیا پاکستان کے تعلقات کو ''ٹام اینڈ جیری'' کی دوستی سے تشبیہ دیتے ہیں، جو ساتھ رہ سکتے ہیں نہ علیحدہ، نواز شریف کی حکومت آتے ہی بھارت کی طرف سے محبت کے زمزموں کے ریلے آنے لگے۔ تجارتی وفود کے تابڑ توڑ تبادلے، توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے بجلی کی پیش کش، نواز، من موہن ملاقات کے منصوبے، ویزے کی پابندیوں میں نرمی، مذاکرات جاری رکھنے کی خواہش، کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی تمنا وغیرہ۔ جونہی6اگست کو لائن آف کنٹرول، آئوٹ آف کنٹرول ہوئی جس میں5بھارتی فوجی ہلاک ہوئے، اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کی منسوخی سے دوستی بسوں کے گھیرائو کے درمیان تک سب کچھ الٹ پلٹ ہوگیا۔ یہ صرف دو مہینے کی رام کہانی ہے۔
اس کے باوجود امریکا کی خواہش ہے کہ بھارت پاکستان اچھے ہم سایوں کی طرح بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت مل جل کر رہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو لاکھوں جانوں کا نذرانہ دیکر علیحدہ ملک کیوں قائم کرتے؟ مسئلہ مسلمانوں اور اسلام کا نہیں ہے بلکہ ہندو عقیدے اور ہندومت کا ہے۔ بنیادی تضاد یہ ہے کہ ہندومت ذات پات، اونچ نیچ اور چھوت چھات والا نظام ہے۔ جب کہ اسلام مساوات کا قائل۔ اگر کوئی ہندو مسلمان کے ہاتھ کا چھوا پانی بھی پی لے تو اس کا دھرم بھرشٹ ہوجاتاہے۔ وہ گائے کی پوجا کرتے ہیں اور مسلمان اس کے نہاری کباب بناتے ہیں جس پر ہندو مسلم فساد ہوجاتاہے۔ لوگ قتل ہوتے ہیں جب کہ یہی کام ساری دنیا بھی کرتی ہے۔
پچھلے دنوں ایک انتہائی پر اسرار، سنسنی خیز خبر بھارتی میڈیا پر چھائی رہی۔ ایک ریٹائرڈ انڈین بیوروکریٹ نے انکشاف کیا کہ 26/11کے ممبئی سانحے کی منصوبہ بندی بھارتی اداروں نے کی تاکہ دہشت گردی کے خلاف زیادہ سخت قانون سازی ہوسکے۔ ایک خبر پڑھنے کے بعد دل گواہی دیتاہے کہ ایسا ہی ہوا ہوگا۔ دوسری خبر پڑھ کر یقین ہوتاہے کہ نری بکواس ہے۔ تیسری خبر پڑھ کر قاری سوچ میں پڑ جاتاہے۔ بظاہر ناممکن ہونے کے باوجود ''ممکن'' تو ہے ۔ مذکورہ بالا خبر تیسری قسم کی تھی۔ بھارتی ساکھ کے لیے یہ خبر زہر ہلاہل سے کم نہ تھی۔ کیونکہ بھارت نے دنیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے 26/11کا سانحہ ممبئی اور 9/11کے سانحے نیو یارک کو برابر ثابت کرنے کے لیے بے تحاشہ پروپیگنڈا کیا ہے۔ اس وقت تو بھارت نے اس خبر کو زیادہ پھیلنے سے روکنے کے لیے ''ہش ہش '' کردیا لیکن اگر اس خبر کو یونہی چھوڑ دیا جاتا تو لوگوں کو یقین آجاتا کہ ہوسکتا ہے کہ رپورٹ میں صحیح دعویٰ کیا گیا ہو۔
6اگست کو لائن آف کنٹرول پر 5بھارتی فوجیوں کی ہلاکت پر یکایک غیر معمولی ہنگامہ کھڑا کردیا گیا۔ یہ ہنگامہ حکمراں پارٹی کی یوتھ ونگ نے کھڑا کیا۔ پاکستانی سفارت خانے پر دھاوا بولا، تمام شہروں میں پاکستان کے خلاف مظاہرے ہوئے، دو دوستی بسوں کا گھیرائو کیا، مذاکرات ملتوی ہوگئے، جب اپوزیشن (BJP) نے دیکھا کہ یہ ایشو آنے والے الیکشن میں کام آسکتاہے تو وہ بھی کود پڑے اور قاتل وزیراعلیٰ گجرات نریندر مودی سے اپنی پرانی بہرویں شروع کردی کہ پاکستان کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ بدھ 14اگست کو بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ وزارت خارجہ کے بھارتی ترجمان نے بیان دیا کہ پاکستان (کشمیر کے مسئلہ پر مذاکرات میں رکاوٹ 26/11کے ممبئی سانحے کے ذمے داران کو سزا نہ دینا ہے۔
(اشارہ لشکر طیبہ اور حافظ سعید کی طرف ہے) اب پھر ریٹائرڈ انڈین بیوروکریٹ کے انکشاف کی طرف آتے ہیں جس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس واردات کا منصوبہ خود بھارتی اداروں نے کیا۔ 26/11کے سانحہ ممبئی کا سارا ملبہ پاکستان کے سر پر ڈال دیا گیا تھا۔ اب پاکستان اس رپورٹ کا حوالہ دے کر یہ کہہ سکتا ہے کہ اس سانحے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن وہ ایسا نہیں کہے گا کیونکہ یہ بات سنی سنائی ہے جس کی قانوناً کوئی حیثیت نہیں ہے کیوںکہ رپورٹ دینے والا اس منصوبے کا حصہ نہیں تھا۔ یعنی پاکستان بھی (جو اس رپورٹ سے سب سے زیادہ فائدہ حاصل کرسکتا تھا) اس کا حوالہ نہیں دیا یعنی اس کو بوگس سمجھا ''یہی بھارت چاہتا تھا اگر یہ رپورٹ صحیح ہوتی تو پاکستان اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتا۔''
جمعرات 15 اگست کو امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان میری ہارف کا بیان ہے ''کشمیر اور دہشت گردی کا (مثلا ًممبئی حادثے کا) کوئی تعلق نہیں ہے، کشمیر سیاسی مسئلہ ہے، کشیدگی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کیے جائیں۔ پاکستان اور بھارت پر ایٹمی جنگ کے سائے منڈ لارہے ہیں۔''
ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان ''خوف کا توازن قائم ہوگیا ہے اب جنگ کا زیرو فیصد امکان ہے، حادثاتی طور پر چھڑجائے الگ بات ہے۔ پہلا ثبوت یہ ہے کہ ایٹمی دھماکوں سے دو دن پہلے کا اخبار اٹھاکر دیکھ لیجیے۔ بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے جس میں سبق سکھانے کی، اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں ملیںگی۔ دو دن بعد کا اخبار اٹھالیجیے وہی بھارتی وزیراعظم پاکستان کو خوشگوار، دوستانہ، برادرانہ تعلقات کی اہمیت کا احساس دلارہے ہوںگے جس کی خاطر وہ مینار پاکستان تک آگئے تھے۔
دوسرا ثبوت راجیو گاندھی کی وزارت عظمیٰ کے دوران یاد کیجیے کس طرح پاکستان کو مشرقی بارڈر پر جنگی مشقوں کے نام پر سرخ کردیا گیا تھا۔ پاکستان کے صدر ضیاء الحق کرکٹ میچ دیکھنے بھارت پہنچ گئے جس کو کرکٹ ڈپلومیسی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ( میں نے خود TVپر دیکھا) راجیو گاندھی کو جو گلے ملنے پر تیار نہ تھے بڑے تپاک سے ضیاء الحق نے یوں گلے لگایا جیسے راجیو گاندھی ان کا وہ بھائی ہے جو بچپن میں گائوں کے میلے میں گم ہوگیا تھا اور انداز ایسا کہ ایک پنجابی گیت کا مصرع ذہن میں گونجنے لگا جس میں کچھ ''ٹھا'' کرکے کرنے کو کہا گیا ہے یہ اس کا عملی مظاہرہ تھا بعد میں پتہ چلا کہ موصوف اس کے کان میں کیا ڈال کر آئے ہیں الفاظ مختلف لیکن مفہوم سب کا ایک ہی ہے۔ یعنی انھوںنے راجیو گاندھی سے کہا ''دوستی میں بڑے فائدے ہیں۔ ہمارے پاس بھی ایٹم بم ہے۔ ممبئی، دہلی، کلکتہ صرف نقشے پر رہ جائیںگے۔''
اس کے فوری بعد بھارت نے امریکا سے رابطہ کیا کیوںکہ امریکی ہم کو ہمارے سے زیادہ جانتے ہیں۔ امریکی اچھل پڑے سمجھایا ایٹمی حملہ اقوام عالم کا آخری آپشن ہے لیکن پاکستانی ایک سر پھری قوم ہے یہ ابتدا جوہری بم کے حملے سے کریںگے۔ اس کے بعد سے آج تک پاکستان ہندوستان کے مشرقی بارڈر پر سناٹا ہے۔ یہ ہے ''خوف کا توازن۔''
پاکستان دوستی سب سے لیکن برابری کی بنیاد پر، دشمنی کسی سے نہیں (خاص طور پر پڑوسیوں سے) ۔ جب امریکا چین میں معاشی، سیاسی، مفادات کے ٹکرائو کے باوجود امریکی ملٹی نیشنل کمپنیاں چین میں کام کرسکتی ہیں، چین کی پروڈکٹ امریکا کے ہر گھر میں استعمال ہوسکتی ہیں، چین بھارت میں تجارت ہوسکتی ہے، بھارت میں چین صنعتیں لگاسکتا ہے، وزیراعظم کے خیر سگالی دورے ہوسکتے ہیں تو پاکستان بھارت کے درمیان خوشگوار تعلقات کیوں قائم نہیں ہوسکتے۔ ٹام اینڈ جیری والی دوستی کا فائدہ؟
پاکستان تو بن چکا، قائم رہنے کے لیے بنا، مانتا ہوں۔ پاکستان کے دو ٹکڑے ہوگئے یا کیے گئے مانتاہوں، پاکستان آدھا رہ گیا، نہیں مانتا، کیوںکہ پاکستانی نظریے کے ٹکڑے نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا دو پاکستان بن گئے مانتاہوں ایک بھارت کے مشرق میں اور دوسرا بھارت کے مغرب میں، پاکستان پائندہ باد۔