غیر معتبر دعائیں

16جولائی کو رینجرز اہلکاروں کے ہاتھوں قتل ہونے والے ٹیکسی ڈرائیورکی بیوہ دعا نے جو اپنے شوہر کے قتل کی مدعیہ بھی ہے۔


Adnan Ashraf Advocate August 24, 2013
[email protected]

16 جولائی کو رینجرز اہلکاروں کے ہاتھوں قتل ہونے والے ٹیکسی ڈرائیور کی بیوہ دعا نے جو اپنے شوہر کے قتل کی مدعیہ بھی ہے، رینجرز حکام کے مبینہ دبائو کی وجہ سے اپنا مقدمہ واپس لینے عدالت پہنچ گئی۔ اس نے عدالت میں حلف نامہ داخل کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ اپنے مقتول شوہر کے قتل کا مقدمہ واپس لینا چاہتی ہے اور اس سلسلے میں مزید عدالتی کارروائی کرنا نہیں چاہتی، وہ اپنے شوہر کے قتل میں ملوث تمام ملزمان کو اﷲ کے واسطے غیر مشروط طور پر معاف کرتی ہے۔ فاضل عدالت نے کہاکہ اس قتل کا سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا اور مقدمہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں منتقل ہوچکا ہے لہٰذا فاضل عدالت مصالحت و معافی سے متعلق اس درخواست کو منظور کرانے کے لیے دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے رجوع کیا جائے۔

مدعیہ دعا کے شوہر کو چیکنگ کے دوران اشارے پر نہ رکنے کی پاداش میں رینجرز اہلکاروں نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔ مقتول کی بیوہ دعا اپنے شوہر کے قاتلوں کی گرفتاری اور سزا کے لیے دعائیں اور التجائیں کرتی رہی۔ واقعے کا سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے اس کے مرتکب رینجرز اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم صادر کیا، اس کے باوجود مقتول کی بیوہ ایک ماہ میں ہی مقدمے کی پیروی سے دستبردار ہوگئی۔ اس خاتون کا کہناہے کہ اسے رینجرز حکام کی جانب سے شدید دبائو کا سامنا ہے اور وہ مزید مشکلات کا سامنا نہیں کرسکتی۔ قتل کا یہ افسوسناک واقعہ رینجرز اہلکاروں کی خودسری و قانون شکنی کی کارروائی تھی یا پھر ملک میں جاری خوف و دہشت گردی کی فضا میں کسی غلط فہمی کا نتیجہ؟ یا اس میں رینجرز اہلکاروں کے اشارے پر نہ رکنے والے ٹیکسی ڈرائیور کا قصور بھی شامل تھا؟

یہ حقائق تو عدالتی کارروائی کی صورت میں ہی سامنے آسکتے ہیں لیکن مقتول کی بیوہ پر دبائو ڈال کر قتل کا مقدمہ واپس لینے پر مجبور کرنا اس واقعے سے بھی زیادہ ظلم ناک اور شرمناک ہے۔ اس سے قبل بھی رینجرز اہلکاروں کے ہاتھوں سرعام نہتے نوجوان کی ہلاکت (قطع نظر اس کے کہ وہ مجرمانہ وارداتوں میں ملوث تھا) اور دیگر کئی واقعات سامنے آچکے ہیں۔ چند نچلے درجے کے اہلکاروں کی جانب سے کی جانے والی ماورائے قانون وارداتیں اور پھر اعلیٰ حکام کی جانب سے ان کی پشت پناہی پورے ادارے کے وجود کو داغدار کررہی ہیں۔ اگر اعلیٰ عدالتیں اس قسم کے واقعات پر نوٹس نہ لیں تو ان کی ایف آئی آر تک بھی درج نہ ہوپائیں۔ پچھلی ایک دہائی سے حکومت، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی، غفلت، جانبداری اور قانون شکنی کے پروان چڑھتے رجحان میں صرف عدالتیں ہی مفلس و بے بس و لاچار افراد کی مسیحائی کرتی نظر آتی ہیں۔

ملک کے طول وعرض میں جاری ظلم و جبر اور استحصال اور ناانصافی کا اندازہ اس بات سے بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ عدالتوں میں موجود مقدمات، عدالتی احکامات، میڈیا کے ذریعے منظرعام پر آجانے والے واقعات اور سول سوسائٹی اور عوام کے بھرپور احتجاج کے باوجود بااثر افراد اور عناصر اور خود قانون نافذ کرنے والے ادارے کھلے عام اصول، قانون اور اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرتے اور منہ چڑاتے نظر آتے ہیں، عدالتوں میں مدعیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ آئوٹ اور آف پروموشن کے خلاف پٹیشن دائر کرنے والے ڈی آئی جی پولیس کی سپریم کورٹ کے احاطے میں موجودگی میں منظور نظر افراد نے جو درگت بنائی، شاہ رخ قتل کیس میں عدالت میں ملزمان نے مقتول کی بہن کو جس طرح تحقیر و تشدد کا نشانہ بنایا اور سزائیں ملنے پر عدالت میں سیٹیاں اور تالیاں بجاکر فتح کے نشان بنائے اور خوشی کا اظہار کیا وہ ان کی قانون اور سزا سے بے خوفی کو ظاہر کرتا ہے۔

کیونکہ انھیں باور کرادیا جاتا ہے کہ ان کے پاس اپیل در اپیل، دبائو، بلیک میلنگ، خون بہا و مصالحت اور رحم کی اپیل تک بہت سے کارآمد متبادل موجود ہیں اور نام نہاد جیل میں انھیں گھر سے زیادہ آسائشات و تعیشات اور ہمدردیاں و پذیرائی بھی میسر رہتی ہیں۔ کبھی کوئی درندہ اسپتال کی نرس کو اپنی ہوس کا نشانہ بناکر بالائی منزل سے پھینک دیتا ہے تو اس کا محکمہ، ہم پیشہ اور قانون کے رکھوالے ادارے اس ملزم کے رکھوالے بن جاتے ہیں، کبھی مزار قائد آنے والی دوشیزہ کو بھیڑیے اٹھا کر احاطہ مزار میں ہی کئی دن تک جنسی درندگی کا نشانہ بناکر احاطے سے باہر پھینک دیتے ہیں، پنجاب سے تعلق رکھنے والی اس دوشیزہ کے مقدمہ کی عدم پیروی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چشم پوشی کی وجہ سے ملزمان قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں، کہیں انتخابی امیدوار پریذائیڈنگ افسر کو سرعام تھپڑ مارتی ہے، دوسرے ہی دن وہ خاتون میڈیا پر آکر واقعے کی نوعیت تبدیل اور اس کے مرتکب کو معاف کرنے پر مجبور کردی جاتی ہے، کبھی KESC کے دفتر میں لٹکے موت سے برسر پیکار نوجوان کا باپ عدالت میں اپنے بیٹے کے مقدمہ قتل سے محض اس لیے دستبردار ہونے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ متعلقہ محکموں کے عدم تعاون اور عدالتوں کے روز روز چکر میں اپنا پیسہ اور نوکری نہیں گنوا سکتا ہے۔

ہمارے ہاں ظلم و جبر، استحصال اور ناانصافی کا کلچر ایک پولیس کانسٹیبل سے لے کر وزیراعظم و صدر تک دراز ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر شازیہ کیس کا انکوائری کمیشن کی کارروائی شروع ہونے کے ساتھ ہی اس وقت کا صدر اور آمر واقعے میں ملوث فوجی افسر کی بے گناہی کی وکالت شروع کردیتا ہے، ابھی سانحہ بلدیہ فیکٹری کے ہلاک شدگان کی لاشیں بھی شناخت نہیں ہوپاتیں کہ وزیراعظم واقعے کی ایف آئی آر میں سے قتل کی دفعہ نکالنے کے احکامات جاری کردیتا ہے۔ اداروں کی یہ حالت ہے کہ گزشتہ دنوں عدالت عالیہ میں وزارت دفاع نے اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ دہشت گرد بیرونی مدد سے ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایک تنہا شخص کی جانب سے دارالحکومت میں کھیل تماشا لگائے رکھنا اور پھر اس کا افسانوی قسم کا اختتام انتظامیہ کی نااہلی اور اس ڈرامے میں حکومتی عناصر کے ملوث ہونے کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد بھی غیر یقینی اور تذبذب کی صورتحال کا شکار نظر آتے ہیں، ان میں جرائم پیشہ عناصر سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت اور امنگ نظر نہیں آتی بلکہ وہ خوف، مصلحت، مفادات اور خوشامد کے خول میں مقید ہیں۔

جب حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے قانون سے ماورا ہوجائیں اور عدالتیں بے دست و پا اور بے وقعتی کا شکار ہوجائیں تو اندھیر نگری چوپٹ راج میں شہریوں کے پاس اس کے سوا کیا رہ جاتا ہے کہ اﷲ سے دعا کریں کہ ''اے اﷲ میری قوم کے ظالموں سے بچا'' دعائیں تو دعا، شازیہ، کائنات سومرو اور منوبھیل جیسے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد کررہے ہوںگے جو تاحال غیر مستجاب ہیں۔ اب تو عقابی نظر رکھنے والے موقع شناس حضرت علامہ طاہر القادری نے بھی کہہ دیا ہے کہ ''وہ وقت اور موقع کا انتظار کررہے تھے، یکم ستمبر کو ایک کروڑ نمازیوں کی امامت کریںگے جو پہلی اور آخری جماعت ہوگی'' لیکن ان کے مقتدیوں کو اﷲ تعالیٰ کی یہ وعید یاد رکھنی چاہیے کہ خرابی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں'' شاید ہمارے حالات بھی ایک منظم سازش کے تحت اس نہج تک پہنچادیے گئے ہیں جو بیرونی شورش اور اندرونی انتشار اور خانہ جنگی کے لیے سازگار ہیں، صاحب اقتدار و اختیار حضرت علیؓ کے قول کو بھول چکے ہیں کہ ''کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم کی نہیں''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں