مثبت اور منفی پہلو
روشنی، حرارت و حرکت اور مقناطیسیت ایک ہی توانائی کے مختلف پہلو ہیں۔
روشنی، حرارت و حرکت اور مقناطیسیت ایک ہی توانائی کے مختلف پہلو ہیں۔ مادے کی طرح توانائی بھی وحدت الوجود کی مظہر ہے بلکہ خود مادہ بھی توانائی کی ہی ایک شکل ہے۔ مشق تنفس نور اور دیگر کالموں میں ہم جابجا ''نور'' کا تذکرہ کرتے آئے ہیں، کیا اس تکرار سے اندازہ نہیں ہوتا کہ آدمی کی اصل ''نوری'' ہے؟ اس موقع پر علامہ اقبال کا مشہور شعر یاد آیا ؎
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہخاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
مگر یہاں نور سے مطلب وہ مادی نور نہیں جس کا تجربہ روحیت کے طالب علموں کو ہوتا ہے بلکہ نور یقین و ایمان مراد ہے۔ مشق کرنے والے ایک طالب علم اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ ''جب سانس کو ناک کے سوراخوں کے ذریعے خارج کرتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ جان نکل جائے گی۔ صبح کے وقت مشق کرنے سے آنکھوں کے سامنے روشنی ہی روشنی پھیل جاتی ہے، جیسے کسی نے سرچ لائٹ جلا دی ہو، آنکھیں بند ہوتی ہیں مگر لگتا ہے کہ ہر چیز صاف نظر آ رہی ہے۔'' آپ سمجھے یہ کیا کرشمہ ہے۔ آنکھیں بند ہونے پر کوئی شخص کس طرح دیکھ سکتا ہے؟ درحقیقت یہ کرشمہ تیسری آنکھ کا ہے، جسے غدۂ صنوبری (Pineal Gland) کہتے ہیں۔ اس غدود کو پراسرار قوتوں کا مرکز کہا جاتا ہے۔ بعض علمائے روحانیت نے غدۂ صنوبری کو روح کی تخت گاہ کہا ہے۔ التجلی کی مشق کے ذریعے اس غدود کی خوابیدہ قوتوں کو بیدار کیا جاتا ہے۔
التجلی کی مشق کا طریقہ کار یہ ہے کہ آپ آنکھوں کی پتلیاں اوپر چڑھا کر دونوں نظریں ناک کی جڑ پر مرکوز کردیں اور پلک جھپکائے بغیر وہیں تکتے رہیں۔ یہ غدود پیشانی کے عقب میں واقع ہے اور تجلیات کا مرکز ہے۔ سجدے کے ذریعے (پیشانی زمین پر ٹیک کر) بھی غدۂ صنوبری (جو ایک روحانی لطیفہ ہے) کو تقویت پہنچائی جاتی ہے۔ غدۂ صنوبری مرکز تجلیات ہے۔
اس طرز کی تمام مشقیں کرنے والوں کو مشورہ ہے کہ: (1) یہ مشقیں کرنے والے اگر ہر وقت باوضو نہیں رہ سکتے تو کم سے کم مشق کرتے وقت پاک صاف لباس پہنیں اور باوضو ہوں۔ (2) یہ مشقیں کرنے والے پاک و پاکیزہ خیالات کے حامل ہوں، ورنہ فائدے کے بجائے نقصان کا اندیشہ ہے۔ ان مشقوں کے فوائد تو ظاہر ہیں لیکن جو چیز فائدہ پہنچا سکتی ہے، اس کے گزند کا بھی اندیشہ ہے۔ میں اپنے کالموں میں بارہا لکھ چکا ہوں اور اب پھر اس تنبیہ کو دہراتا ہوں کہ یہ مشقیں استاد کی اجازت کے بغیر نہ کی جائیں۔ میں نے جہاں بہت سے لوگوں کو ان مشقوں سے فائدہ اٹھاتے دیکھا ہے، وہاں ایسے لوگ بھی نظر سے گزرے جنھوں نے اجازت کی بغیر باقاعدگی کے ساتھ مشقیں شروع کیں اور نقصان اٹھایا۔
آپ میرے کالم پڑھ کر ہی کوئی مشق بذات خود اور بجائے خود شروع نہ کریں بلکہ پہلے اپنی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی کیفیات سے مطلع کریں، اور پھر ہم سے رابطہ کرکے تمام عوامل سے آگاہ کرنے کے بعد اجازت سے تجویز کردہ مشق پر عمل کریں اور حسب ضرورت مجھے اپنے حالات سے مطلع کرتے رہیں تاکہ آپ کی مناسب رہنمائی کی جاتی رہے۔ آپ دنیا کے کسی گوشے میں ہوں، خط و کتابت اور ای میل کے ذریعے مجھ سے رابطہ قائم کرسکتے ہیں۔ درحقیقت جس طرح آگ تر اور خشک دونوں کو جلا دیتی ہے۔ اسی طرح سانس اور ارتکاز توجہ کی مشقیں نفس انسانی کی تمام ممکن قوتوں کو متحرک کرکے انسانوں کو کیا سے کیا بنا دیتی ہیں۔ ان مشقوں میں صلاحیتیں تو بیدار ہوتی رہتی ہیں، منفی قوتیں بھی سرگرمِ عمل ہوجاتی ہیں۔ مگر عارضی طور پررفتہ رفتہ ذہن کا مثبت حصہ اس کے منفی حصے پر غالب آجاتا ہے۔ ہم جو لوگوں کو رہنمائی حاصل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اس کا سبب بھی یہی ہے کہ کہیں آپ اپنی ناتجربے کاری کے باعث منفی قوتوں کے حصار میں نہ پھنس کر رہ جائیں۔
اگر سانس کی مشق کے ساتھ ''سرش آسن'' کیا جائے یعنی سر کے بل کھڑا ہونا، تو دل و دماغ کی قوت میں حیرت انگیز اضافہ ہوجاتا ہے اور جسمانی صحت پر بڑے خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں سرش آسن کا طریقہ یہ ہے کہ فرش پر کمبل بچھا کر (شروع شروع) میں دیوار کے سہارے سر کے بل کھڑے ہونے کی کوشش کی جائے، رفتہ رفتہ بغیر سہارے سر کے بل کھڑے ہونے کی سکت پیدا ہوجائے گی۔ اس آسن میں جسم کا خون دماغ کی جانب جمع ہونے لگتا ہے جس سے دماغ کو تقویت ملتی ہے، ذہنی صلاحیتیں جلا پاتی ہیں اور نظر تیز ہوتی ہے۔ شروع میں سرش آسن سے آپ کو بھاری پن کی شکایت ہوگی لیکن رفتہ رفتہ جو رزلٹ آپ کے سامنے آئے گا وہ حیران کن ہوگا۔
سانس کی مشقیں خالی پیٹ بجلی کا اثر کرتی ہیں۔ صوفیوں کا ارشاد ہے کہ قلت طعام اور قلت منام (یعنی کم کھانا اور کم سونا) روحانی ترقی کی بنیادی شرط ہے۔ اور میری عرض یہ ہے کہ کم خوری اور سبک خوابی نفسیاتی صحت کے لیے ضروری ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قلت طعام یعنی بھوک رکھ کر کھانا، جسم اور نفس کی صحت کے لیے اکسیر ہے، جس طرح دماغ (شعور) معدے کو متاثر کرتا ہے (مثلاً شدتِ جذبات میں بھوک غائب ہوجاتی ہے) اسی طرح معدے کی صحت ذہنی صحت میں اضافہ کردیتی ہے۔ معدے پر گرانی نہ ہو تو انسان دماغی طور پر عجیب شگفتگی اور روحانی طور پر عجیب تازگی محسوس کرتا ہے، شاعر کہتا ہے کہ:
اندرون از طعام خالی دار
تا درد نور کبریا بینی
یعنی پیٹ کو کھانے سے خالی رکھو، تاکہ تمہیں اس میں نورالٰہی نظر آئے۔ کم خوری اور روزے کے فوائد پر کتابوں کی کتابیں لکھی جائیں تب بھی کم ہیں۔ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ ''خوردن برائے زیستن است، نہ کہ زیستن برائے خوردن'' (کھانا صرف اس لیے ہے کہ زندہ رہا جائے نہ یہ کہ صرف کھانے کے لیے زندہ رہا جائے)۔
ان مشقوں کا مقصد ہے کردار سازی۔ اور کردار سازی یہ کہ ہم مثبت انداز فکر کے ذریعے اپنے کردار کی تشکیل نو کریں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انسانی کردار میں بعض خارجی (بیرونی) اور داخلی (اندرونی) عوامل اور محرکات کے سبب جو الجھنیں گرہیں اور عقدے پڑجاتے ہیں، انھیں عقل سلیم کی روشنی میں سلجھایا جائے۔ یہ کام ہم مفید، مثبت اور تعمیری ترغیبات و تلقینات SUGESSION کے ذریعے کر سکتے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ تشکیل کردار میں سب سے زیادہ اہمیت انداز فکر کی ہے، کہ آپ سوچتے کس کس طرح ہیں۔ جس طرح سوچیں گے اسی طرح عمل کریں گے، اور سوچ پختہ ہوتی ہے خود ترغیبی ہے! مثلاً اگر آپ یہی فقرہ دہراتے رہیں کہ میں ناکارہ آدمی ہوں، یہی سوچتے رہیں کہ میرا وجود فضول اور بے معنی ہے تو یقین کیجیے، آپ کی شخصیت اور کردار تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ بجائے اس کے اگر آپ مثبت انداز فکر اپنائیں اور تعمیری خیال رکھیں تو آپ کی شخصیت کے منفی پہلو بھی مثبت طرز اختیار کرنے لگیں گے۔ مفید عملی اور حقیقت پسند آدمی بننے کے لیے مثبت سوچ اور تعمیری انداز فکر بنیادی چیز ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہخاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
مگر یہاں نور سے مطلب وہ مادی نور نہیں جس کا تجربہ روحیت کے طالب علموں کو ہوتا ہے بلکہ نور یقین و ایمان مراد ہے۔ مشق کرنے والے ایک طالب علم اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ ''جب سانس کو ناک کے سوراخوں کے ذریعے خارج کرتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ جان نکل جائے گی۔ صبح کے وقت مشق کرنے سے آنکھوں کے سامنے روشنی ہی روشنی پھیل جاتی ہے، جیسے کسی نے سرچ لائٹ جلا دی ہو، آنکھیں بند ہوتی ہیں مگر لگتا ہے کہ ہر چیز صاف نظر آ رہی ہے۔'' آپ سمجھے یہ کیا کرشمہ ہے۔ آنکھیں بند ہونے پر کوئی شخص کس طرح دیکھ سکتا ہے؟ درحقیقت یہ کرشمہ تیسری آنکھ کا ہے، جسے غدۂ صنوبری (Pineal Gland) کہتے ہیں۔ اس غدود کو پراسرار قوتوں کا مرکز کہا جاتا ہے۔ بعض علمائے روحانیت نے غدۂ صنوبری کو روح کی تخت گاہ کہا ہے۔ التجلی کی مشق کے ذریعے اس غدود کی خوابیدہ قوتوں کو بیدار کیا جاتا ہے۔
التجلی کی مشق کا طریقہ کار یہ ہے کہ آپ آنکھوں کی پتلیاں اوپر چڑھا کر دونوں نظریں ناک کی جڑ پر مرکوز کردیں اور پلک جھپکائے بغیر وہیں تکتے رہیں۔ یہ غدود پیشانی کے عقب میں واقع ہے اور تجلیات کا مرکز ہے۔ سجدے کے ذریعے (پیشانی زمین پر ٹیک کر) بھی غدۂ صنوبری (جو ایک روحانی لطیفہ ہے) کو تقویت پہنچائی جاتی ہے۔ غدۂ صنوبری مرکز تجلیات ہے۔
اس طرز کی تمام مشقیں کرنے والوں کو مشورہ ہے کہ: (1) یہ مشقیں کرنے والے اگر ہر وقت باوضو نہیں رہ سکتے تو کم سے کم مشق کرتے وقت پاک صاف لباس پہنیں اور باوضو ہوں۔ (2) یہ مشقیں کرنے والے پاک و پاکیزہ خیالات کے حامل ہوں، ورنہ فائدے کے بجائے نقصان کا اندیشہ ہے۔ ان مشقوں کے فوائد تو ظاہر ہیں لیکن جو چیز فائدہ پہنچا سکتی ہے، اس کے گزند کا بھی اندیشہ ہے۔ میں اپنے کالموں میں بارہا لکھ چکا ہوں اور اب پھر اس تنبیہ کو دہراتا ہوں کہ یہ مشقیں استاد کی اجازت کے بغیر نہ کی جائیں۔ میں نے جہاں بہت سے لوگوں کو ان مشقوں سے فائدہ اٹھاتے دیکھا ہے، وہاں ایسے لوگ بھی نظر سے گزرے جنھوں نے اجازت کی بغیر باقاعدگی کے ساتھ مشقیں شروع کیں اور نقصان اٹھایا۔
آپ میرے کالم پڑھ کر ہی کوئی مشق بذات خود اور بجائے خود شروع نہ کریں بلکہ پہلے اپنی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی کیفیات سے مطلع کریں، اور پھر ہم سے رابطہ کرکے تمام عوامل سے آگاہ کرنے کے بعد اجازت سے تجویز کردہ مشق پر عمل کریں اور حسب ضرورت مجھے اپنے حالات سے مطلع کرتے رہیں تاکہ آپ کی مناسب رہنمائی کی جاتی رہے۔ آپ دنیا کے کسی گوشے میں ہوں، خط و کتابت اور ای میل کے ذریعے مجھ سے رابطہ قائم کرسکتے ہیں۔ درحقیقت جس طرح آگ تر اور خشک دونوں کو جلا دیتی ہے۔ اسی طرح سانس اور ارتکاز توجہ کی مشقیں نفس انسانی کی تمام ممکن قوتوں کو متحرک کرکے انسانوں کو کیا سے کیا بنا دیتی ہیں۔ ان مشقوں میں صلاحیتیں تو بیدار ہوتی رہتی ہیں، منفی قوتیں بھی سرگرمِ عمل ہوجاتی ہیں۔ مگر عارضی طور پررفتہ رفتہ ذہن کا مثبت حصہ اس کے منفی حصے پر غالب آجاتا ہے۔ ہم جو لوگوں کو رہنمائی حاصل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اس کا سبب بھی یہی ہے کہ کہیں آپ اپنی ناتجربے کاری کے باعث منفی قوتوں کے حصار میں نہ پھنس کر رہ جائیں۔
اگر سانس کی مشق کے ساتھ ''سرش آسن'' کیا جائے یعنی سر کے بل کھڑا ہونا، تو دل و دماغ کی قوت میں حیرت انگیز اضافہ ہوجاتا ہے اور جسمانی صحت پر بڑے خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں سرش آسن کا طریقہ یہ ہے کہ فرش پر کمبل بچھا کر (شروع شروع) میں دیوار کے سہارے سر کے بل کھڑے ہونے کی کوشش کی جائے، رفتہ رفتہ بغیر سہارے سر کے بل کھڑے ہونے کی سکت پیدا ہوجائے گی۔ اس آسن میں جسم کا خون دماغ کی جانب جمع ہونے لگتا ہے جس سے دماغ کو تقویت ملتی ہے، ذہنی صلاحیتیں جلا پاتی ہیں اور نظر تیز ہوتی ہے۔ شروع میں سرش آسن سے آپ کو بھاری پن کی شکایت ہوگی لیکن رفتہ رفتہ جو رزلٹ آپ کے سامنے آئے گا وہ حیران کن ہوگا۔
سانس کی مشقیں خالی پیٹ بجلی کا اثر کرتی ہیں۔ صوفیوں کا ارشاد ہے کہ قلت طعام اور قلت منام (یعنی کم کھانا اور کم سونا) روحانی ترقی کی بنیادی شرط ہے۔ اور میری عرض یہ ہے کہ کم خوری اور سبک خوابی نفسیاتی صحت کے لیے ضروری ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قلت طعام یعنی بھوک رکھ کر کھانا، جسم اور نفس کی صحت کے لیے اکسیر ہے، جس طرح دماغ (شعور) معدے کو متاثر کرتا ہے (مثلاً شدتِ جذبات میں بھوک غائب ہوجاتی ہے) اسی طرح معدے کی صحت ذہنی صحت میں اضافہ کردیتی ہے۔ معدے پر گرانی نہ ہو تو انسان دماغی طور پر عجیب شگفتگی اور روحانی طور پر عجیب تازگی محسوس کرتا ہے، شاعر کہتا ہے کہ:
اندرون از طعام خالی دار
تا درد نور کبریا بینی
یعنی پیٹ کو کھانے سے خالی رکھو، تاکہ تمہیں اس میں نورالٰہی نظر آئے۔ کم خوری اور روزے کے فوائد پر کتابوں کی کتابیں لکھی جائیں تب بھی کم ہیں۔ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ ''خوردن برائے زیستن است، نہ کہ زیستن برائے خوردن'' (کھانا صرف اس لیے ہے کہ زندہ رہا جائے نہ یہ کہ صرف کھانے کے لیے زندہ رہا جائے)۔
ان مشقوں کا مقصد ہے کردار سازی۔ اور کردار سازی یہ کہ ہم مثبت انداز فکر کے ذریعے اپنے کردار کی تشکیل نو کریں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انسانی کردار میں بعض خارجی (بیرونی) اور داخلی (اندرونی) عوامل اور محرکات کے سبب جو الجھنیں گرہیں اور عقدے پڑجاتے ہیں، انھیں عقل سلیم کی روشنی میں سلجھایا جائے۔ یہ کام ہم مفید، مثبت اور تعمیری ترغیبات و تلقینات SUGESSION کے ذریعے کر سکتے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ تشکیل کردار میں سب سے زیادہ اہمیت انداز فکر کی ہے، کہ آپ سوچتے کس کس طرح ہیں۔ جس طرح سوچیں گے اسی طرح عمل کریں گے، اور سوچ پختہ ہوتی ہے خود ترغیبی ہے! مثلاً اگر آپ یہی فقرہ دہراتے رہیں کہ میں ناکارہ آدمی ہوں، یہی سوچتے رہیں کہ میرا وجود فضول اور بے معنی ہے تو یقین کیجیے، آپ کی شخصیت اور کردار تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ بجائے اس کے اگر آپ مثبت انداز فکر اپنائیں اور تعمیری خیال رکھیں تو آپ کی شخصیت کے منفی پہلو بھی مثبت طرز اختیار کرنے لگیں گے۔ مفید عملی اور حقیقت پسند آدمی بننے کے لیے مثبت سوچ اور تعمیری انداز فکر بنیادی چیز ہے۔