بھارتی جیلوں میں قید بے قصور پاکستانی ماہی گیر

پاکستان کے جذبۂ خیر سگالی کے جواب میں بھارتی حکام مسلسل لاشوں کے تحفے بھیجنے میں مصروف ہیں


شعیب مختار May 11, 2019
بھارتی جیلوں میں سیکڑوں پاکستانی ماہی گیر بے قصور قید ہیں۔ (تصویر: انٹرنیٹ)

ISLAMABAD: پاکستان میں ایک طبقہ ماہی گیری ہے جو قیام پاکستان سے لے کر اب تک نسل در نسل اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ پاکستان میں ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ افراد کی تعداد 30 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ پاکستان میں سمندری ماہی گیری سے سالانہ ساڑھے چھ لاکھ ٹن سے زائد مچھلی پکڑی جاتی ہے، جس کی مالیت کا اگر تخمینہ لگایا جائے تو ان برآمد شدہ مچھلیوں کی قیمت 12 ارب سے زائد بنتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں ماہی گیروں کی 10 لاکھ سے زائد آبادی موجود ہے۔

رواں سال وزیراعظم پاکستان عمران خان کے اعلان کے بعد حالیہ دنوں پاکستان میں خیرسگالی کا ایک نیا جذبہ بیدار ہوا ہے۔ گزشتہ چھ ماہ کے دورانیے میں پاکستان نے 360 بھارتی ماہی گیر رہا کیے ہیں۔ پاکستان کے اس اقدام پر بھی بھارت کی جانب سے کسی قسم کا کوئی خاص جواب سامنے نہیں آسکا۔ البتہ بھارتی حکام کی جانب سے سمندری حدود کا تعین نہ ہونے پر غلطی سے بھارتی حدود میں داخل ہونے والے 2 ماہی گیروں کی تشدد زدہ لاشیں بھیجی گئیں۔

اس وقت بھارتی جیلوں میں پاکستان کے 108 ماہی گیر قید ہیں، جن کی رہائی سے متعلق حکومت کی جانب سے کسی قسم کے کوئی اقدامات نہیں کئے جاسکے ہیں۔2013 سے 2018 تک پاکستان کی جانب سے بھارت کے 4 ہزار سے زائد ماہی گیر رہا کیے گئے ہیں، جبکہ بھارت کی جانب سے ان پانچ سال میں صرف 272 پاکستانی ماہی گیروں کو رہا گیا۔

عمومی طور پر بھارتی جیلوں میں زندگی کی بازی ہارنے والے ماہی گیروں کو بھارتی حکام کی جانب سے کئی ماہ تک بھارت میں موجود سرد خانوں میں رکھا جاتا ہے، بعد ازاں پاکستان کی جانب سے دستاویزات فراہم کرنے پر ان کی لاشوں کو واہگہ بارڈر سے پاکستانی حکام کے حوالے کیا جاتا ہے۔

پاکستان سے مچھلیاں پکڑتے بھارتی حدود میں داخل ہونے والے ماہی گیروں کو اکثر و بیشتر بھارت کی جانب سے منظرعام پر نہ لانے کے واقعات کئی مرتبہ رونما ہوچکے ہیں، جن کی بھارتی تحویل میں موجودگی سے متعلق طویل عرصہ گزر جانے کے بعد پاکستانی حکام کو آ گاہ کیا جاتا ہے۔ نیز پاکستان کے جذبۂ خیر سگالی کے جواب میں بھارتی جارحیت کی نشاندہی پاکستان پہنچنے والے دو ماہی گیر، جن میں محمد سہیل ولد عبدالرشید، نورالامین ولد مفجل احمد کی تشدد زدہ لاشوں نے کردی ہے۔ پاکستان میں بھارتی قیدیوں کے مقابلے میں بھارتی جیلوں میں پاکستانی قیدیوں کی تعداد 20 فیصد پائی جاتی ہے۔

سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کا وہ واحد دور تھا جب بھارتی جیل میں پاکستان کا ایک بھی ماہی گیر نہیں پایا جاتا تھا، بلکہ سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنے والے دونوں ملکوں سے تعلق رکھنے والے ماہی گیروں کو سمندری راستوں سے ہی ان کے ملک کے ذمے داران کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ 2005 میں دونوں ملکوں کے سیکیورٹی خدشات کے باعث نیا نظام نافذ ہوا، جس کے تحت سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنے والے ماہی گیروں کا سامان اور لانچیں ضبط کی جانے لگیں۔ جس کے بعد بھی پاکستان نے جذبۂ خیر سگالی کو اپنے شعار کا حصہ بناتے ہوئے 2015 میں بھارت کی ضبط کی گئی 57 لانچیں بھارتی حکام کے حوالے کردیں۔ لیکن بھارت کے رویے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی سامنے نہیں آئی۔ اس وقت بھارتی تحویل میں پاکستان کی 132 لانچیں موجود ہیں جن کی مالیت کروڑوں روپے بنتی ہے۔

پاکستان کے بھارت میں قید 108 ماہی گیر موجود ہیں جو غلطی سے سمندری حدود کا تعین نہ ہونے پر بھارت پہنچ گئے۔ دونوں ملکوں کے ماہی گیروں کی ایک دوسرے کی سمندری حدود میں داخل ہونے سے متعلق قوانین بنائے گئے ہیں، جس کے تحت ان کے لیے 3 ماہ کی سزا مختص کی گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی دونوں ملکوں کے مابین آپس کے تعلقات بہتر نہ ہونے کے باعث حکمرانوں کی غفلت کی سزا ماہی گیری پیشے سے منسلک افراد بھگتنے پر مجبور ہیں۔ جنہیں سزا کی میعاد مکمل ہونے پر بھی طویل عرصے تک جیلوں میں قید رکھا جاتا ہے۔

پاکستان میں ماہی گیری کے دوران غلطی اور سمت کا تعین نہ ہونے کے پیش نظر بھارت کی حدود میں داخل ہونے کے زیادہ تر واقعات کے ٹی بندرگاہ پر پیش آتے ہیں۔ جس سے متعلق ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر مچھلیاں بلوچستان کے ساحلوں پر پائی جاتی ہیں، تاہم سی پیک منصوبوں کی سخت سیکیورٹی اور بلوچستان کے ساحل گوادر، پسنی اور اورماڑہ کے باسیوں کے سمندروں پر قبضے کے باعث ان سے بلوچستان کے ساحلوں پر شکار کے لیے ایک خطیر رقم کا تقاضا کیا جاتا ہے، جنہیں وہ دینے سے قاصر ہیں۔ اس بنا پر ماہی گیروں کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد کے ٹی بندرگاہ کا رخ کرتی ہے۔ جہاں ماہی گیرغلطی سے سمت کا تعین نہ ہونے پربھارت پہنچ جاتے ہیں۔

کے ٹی بندرگار سے بھارتی حدود میں داخل ہونے والے اور پانچ سال تک بھارتی جیل میں قید کی سزا کاٹنے کے بعد پاکستان واپس آنے والے ماہی گیر عامر حسین کا کہنا ہے کہ 2013 کی ایک شام جب وہ اپنے بیٹے شبیر احمد اور 7 ساتھیوں کے ساتھ کھلے سمندر میں ماہی گیری میں مصروف تھا تو اچانک انہیں دوسری سمت سے آنے والی پاکستانی لانچ نے مدد کے لیے پکارا۔ مدد کی نیت سے قریب جاتے ہی انہیں بھارتی نیوی کی جانب سے پکڑلیا گیا اور بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد بھارت منتقل کردیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی نیوی کی جانب سے انہیں سمندر کے جس احاطے سے گرفتار کیا گیا وہ پاکستان کا حصہ تھا، جہاں پاکستانی نیوی کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی نیوی نے انہیں گرفتار کیا۔ عامر حسین کا مزید کہنا ہے کہ جس پاکستان لانچ کی جانب سے انہیں اشارہ دیا گیا تھا اس میں بھارتی تحویل میں لیے گئے پاکستانی ماہی گیر پہلے سے ہی موجود تھے۔ بعد ازاں انہیں 2018 میں رہا کردیا گیا۔ لیکن بھارتی پالیسی کے مطابق ایک خاندان کے دو افراد کو رہا نہ کرنے پر آج بھی ان کا بیٹا شبیر حسین بھارتی جیل میں بنا کسی جرم قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔

جیل میں گزارے ہوئے ایام سے متعلق ماہی گیر عامر حسین کا کہنا تھا کہ بھارت میں دن کے تینوں اوقات انتہائی کم مقدار میں کھانا دیا جاتا ہے، جبکہ ایک فرد کے مطابق زیادہ کھانے کا تقاضا کرنے پر ان سے بدسلوکی کا مظاہرہ کیا جاتا تھا۔ بھارتی جیل حکام کی جانب سے کھانے میں کچھ ایسی اشیا کی ملاوٹ بھی کی جاتی تھی جس سے ان کا ذہن مسلسل سویا رہنے کے ساتھ پورے دن سکتہ طاری رہتا تھا۔ بھارتی جیل سے متعلق عامر حسین نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت کی جیل میں پاکستانی ماہی گیروں کی الگ بیرک موجود ہے۔ یہ بات قطعی درست نہیں کہ بھارتی جیل میں ماہی گیر ایک دوسرے کے تشدد سے ہلاک ہورہے ہیں۔ آج پاکستانی ماہی گیروں کی بھیجی جانے والی لاشیں بھارتی اوچھے ہتھکنڈوں اور پاکستانی حکمرانوں کی غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

پاکستان کے جذبۂ خیر سگالی کے جواب میں بھارت کی جانب سے منفی جواب ملنے پر جہاں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدان اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں، وہیں چیئرمین فشرمینز کوآپریٹو سوسائٹی عبدالبر کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی کاوشوں سے متعدد ماہی گیر بھارتی قید سے رہائی پانے کے بعد اپنے وطن میں آزادانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں بھارتی حکام کی جانب سے 2 پاکستانی ماہی گیروں کی لاشوں کی وطن واپسی میں بھی ایف سی ایس کے چیئرمین کا کردار ابھر کر سامنے آیا۔ نیز ان کی جانب سے دونوں ماہی گیروں کے خاندانوں کی مالی امداد کی گئی، جس کی بنیادی ذمے داری حکومتی نمائندوں پر عائد ہوتی تھی۔ ایف سی ایس کا عملہ بھارتی جیل میں قید پاکستانی ماہی گیروں کی وطن واپسی کے لیے دن رات کو شاں ہے اور ہر وہ ممکن اقدامات اٹھانے میں مصروف ہے جس کے ذریعے بھارتی تحویل میں موجود پاکستانی ماہی گیروں کی رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بحفاظت وطن واپسی کو یقینی بنایا جاسکے تاکہ وہ عید اپنے پیاروں کے ہمراہ مناسکیں۔

پاکستان وزراتِ خارجہ کا ماہی گیروں کی بھارتی تحویل پر کردار نہایت مایوس کن ہے۔ ایک جانب جہاں پاکستان جذبۂ خیر سگالی کی نیت سے ملک میں دہشتگردی کی نیت سے داخل ہونے والے بھارتی پائلٹ ابھی نندن سمیت پاکستان کی سمندری حدود میں غلطی سے داخل ہونے والے ماہی گیروں کو پے در پے صحیح سلامت رہا کرنے میں مثبت کردار ادا کررہا ہے تو دوسری جانب بھارتی حکام جذبۂ خیر سگالی کے جواب میں مسلسل لاشوں کے تحفے بھیجنے میں مصروف ہیں۔ ایک جانب جہاں پاکستان کے جذبۂ خیر سگالی کے اقدام کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہورہی ہے تو دوسری جانب بھارت کو ان تمام تر حلقوں سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

بھارتی قید میں موجود پاکستانی ماہی گیروں کے اہل خانہ آج بھی اپنے پیاروں کی راہ دیکھ رہے ہیں اور پاکستانی حکام کے ایسے اقدام کا انتظار کررہے ہیں جس کے ذریعے ان تمام ماہی گیروں کو بحفاظت وطن واپس لایا جاسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں