بھارت کا غیر منصفانہ رویہ
گزشتہ دور کی تاریخ میں ہم نے یہ دیکھا ہے، ہماری مشکلوں کا فائدہ تم نے ہمیشہ ہی اٹھایا ہے
پاکستان و ہندوستان کے حوالے سے ممتاز و معتبر شاعر فضا اعظمی نے 2003 میں ''عذاب ہمسائیگی'' کے عنوان سے کتاب لکھی تھی جوکہ طویل نظم ہے اور مسدس کی شکل میں ہے، انھوں نے ہندوستان کے حکمرانوں کا المیہ بیان کیا تھا کہ وہ کسی بھی صورت میں پاکستان کو پنپتا نہیں دیکھ سکتے ہیں، تعلقات اچھے ہوں یا برے وہ اپنے بغض و عناد، نفرت و تعصب کا اظہار پاکستانی سرحدوں پر حملے کرکے کرتے ہیں۔ لیکن دشمنی کی آگ قیام پاکستان کے بعد سے جو بھڑکی ہے وہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ہے۔ ان ہی حالات و واقعات کے تناظر میں فضا اعظمی نے یہ اشعار تخلیق کیے، جو گزشتہ و موجودہ حالات کے عکاس ہیں۔
گزشتہ دور کی تاریخ میں ہم نے یہ دیکھا ہے
ہماری مشکلوں کا فائدہ تم نے ہمیشہ ہی اٹھایا ہے
ہمیشہ ہی ہماری پیٹھ میں خنجر اتارا ہے
یہ وہ طرز عمل ہے جو رفاقت کے منافی ہے
کہ جو ہمسائیگی کے باہمی رشتوں کا قاتل ہے
یہ ایسے زخم ہائے خوں چکاں ہیں، تم یقین مانو
کہ جو ہمسائیگی کی روح کو مجروح کرتے ہیں
بھلانا جن کا مشکل ہے
انھیں ہم نے بھلایا ہے
مگر تم اپنی کینہ پروری کی حرکتِ مذموم و اسفل سے
کبھی تائب نہیں ہوتے
گزشتہ 65 برسوں سے ایسی ہی صورت حال ہے۔ ان دنوں پھر بھارت جنگی جنون میں مبتلا ہوچکا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے اس نے اپنے ایجنٹوں کو پاکستان منتقل کرکے اس کی بنیادوں میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کی، پاکستان میں دہشت گردی و قتل و غارت گری کا بازار گرم کروایا، ہمارے اپنے ہی لوگوں کو آسانی سے اسی طرح خرید لیا جس طرح ماضی میں سقوط پاکستان کے وقت ڈرامہ رچایا تھا اور اس وحشتناک ڈرامے کا ڈراپ سین جنرل نیازی کو دستخط کرنے کے بعد ہوگیا۔ کس طرح ہندوستانی افواج، پاکستان کی اہم ترین شخصیات پر حاوی ہوئی وہ کیا دن اور کیا منظر تھا؟ اس درد کو قوم آج تک نہیں بھلا سکی ہے اور ایسی اذیت تھی جو رگ و پے میں سماگئی ہے۔ اس وقت بھی ہماری ہی کمزوریاں تھیں، میروجعفر کا کردار ادا کرنے والوں کی کمی نہیں تھی اور اب پھر پاکستان نازک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایسے میں حکمرانوں کی بصیرت افروزی کی سخت ضرورت ہے کہ وہ دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیں۔
تقریباً 20-15 روز سے سرحدی خلاف ورزی عروج پر ہے۔ بھارت کنٹرول لائن پر مسلسل فائرنگ کر رہا ہے، بھارت کی نارووال سیکٹر میں بلااشتعال فائرنگ سے ایک شخص زخمی بھی ہوا اور پھر اس نے جام شہادت نوش کیا۔ پاک بھارت سرحدی کشیدگی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ مذہبی انتہاپسند ہندوؤں نے دوستی بسوں پر حملے کرکے اس دوستی کو دشمنی میں بدل دیا ہے۔ سیالکوٹ اور کوٹلی کے سرحدی دیہات پر کنٹرول لائن سے خوب فائرنگ کی گئی جس کی وجہ سے خوف و ہراس میں اضافہ ہوا ہے اور تقریباً روز ہی ہمارے فوجی جوان شہید ہوتے ہیں۔ بھارتی فائرنگ سے کیپٹن حافظ سرفراز شہید ہوئے اور سپاہی یاسین شدید زخمی ہوگئے۔ کیپٹن حافظ سرفراز کی شہادت پر ان کے والد صوبیدار میجر منصب علی (ر) نے کہا کہ انھیں فخر ہے کہ ان کے جواں سال بیٹے نے شہادت کا تاج سر پر سجالیا ہے۔ یقیناً یہ بہت بڑا مرتبہ ہے جو افواج پاکستان کے جوانوں کو میسر آتا ہے، دوسرے لوگ بھی شہادت کا مرتبہ حکم خداوندی سے حاصل کرلیتے ہیں لیکن مسلمان مسلمان کو مار کر کبھی بھی اس اعلیٰ و ارفع مقام پر نہیں پہنچ سکتا ہے۔
پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے۔ بھارت پاکستان کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ بھی بدلہ لے اور گولہ بارود سے فضا کو آلودہ کرے تاکہ مزید جنگ کا موقع میسر آئے اور وہ پاکستان کی اندرونی کمزوریوں اور بیرونی خطرات سے پورا پورا فائدہ اٹھاسکے۔ ہندوستان کو بچا کھچا پاکستان اور اس کی سالمیت ایک آنکھ نہیں بھا رہی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان قدرت کا عظیم ترین تحفہ ہے۔ آزادی کا کوئی نعم البدل نہیں اور ان حالات میں بھی پاکستان قائم و دائم ہے تو یہ اﷲ رب العزت کی کرم نوازی ہے کہ پاکستان کو چاروں طرف سے گھیرنے کے باوجود پاکستان صحیح و سالم ہے۔ ہماری افواج پختہ ارادوں کی مالک ہے، اسے ہر حال میں پاکستان کی بقا عزیز ہے۔ قومی حمیت زندہ و تابندہ ہے، ان کا مذہبی جوش و جذبہ فرائض کی ادائیگی کو تقویت بخشنے کے لیے کافی ہے۔اس موقع پر مجھے قائداعظم کی وہ تقریر یاد آگئی ہے جو حالات حاضرہ کی نمایندگی کرتی ہے۔ قائداعظم نے مشرقی بنگال میں جوکہ اب بنگلہ دیش ہے، تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ :
''ہم میں یگانگت اور خوداعتمادی لازمی ہیں، میں آپ لوگوں کو اس بات سے بھی آگاہ کردینا چاہتا ہوں کہ ہم میں مخالفین کے مقرر کیے ہوئے کرائے کے ایسے مفسد اور فتنہ پرداز بھی ہیں جن کا مقصد پاکستان کو مٹانا ہے۔ اس کے لیے آپ کو پوری حفاظتی تدبیریں بھی اختیار کرنی ہیں تاکہ ان فسادیوں سے اپنے ملک کو محفوظ رکھیں۔ اس صوبے میں ان مسلمانوں سے بیزاری کا اظہار کیا جارہا ہے جو بنگالی نہیں ہیں اور یہ جھگڑا بھی چل رہا ہے کہ پاکستان کی سرکاری زبان ''اردو'' نہیں بنگلہ ہونی چاہیے، بعض سیاسی ابن الوقت زبان کے موجودہ مسئلے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ میرے نوجوانو! تم کسی سیاسی پارٹی کے چکر میں نہ پھنسو، لوگوں کے بہلانے میں نہ آؤ، آپس میں شیروشکر ہوجاؤ، اس کی تعمیر کے لیے ہر ممکن کوشش کیجیے''۔
ہم سب کا قائد ایک ہے وہ ہیں قائداعظم۔ وہ نہ سہی تو ان کے افکار و خیالات ہیں۔ ان کی تقریر و تحریر، ان کا کردار ہم سب کے سامنے ہے۔ ہر دور میں پاکستان کے دشمن سینہ سپر اور پاکستان کو مٹانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے سیاسی شخصیات کا قتل جاری ہے۔ یہ بھی پاکستان کے امن وسکون کو سبوتاژ کرنے کی گھناؤنی سازش ہے۔ جس میں ہندوستان سرفہرست ہے۔
پاکستان نہ تنہا تھا اور نہ ہے۔ پاکستان کا دہشت گردی سے ذرہ برابر تعلق نہیں ہے۔ البتہ پاکستان کی سرزمین کو دہشت گرد استعمال کررہے ہیں، پاکستان کے سادہ لوح نوجوانوں کو چند سکوں کے عوض آلہ کار بناتے ہیں۔ آج پاکستان میں علم کا بول بالا ہوتا تو آپ یقین کیجیے کوئی بھی پاکستانی ہرگز نہ بکتا، کوئی کسی کو قتل نہ کرتا، وہ اپنے لیڈر سے زیادہ اپنے رب سے ڈرتا کہ اسے ایک دن اپنے مالک کے سامنے حاضر اور اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہونا ہے۔ تعلیم کی زبوں حالی، حکومت کی غفلت نے ملک میں جہالت کے اندھیروں کو خوب پھیلایا ہے۔ اس تاریکی میں بے شعور، عقل سے پیدل لوگ اچھا برا دیکھنے اور پرکھنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے تعلیم کو عام کرنا ہوگا۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی، اتفاق ومحبت ہی ہندوستان جیسے ہمسائے کے حوصلوں کو پست کرسکتی ہے، اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ دور کی تاریخ میں ہم نے یہ دیکھا ہے
ہماری مشکلوں کا فائدہ تم نے ہمیشہ ہی اٹھایا ہے
ہمیشہ ہی ہماری پیٹھ میں خنجر اتارا ہے
یہ وہ طرز عمل ہے جو رفاقت کے منافی ہے
کہ جو ہمسائیگی کے باہمی رشتوں کا قاتل ہے
یہ ایسے زخم ہائے خوں چکاں ہیں، تم یقین مانو
کہ جو ہمسائیگی کی روح کو مجروح کرتے ہیں
بھلانا جن کا مشکل ہے
انھیں ہم نے بھلایا ہے
مگر تم اپنی کینہ پروری کی حرکتِ مذموم و اسفل سے
کبھی تائب نہیں ہوتے
گزشتہ 65 برسوں سے ایسی ہی صورت حال ہے۔ ان دنوں پھر بھارت جنگی جنون میں مبتلا ہوچکا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے اس نے اپنے ایجنٹوں کو پاکستان منتقل کرکے اس کی بنیادوں میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کی، پاکستان میں دہشت گردی و قتل و غارت گری کا بازار گرم کروایا، ہمارے اپنے ہی لوگوں کو آسانی سے اسی طرح خرید لیا جس طرح ماضی میں سقوط پاکستان کے وقت ڈرامہ رچایا تھا اور اس وحشتناک ڈرامے کا ڈراپ سین جنرل نیازی کو دستخط کرنے کے بعد ہوگیا۔ کس طرح ہندوستانی افواج، پاکستان کی اہم ترین شخصیات پر حاوی ہوئی وہ کیا دن اور کیا منظر تھا؟ اس درد کو قوم آج تک نہیں بھلا سکی ہے اور ایسی اذیت تھی جو رگ و پے میں سماگئی ہے۔ اس وقت بھی ہماری ہی کمزوریاں تھیں، میروجعفر کا کردار ادا کرنے والوں کی کمی نہیں تھی اور اب پھر پاکستان نازک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایسے میں حکمرانوں کی بصیرت افروزی کی سخت ضرورت ہے کہ وہ دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیں۔
تقریباً 20-15 روز سے سرحدی خلاف ورزی عروج پر ہے۔ بھارت کنٹرول لائن پر مسلسل فائرنگ کر رہا ہے، بھارت کی نارووال سیکٹر میں بلااشتعال فائرنگ سے ایک شخص زخمی بھی ہوا اور پھر اس نے جام شہادت نوش کیا۔ پاک بھارت سرحدی کشیدگی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ مذہبی انتہاپسند ہندوؤں نے دوستی بسوں پر حملے کرکے اس دوستی کو دشمنی میں بدل دیا ہے۔ سیالکوٹ اور کوٹلی کے سرحدی دیہات پر کنٹرول لائن سے خوب فائرنگ کی گئی جس کی وجہ سے خوف و ہراس میں اضافہ ہوا ہے اور تقریباً روز ہی ہمارے فوجی جوان شہید ہوتے ہیں۔ بھارتی فائرنگ سے کیپٹن حافظ سرفراز شہید ہوئے اور سپاہی یاسین شدید زخمی ہوگئے۔ کیپٹن حافظ سرفراز کی شہادت پر ان کے والد صوبیدار میجر منصب علی (ر) نے کہا کہ انھیں فخر ہے کہ ان کے جواں سال بیٹے نے شہادت کا تاج سر پر سجالیا ہے۔ یقیناً یہ بہت بڑا مرتبہ ہے جو افواج پاکستان کے جوانوں کو میسر آتا ہے، دوسرے لوگ بھی شہادت کا مرتبہ حکم خداوندی سے حاصل کرلیتے ہیں لیکن مسلمان مسلمان کو مار کر کبھی بھی اس اعلیٰ و ارفع مقام پر نہیں پہنچ سکتا ہے۔
پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے۔ بھارت پاکستان کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ بھی بدلہ لے اور گولہ بارود سے فضا کو آلودہ کرے تاکہ مزید جنگ کا موقع میسر آئے اور وہ پاکستان کی اندرونی کمزوریوں اور بیرونی خطرات سے پورا پورا فائدہ اٹھاسکے۔ ہندوستان کو بچا کھچا پاکستان اور اس کی سالمیت ایک آنکھ نہیں بھا رہی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان قدرت کا عظیم ترین تحفہ ہے۔ آزادی کا کوئی نعم البدل نہیں اور ان حالات میں بھی پاکستان قائم و دائم ہے تو یہ اﷲ رب العزت کی کرم نوازی ہے کہ پاکستان کو چاروں طرف سے گھیرنے کے باوجود پاکستان صحیح و سالم ہے۔ ہماری افواج پختہ ارادوں کی مالک ہے، اسے ہر حال میں پاکستان کی بقا عزیز ہے۔ قومی حمیت زندہ و تابندہ ہے، ان کا مذہبی جوش و جذبہ فرائض کی ادائیگی کو تقویت بخشنے کے لیے کافی ہے۔اس موقع پر مجھے قائداعظم کی وہ تقریر یاد آگئی ہے جو حالات حاضرہ کی نمایندگی کرتی ہے۔ قائداعظم نے مشرقی بنگال میں جوکہ اب بنگلہ دیش ہے، تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ :
''ہم میں یگانگت اور خوداعتمادی لازمی ہیں، میں آپ لوگوں کو اس بات سے بھی آگاہ کردینا چاہتا ہوں کہ ہم میں مخالفین کے مقرر کیے ہوئے کرائے کے ایسے مفسد اور فتنہ پرداز بھی ہیں جن کا مقصد پاکستان کو مٹانا ہے۔ اس کے لیے آپ کو پوری حفاظتی تدبیریں بھی اختیار کرنی ہیں تاکہ ان فسادیوں سے اپنے ملک کو محفوظ رکھیں۔ اس صوبے میں ان مسلمانوں سے بیزاری کا اظہار کیا جارہا ہے جو بنگالی نہیں ہیں اور یہ جھگڑا بھی چل رہا ہے کہ پاکستان کی سرکاری زبان ''اردو'' نہیں بنگلہ ہونی چاہیے، بعض سیاسی ابن الوقت زبان کے موجودہ مسئلے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ میرے نوجوانو! تم کسی سیاسی پارٹی کے چکر میں نہ پھنسو، لوگوں کے بہلانے میں نہ آؤ، آپس میں شیروشکر ہوجاؤ، اس کی تعمیر کے لیے ہر ممکن کوشش کیجیے''۔
ہم سب کا قائد ایک ہے وہ ہیں قائداعظم۔ وہ نہ سہی تو ان کے افکار و خیالات ہیں۔ ان کی تقریر و تحریر، ان کا کردار ہم سب کے سامنے ہے۔ ہر دور میں پاکستان کے دشمن سینہ سپر اور پاکستان کو مٹانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے سیاسی شخصیات کا قتل جاری ہے۔ یہ بھی پاکستان کے امن وسکون کو سبوتاژ کرنے کی گھناؤنی سازش ہے۔ جس میں ہندوستان سرفہرست ہے۔
پاکستان نہ تنہا تھا اور نہ ہے۔ پاکستان کا دہشت گردی سے ذرہ برابر تعلق نہیں ہے۔ البتہ پاکستان کی سرزمین کو دہشت گرد استعمال کررہے ہیں، پاکستان کے سادہ لوح نوجوانوں کو چند سکوں کے عوض آلہ کار بناتے ہیں۔ آج پاکستان میں علم کا بول بالا ہوتا تو آپ یقین کیجیے کوئی بھی پاکستانی ہرگز نہ بکتا، کوئی کسی کو قتل نہ کرتا، وہ اپنے لیڈر سے زیادہ اپنے رب سے ڈرتا کہ اسے ایک دن اپنے مالک کے سامنے حاضر اور اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہونا ہے۔ تعلیم کی زبوں حالی، حکومت کی غفلت نے ملک میں جہالت کے اندھیروں کو خوب پھیلایا ہے۔ اس تاریکی میں بے شعور، عقل سے پیدل لوگ اچھا برا دیکھنے اور پرکھنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے تعلیم کو عام کرنا ہوگا۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی، اتفاق ومحبت ہی ہندوستان جیسے ہمسائے کے حوصلوں کو پست کرسکتی ہے، اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔