شام پرغیرملکی جارحیت کا خطرہ

امریکا نے اعلان کیا ہے کہ مصر اور شام کے بحران کے حوالے سے کوئی سخت قدم اٹھانے کا وقت قریب آ گیا ہے.


Editorial August 24, 2013
یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے اس خطے میں بڑی طاقتوں کی آویزش میں شدت پیدا ہو رہی ہے۔ فوٹو : اے ایف پی/فائل

امریکا نے اعلان کیا ہے کہ مصر اور شام کے بحران کے حوالے سے کوئی سخت قدم اٹھانے کا وقت قریب آ گیا ہے۔ دوسری طرف روس نے کہا ہے کہ شام میں طاقت کے استعمال کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ان بیانات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے اس خطے میں بڑی طاقتوں کی آویزش میں شدت پیدا ہو رہی ہے۔ امریکا شام کی خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کے مخالفین کی علی الاعلان مدد کر رہا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہائٹ ہاؤس میں صدر کی براہ راست نگرانی میں ایک خصوصی شعبہ بھی قائم کر دیا گیا ہے جس کے ذریعے شام کے باغیوں کو ہتھیار بھی فراہم ہو رہے ہیں اور دیگر وسائل بھی۔ ادھر روس کا جھکاؤ شام کی حکومت کی طرف ہے جسے ایران کی مدد بھی حاصل ہے۔

امریکی صدر اوباما نے جمعہ کے دن سی این این کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ امریکا ابھی بشار حکومت کی طرف سے مخالفین پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے شواہد اکٹھے کر رہا ہے جن کی روشنی میں شام کے خلاف اگلے اقدام کا فیصلہ کیا جائے گا۔ صدر اوباما نے گزشتہ سال کہا تھا کہ اگر شامی حکومت نے مخالفین پر کیمیاوی ہتھیار استعمال کیے تو یہ گویا ''سرخ لائن'' عبور کرنے کی بات ہو گی جس پر مناسب اقدامات کیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ یہ اسی صورت حال کا اعادہ ہے جو دنیا عراق پر سابق امریکی صدر بش جونیئر کے حملے کی صورت میں پہلے ہی دیکھ چکی ہے لہٰذا فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب امریکا شام پر بھی حملے کی پیش بندی کر رہا ہے۔

قبل ازیں کرنل قذافی کے لیبیا کے ساتھ بھی اس قسم کی واردات ہو چکی ہے جس کی فضائی حدود پر پابندیاں عائد کر کے امریکا اور نیٹو نے وہاں بمباری کرائی اور پھر کرنل قذافی کو ہجوم کے ذریعے قتل کرا کے اس ملک پر باغیوں کا قبضہ کرا دیا۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا امریکا ایک اور جنگ کے لیے تیار ہے' صدر اوباما نے کہا کہ ایک جنگ تو پہلے ہی جاری ہے۔ یہ افغانستان کی جنگ ہے جس پر امریکا کے اربوں کھربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں۔ اوباما نے کہا جہاں تک شام کا تعلق ہے تو امریکا چاہتا ہے کہ بشار الاسد کی حکومت ختم کر دی جائے۔ مصر کے حوالے سے پوچھے گئے سوال میں صدر اوباما نے کہا کہ امریکا کی طرف سے مصر کی فوجی حکومت کو 1.2 ارب ڈالر کی امداد جاری کی جا رہی ہے۔

روس نے امریکا کی دیگر مغربی ممالک کی طرف سے شام کے خلاف طاقت کے استعمال کے اعلانات کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ شام میں کسی بیرونی ملک کی طرف سے طاقت کا استعمال قبول نہیں کیا جائے گا۔ برطانیہ اور فرانس نے بھی شامی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ مخالفین پر کیمیاوی ہتھیار استعمال کر رہی ہے جب کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ انھوں نے اس الزام کی تحقیقات کے لیے اپنی انڈر سیکریٹری جنرل انجیلا کانے کو دمشق بھجوا دیا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے بشار حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے ایٹمی انسپکٹروں کو ملک میں آنے اور تحقیقات کرنے کی اجازت دے۔ یوں دیکھا جائے تو شام میں لیبیا کی تاریخ دہرانے کی تیاریاں تقریباً مکمل ہو چکی ہیں اور اس ملک پر غیر ملکی جارحیت کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں